ہیرو شیما سے سرینگر

ہیرو شیما وہ شہر ہے جس پر 6 اگست 1945ء کو پہلا ایٹم بم گرایا گیا تھا‘ اسی شہر میں رواں ماہ 19 سے 21 مئی تکG7 (گروپ 7) کے رکن ممالک کا سربراہی اجلاس منعقد ہوا۔اس اجلاس کا اعلامیہ سامنے آنے کے بعد چین اور G7 کے درمیاں تعلقات میں کشیدگی در آئی ہے۔G7 کے سربراہی اجلاس کے اعلامیے میں چین پر تائیوان‘ ہانگ کانگ اور سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں‘ اقتصادی پالیسیوں اور جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے تنقید کی گئی ۔ اس تنقید پر چین کی جانب سے غیر معمولی رد عمل سامنے آیا ہے۔ اس سے قبل کواڈ گروپ ( انڈیا‘ جاپان‘ آسٹریلیا اور امریکہ ) نے بھی انڈو پیسیفک سمندری علاقے میں چین کی بڑھتی ہوئی عسکری موجودگی کو خطے کے امن کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔ G7 کے اعلامیے کا جواب دیتے ہوئے چین کی وزارت خارجہ نے G7 پر بین الاقوامی امن میں رکاوٹ‘ علاقائی استحکام کو نقصان پہنچانے اور دوسرے ممالک کی ترقی کو روکنے کا الزام لگا یا ہے اور اس اعلامیے کو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے جاپان اور برطانیہ سے احتجاج اور امریکی کمپنی مائیکرون ٹیکنالوجی پر پابندی عائد کردی ہے۔
دوسری جانب مقبوضہ جموں و کشمیر ان مظلوم لوگوں کی سرزمین ہے جن پر ڈھائے جانے والے مظالم کا تسلسل سات دہائیوں سے جاری ہے۔ اسی مقبوضہ کشمیر کے شہر سری نگر میں G20 کے سیاحت سے متعلق ورکنگ گروپ کا اجلاس 22 تا 24 مئی کو منعقد ہوا۔ G20 دراصل G7 کے پیٹرن پر عمل کرتے ہوئے ستمبر 1999ء میں 19ممالک اور یورپین یونین نے مل کر تشکیل دیا تھا ۔ G20 دنیا کی دوتہائی آبادی اور عالمی جی ڈی پی کے تقریبا ً80 فیصد کی نمائندگی کرتا ہے۔اس کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں معیشتوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ اقتصادی ترقی و استحکام‘تجارت توانائی‘موسمیاتی تبدیلی اور عالمی مسائل کی ایک وسیع رینج پر پالیسی سازی کے لیے بات چیت کا یہ ایک اہم پلیٹ فارم ہے ۔G7 اورG20 پالیسی کو آرڈینیشن ‘فیصلہ سازی‘ عالمی نظم ونسق اور اہم مسائل کے حل کو متاثرکرتے ہیں۔
ہیرو شیما میں منعقدہ اجلاس کے اعلامیے میں چین کو ہدف تنقید بنائے جانے کی وجہ سے چین اور G7 کے رکن ممالک کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو گئی ہے تو G20کے ورکنگ گروپ کا اجلاس انڈیا کی جانب سے مقبوضہ جموں کشمیر کے دارلحکومت سری نگر میں منعقد کرنے کی وجہ سے اختلاف کا شکار ہو ا ہے۔رواں سال G20کی سربراہی کرنے والا انڈیا ‘ستمبر میں نئی دہلی میں ہونے والی G20کے سربراہی اجلاس سے قبل ملک بھر میں اس گروپ کی مختلف ورکنگ کمیٹیوں کے اجلاس منعقد کررہا ہے۔ اس سلسلے میں انڈیا کی حکومت نےG20 کے سیاحت سے متعلق ورکنگ گروپ کا اجلاس سری نگر میں منعقد کرنے کا اعلان کیا تو اس پر پاکستان نے اپریل میں احتجاج کیا تھا۔ انڈیا نے اس اجلاس میں رکن ممالک کے علاوہ دیگر ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کو بھی شرکت کی دعوت دی تھی۔ برطانیہ نے اجلاس میں شرکت توکی لیکن مقبوضہ کشمیر پر اپنے سرکاری مؤقف میں کسی قسم کی تبدیلی سے انکار کیا جبکہ امریکہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اور انڈیا کو اپنے مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنے چاہئیں۔ پاکستان کے دیرینہ دوست چین‘ ترکیہ‘ سعودی عرب اور انڈونیشیا نے سری نگر میں ہونے والے اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ مصر کو انڈیا نے اس اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تھی لیکن مصر نے شرکت سے معذرت کرلی۔ ان ممالک کی طرف سے اجلاس کا بائیکاٹ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے مؤقف کی حمایت اور پاکستان کی سفارتی کامیابی ہے۔
اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق مقبوضہ کشمیر متنازع علاقہ ہے۔ 2019ء میں مودی حکومت نے تمام تر عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو دو وفاقی خطوں جموں کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر کے انڈیا میں ضم کرلیا تھا۔G20 کے سیا حتی ورکنگ گروپ کا اجلاس سری نگر میں منعقد کرکے مودی حکومت دنیا کو دکھاناچاہتی تھی کہ وادی میں حالات معمول پر آچکے ہیں ‘امن بحال ہوچکا ہے اور عالمی سرمایہ کاری کے ذریعے علاقے میں ترقی کی راہیں کھل گئی ہیں‘تاہم مودی حکومت اپنی اس کوشش میں بُری طرح ناکام ہوئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی سابقہ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ نئی دہلی سرکار نے اجلاس منعقد کروانے کیلئے ریاست کو عملا ً گوانتانامو بے جیل میں تبدیل کردیا ہے۔ حکومت نے تعلیمی ادارے بند کئے ‘ تجارتی سرگرمیوں کو معطل رکھنے کیلئے حریت کانفرنس کی اپیل پر بازار بند رہے ‘ ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں کے علاوہ نیشنل سکیورٹی گارڈز کے خصوصی کمانڈوزاور بحریہ کے خصوصی دستوں کو بھی تعینات کیا گیا تھا۔ غیر ملکی صحافیوں نے جب سکولوں کی بندش کے حوالے سے انڈیا کے وزیر جتندرسنگھ سے سوال کیا تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ حالیہ اجلاس سے قبل انڈیا سری نگر میں یونیورسٹی آف کشمیر کے کیمپس میں یوتھ 20 کے اجلاس کا ناکام تجربہ کر چکا ہے۔یوتھ 20 کے اجلاس میں 20 میں سے صرف پانچ ممالک کے مندوب شریک ہوئے تھے۔ سیاحتی ورکنگ گروپ کے اس اجلاس میں زیادہ تر ممالک نے علیحدہ سے وفد بھیجنے کے بجائے خود کو اپنی سفارتی نمائندگی تک محدود رکھا ہے۔ یہ انڈیا کیلئے ایک واضح اشارہ ہے کہ وہ اپنی چالاکیوں سے دنیا کو بے وقوف بنانے کی لاکھ کوشش کرے لیکن ناکام رہے گا ۔سری نگر میں ڈل جھیل کے کنارے پر ہونے والے اس اجتماع میں دکھاوے کے علاوہ کچھ نہیں تھا کیونکہ دنیا کے ممالک آج دو طرفہ کے بجائے کثیر الجہتی روابط پر فوکس کر رہے ہیں۔
G20 سیاحتی اجلاس کا انعقاد و مقبوضہ علاقے میں کرنے کا مقصد ایک ایسی تصویر پیش کرنا تھا کے علاقے میں بحران ختم ہوگیا ہے اور زندگی معمول پر آچکی ہے‘ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ایک طرف تو اس اجلاس کی کوریج کرنے کیلئے آنے والے صحافیوں اور دیگر لوگوں کو ویزا اس شرط کے ساتھ دیاگیا کہ وہ خطے میں آزادی کی جدوجہد پربات نہیں کریں گے اور میڈیا رپورٹس میں فوجی اور پولیس چیک پوسٹوں کو نہیں دکھائیں گے ۔دوسری طرف انڈیا نے ہوشیاری کے ساتھG20 کے بڑے بڑے اشتہارات اور ہورڈنگز کے ذریعے تباہ شدہ مقامات کو چھپانے کی کوشش کی‘لیکن انڈیا کب تک اس منافقت کے ساتھ لاکھوں کشمیریوں کی زندگیوں کو پامال کرتے ہوئے ان پر حکمرانی کرسکے گا؟ دنیا کی بڑی جمہوریت ہونے کادعویدار انڈیا G20 کے علاوہ شنگھائی تعاون تنظیم‘BRICS اور Quadکا رکن ہونے کے ساتھ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کے لیے کوشاں ہے‘ تاہم اپنے ہاں انسانی حقوق کی سنگین پامالی اور عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی کھلی خلاف ورزی کا مرتکب ہے۔
عالمی و علاقائی سطح پر درپیش مسائل کا مل کر حل تلاش کرنے کے لیے عالمی و علاقائی فورمز کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ یہ فورمز ممالک کے درمیان تنازعات کو گفت و شنید کے ذریعے حل میں سہولت فراہم کرنے اور عالمی سطح پر استحکام کو فروغ دے سکتے ہیں۔G20 کے اراکین کو انڈیا سے اس غیر منصفانہ کھیل پر ضرور سوال پوچھنا چاہیے۔ وقت آگیا ہے کہ G20 کے ممالک انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھائیں اور کشمیریوں پر انڈین سکیورٹی فورسز کی جانب سے کیے جانے والے مظالم بند کروانے کیلئے اپنا اثر رسوخ استعمال کریں ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں