جنوبی ایشیا میں چودھری کا کرداد ادا کرنے کا خواہشمند نریندر مودی اپنے ملک میں اقلیتوں سے غیرانسانی سلوک کی پالیسیوں پر صرف اس لیے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے تاکہ اپنے ووٹ بینک اور اقتدار کو برقرار رکھ سکے۔ عالمی رہنما بننے کی آرزو رکھنے والا مودی اندرون ملک اپنی سیاست کا عروج برقرار رکھنے کے لیے ہمیشہ مذہبی شدت پسندی کو بطور آلہ استعمال کرتا آیا ہے۔ جب وہ گجرات کا وزیراعلیٰ تھا تو اپنی سیاست کو چمکانے اور انتخابی فائدے کے لیے وہاں مسلمانوں کا قتل عام کروایا۔ اب جب سے انڈیا کے وزیراعظم کی نشست پر براجمان ہے‘ پورے ملک میں اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں پر جو مظالم ہو رہے ہیں‘ پوری دنیا ان غیرانسانی رویوں سے واقف ہے اور اگر کوئی ناواقف ہے تو نریندر مودی۔
انڈیا کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں گزشتہ ماہ سے جاری فسادات میں اب تک 100 سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں اور 23 ہزار سے زیادہ کیمپوں میں مقیم ہیں۔ منی پور انڈیا کے شمال مشرق میں واقع سات ریاستوں میں سے ایک ہے۔ نوآبادیاتی عہد کے اختتام کے بعد سے ہی ان ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہیں۔ منی پور پہاڑی ریاست ہے جہاں کی آبادی 34تسلیم شدہ قبائل پر مشتمل ہے۔ ان قبائل میں زیادہ تر کوکی (کوکیچن) اور ناگا قبائل کیساتھ انہی قبائل کی ذیلی شاخیں آباد ہیں۔ قبائلیوں سے آباد پہاڑیاں منی پور کے کل رقبے کا 90 فیصد بنتی ہیں۔ یہ قبائل زیادہ تر عیسائی مذہب کے پیروکار ہیں جبکہ وادی امپھال میں آباد میتی کمیونیٹی ہندومت کی ماننے والی ہے۔ وادی امپھال ریاست کے باقی 10فیصدی رقبے پر مشتمل ہے۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق منی پور کی کل آبادی 36لاکھ 49ہزار نفوس پر مشتمل ہے جن میں 41.39 فیصد آبادی میتی‘ 41.29 فیصد ناگا اور کوکی قبائل‘ 8.40 فیصد پنگل مسلمان جبکہ 8.19فیصد آبادی دیگر قبائل اور مذاہب کے ماننے والوں کی ہے۔
1606ء میں مغل شہنشاہ شاہجہاں کے عہد میں جنرل محمد شانی کی زیر قیادت ایک ہزار سپاہیوں پر مشتمل فوجی دستہ شمال مشرقی جنگلات میں راستہ بھول گیا تھا جنہیں منی پور کے لوگ پکڑ کر اپنے راجہ کھگیمبا (1597-1652ء) کے دربار میں لے کر پہنچے‘ راجہ کھگیمبا نے ان مسلمان سپاہیوں کو اپنی ریاست میں رہنے کی اجازت دے دی۔ ان کے اولاد کو میتی پنگال کہا جاتا ہے۔ گزشتہ چار صدیوں میں منی پور کے معاشرے میں پنگل مسلمانوں کا کردار تاریخی رہا ہے۔ فوج‘ زراعت‘ عدلیہ اور دیگر شعبوں میں مسلمانوں نے نمایاں کارنامے انجام دیے۔ منی پور کو مکمل ریاست کا درجہ ملنے کے بعد 1972ء میں ریاست کے پہلے وزیراعلیٰ محمد علیم الدین پنگل مسلمان تھے لیکن وقت گزرنے کیساتھ ساتھ خصوصاً بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد جس طرح پورے انڈیا میں مسلمانوں پر زندگی تنگ کردی گئی‘ اسی طرح منی پور کے مسلمان کا حال انڈیا کے دیگر خطوں کے مسلمانوں سے بھی برا ہے۔ یہاں کی مسلمان آبادی سیاسی‘ سماجی اور معاشی نا انصافیوں کا شکار ہے۔ پچھلے چھ برسوں میں مسلمانوں کو سیاسی طور پر حاشیے پر پہنچا دیا گیا ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ 2018ء میں منی پور کی حکومت نے جنگل کے ذخائر اور زرعی زمین پر قبضے کے الزام میں 400مسلمان خاندانوں سے مکانات چھین کر انہیں بے دخل کردیا تھا۔ منی پور کے مسلمانوں میں شرحِ خواندگی ریاست کے اوسط شرح خواندگی سے بھی کم ہے۔ اعلیٰ تعلیم اور ملازمتوں میں ان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔
جغرافیائی اعتبار سے دریائے برہم پترا کی گزرگاہ یعنی انڈیا کے شمال مشرق میں موجود 8ریاستیں (اروناچل پردیش‘ آسام‘ منی پور‘ ناگالینڈ‘ میگھالیہ‘ میزورام‘ تر یپورہ اور سکم) کثیرالنسل آبادی پر مشتمل ہیں اور ان ریاستوں کے آپس میں اور ریاستوں کے اندر آباد مختلف کمیونٹیر کے درمیان اختلافات اور پیچیدگیاں موجود ہیں۔ ان ریاستوں نے برطانوی سامراج کے خلاف گوریلا جنگ لڑی اور برطانوی اقتدار کے خاتمے کہ بعد انڈین یونین سے الحاق نہیں کیا تھا۔ انڈیا نے جب ان پر بہ زور طاقت قبضہ کر لیا تو علیحدگی کے لیے ایک بار پھر گوریلا جدوجہد کا آغاز کر دیا گیا۔ آسام‘ منی پور اور ناگا لینڈ میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ ناگا لینڈ کو 1962ء میں آسام سے الگ ریاست کا درجہ دیے جانے کے باوجود ناگا حریت پسند آج بھی ناگالم کے قیام‘ الگ جھنڈے اور آئین کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
منی پور میں بھی ایک عرصے سے علیحدگی کی تحریک جاری تھی اور مرکز ی حکومت کی آشیرباد سے ریاست میں قائم بی جے پی کی حکومت کے اہل کار ان تمام غیر ہندو قبائل کو بنیادی حقوق تو دور کی بات انسانی حقوق سے بھی محروم رکھے ہوئے ہیں۔ اس ریاست کے 16 میں سے 10اضلاع پہاڑی علاقوں اور 6وادی کے علاقوں پر مشتمل ہیں۔ ریاستی اسمبلی کی کل 60نشستوں میں سے 40نشستوں کے حلقے وادی کے اضلاع میں ہیں اور 20نشستیں پہاڑی اضلاع کو دی گئی ہیں۔ پہاڑی اضلاع میں کوکی اور ناگا قبائل کی اکثریت ہے اور وادی کے اضلاع میں میتی کمیونٹی کی اکثریت ہے۔ مذہبی اعتبار سے کوکی اور ناگا قبائل عیسائی ہیں اور میتی ہندو ہیں۔ میتی ہندو ہونے کی وجہ سے ریاست کی مراعات یافتہ اکثریتی کمیونٹی ہے۔ اقتدار‘ وسائل اور سہولتوں تک رسائی کے باوجود میتی تاریخی پس منظر کا حوالہ دیتے ہوئے شیڈول ٹرائب کے درجہ کے لیے قانون سازی کررہے ہیں تاکہ انہیں کوکی اور ناگا قبائلیوں کے پہاڑی علاقوں میں زمین خریدنے کا حق مل سکے۔ اس قانون سازی کے ذریعے دراصل وہ ریاست کی ڈیموگرافی تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ جیسے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انڈیا کے آئین کے آرٹیکل 370A کومعطل کرکے ملک بھر کے لوگوں کو جموں و کشمیر میں جائیداد خریدنے کی آزادی دے کر مسلمانوں کی اکثریت کو کم کرنے کی پالیسی پر دہلی حکومت کام کررہی ہے بالکل اسی پیٹرن پر اب منی پور کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے کی کوشش شروع کر دی گئی ہے اور آئین کے اس آرٹیکل کی معطلی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میتی کمیونٹی کوکی و ناگا کے خلاف نبرد آزما ہے۔
انڈین حکومت شمال مغرب کی ریاستوں کے وسائل کو تو بے دریغ استعمال کرتی رہی ہے لیکن کبھی بھی ان کے مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے پر توجہ نہیں دی گئی۔ منی پورکی پہاڑیوں اور وادی میں آباد ان کمیونٹیوں کے درمیان جاری تناؤ کی طویل تاریخ ہے‘ یہ نسلی تنازع ہے لیکن بی جے پی کی حکومت اسے مذہبی رنگ دے رہی ہے تاکہ انتخابی میدان میں فائدہ اٹھایا جا سکے۔ بی جے پی حکومت میں مذہبی اقلیتوں پر ظلم کی پالیسی اور اس کے تسلسل میں مستقل اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ بظاہر ایک سیاسی پارٹی لیکن مذہب کو آلے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے گجرات اور مقبوضہ کشمیرکے بعد اب ہندتوا کے اس نظریے کو شمال مشرق کی ریاستوں میں پھیلا کر اقلیتوں کے حقوق غصب کرنا چاہتی ہے۔ منی پور میں تشدد کی موجودہ لہر حالیہ دہائیوں میں بدترین ہے۔ کوکی اور ناگا قبائل کا کہنا ہے کہ یہ حملے حکومتی سرپرستی میں منصوبہ بند طریقے سے کیے جا رہے ہیں۔ مرکزی حکومت کے وزیر داخلہ فسادات شروع ہونے کے 23دن بعد ریاست کے دورے پر گئے اور امن قائم کرنے کی اپیل کے علاوہ جو فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی‘ اس پر قبائل نے عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا ہے۔ اس کے باوجود وزیراعظم نریندر مودی نے اس مسئلے پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ اس خاموشی کے نتیجے میں اقلیتوں کے اندر دکھوں کا جو لاوا ابل رہا ہے وہ مودی کو عالمی سطح کا لیڈر بنانے کے بجائے انڈیا کی مزید تقسیم کا سبب بھی بن سکتا ہے۔