گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج عالمی درجہ حرارت میں مسلسل اضافے اور فضائی آلودگی کا سبب ہے۔ ہماری زمین کا درجہ حرارت صنعتی انقلاب کے بعد 1.2ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ چکا ہے اور موجودہ موسمیاتی رجحان کے باعث اس سال کے آخر یا 2024ء کے آغاز تک یہ 1.5ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھنے کا امکان ہے۔ درجہ حرارت میں چھوٹا اضافہ بھی دنیا کی آب و ہوا میں بڑی تبدیلیوں کا محرک ہوتا ہے۔ جون 2023ء میں انتہائی گرم ایل نینو (El Nino) سمندری رجحان انتہائی خطرناک موسمی واقعات کا ایک اہم محرک تھا (ایل نینو ایسا موسمیاتی رجحان ہے جس سے بحرالکاہل کا پانی معمول سے زیادہ گرم ہو جاتا ہے اور زمین کے درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہوتا ہے) جو عالمی غذائی تحفظ کے لیے بھی خطرات کا باعث ہے۔ پہلے ہی 53ممالک میں 22کروڑ سے زیادہ لوگ شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہے ہیں۔ مجموعی طور پر موسمیاتی تبدیلی نے جنوبی ایشیا کی بڑی آبادی پر نمایاں منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے بہت زیادہ متاثر اور انتہائی خطرے سے دوچار ہے۔ ملک کے کچھ حصوں میں گرمی میں شدت‘ خشک سالی اور شدید موسم کے علاوہ کوہ ہمالیہ میں گلیشیرز کے پگھلنے سے دریاؤں میں طغیانی اور سیلاب کا سامنا ہے۔ گلیشیرز کے پگھلنے سے مستقبل میں پانی کی قلت ہو جائے گی۔ 1999ء سے 2022ء کے دوران پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں پانچویں نمبر پر رہا۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بے موسم بارشیں‘ مون سون کے پیٹرن میں تبدیلی‘ طوفان‘ ژالہ باری‘ گرمی کی لہریں اور سطح سمندر میں اضافہ ملک کی معیشت و آبادی کے بڑے حصے کو متاثر کر رہے ہیں۔ 2010ء کے تباہ کن سیلاب کے بعد ملک میں ڈیزاسٹر رِسک مینجمنٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری کی گئی تھی‘ اس کے باوجود ملکی نظام اور ادارے 2022ء کی غیرمعمولی بارشوں کے باعث آنے والے سیلاب سے نمٹنے کے لیے مناسب طریقے سے تیار نہیں تھے۔ 2022ء کے سیلاب نے بنیادی ادارہ جاتی اور انتظامی چیلنجز کو مزید بڑھا دیا ہے: جن میں کمزور شہری منصوبہ بندی‘ آبی وسائل کا انتظام‘ بنیادی ڈھانچے کی ناکافی دیکھ بھال‘ پیچیدہ گورننس اور ڈیزاسٹر رِسک رِڈکشن کی محدود صلاحیت شامل ہیں۔ مہنگائی‘ توانائی کا بحران اور مالیاتی چیلنجز نے مسائل کوکئی گنا بڑھا دیا ہے۔ لچکدار و موافق انفرا سٹرکچر اور گورننس قدرتی آفات کے نقصان کو کنٹرول کرنے اور غربت کے خاتمے کے لیے اہم ہیں۔
گزشتہ سال کے سیلاب متاثرین کی بحالی کا کام ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا۔ بلوچستان‘ سندھ اور جنوبی پنجاب میں تباہ ہونے والی سڑکیں تاحال مکمل طور پر تعمیر نہیں کی جا سکیں جبکہ مکانات کی تعمیر کا کام مقامی لوگوں اور این جو اوز پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت نے بحالی اور تعمیر نو کے لیے 16.3ارب ڈالر مالیت کے فریم ورک کا اعلان کیا تھا لیکن یہ سب اشتہاری مہم تک ہی محدود رہا۔ اگر اشتہاری مہم پر خرچ کیے جانے والے سرمائے کا نصف بھی صحیح معنوں میں بحالی پر خرچ کیا جاتا تو یقینا کئی متاثرین کے حالات مختلف ہوتے۔ بین الاقوامی عطیہ دہندگان نے بھی نو ارب ڈالر دینے کا وعدہ تو کیا تھا لیکن زیادہ تر رقم قرضوں کی صورت میں آئے گی جس کا ہنوز انتظار ہے۔
جون کے آخر سے ملک میں مون سون بارشوں کا آغاز ہو گیا ہے‘ ان بارشوں کی شدت اور پیٹرن کی پیش گوئی مشکل ہے اور بارشوں میں غیرمتوقع شدت اناج کی پیداوار پر بھی منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے جس سے ممکنہ طور غذائی عدم تحفظ میں اضافہ ہوگا۔ مون سون کا سیزن مزید ڈیڑھ ماہ یعنی ستمبر کے وسط تک جاری رہے گا‘ اس دوران ایل نینو موسمی رحجان اور بحیرۂ ہند میں سطح سمندر کے درجہ حرارت میں فرق متوقع ہے جس کے باعث سندھ‘ بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں اس عرصے کے دوران اوسط سے کم بارشوں کی توقع کی جا رہی ہے؛ تاہم ماہرینِ موسمیات نے بالائی پنجاب‘ خیبرپختونخوا‘ کشمیر اور گلگت بلتستان میں زیادہ بارشوں کی پیش گوئی کی ہے جس سے لینڈ سلائیڈنگ اور دریاؤں میں طغیانی کا خطرہ ہے۔ گزشتہ سال ملک میں اوسط سے 176فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں جو بلوچستان میں 425سے 450فیصد تک پہنچ گئی تھیں۔ ماہرینِ موسمیات کا کہنا ہے کہ اس سال کا ساون بھادوں (مون سون) گزشتہ برس کی نسبت کم بارشیں لائے گا۔
ابھی تو لیکن ساون بھادو ں کا محض آغاز ہوا ہے‘ 25جون سے اب تک ان شدید بارشوں میں 150سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ سیلاب زدہ علاقوں میں لوگ پہلے ہی کھلے آسمان تلے بے یار و مددگار بیٹھے ہیں‘ ایسے میں ایک بار پھر ساون بھادوں کیا رنگ دکھائے گا‘ اس کے اعداد و شمار تو نومبر میں سامنے آئیں گے۔ فی الحال ملک کی اشرافیہ چھٹیاں منانے یورپ اور امریکہ گئی ہوئی ہے۔ نگران حکومت اور آنے والے الیکشن کے فیصلے کے لیے دبئی اور لندن کے پُر تعش ہوٹلوں میں اجلاس جاری ہیں اور 25کروڑ عوام مہنگائی کے گھن چکر میں پس رہے ہیں۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جس نے جمہوریت کا سہانا خواب بھی عوام سے چھین لیا ہے۔ پورے ملک میں ساون جوبن پر ہے اور اَبرِ رحمت کو محفوظ کرنے کے لیے مستقل بنیادوں پر سنجیدہ پلاننگ کی ہی نہیں گئی‘ جیسے ہی ساون بھادوں اختتام پذیر ہوگا تو قلتِ آب کا مسئلہ دامن گیر ہو جائے گا اور صوبائی حکومتیں وفاق سے ایک دوسرے کے پانی کا حصہ نہ دینے کا شکوہ کرتی نظر آئیں گی۔
ہر سال ملک میں بارشیں ہوتی ہیں اور ہر سال انتظامیہ اس خوش گمانی میں رہتی ہے کہ بارش کا پانی مسئلہ نہیں کرے گا لیکن ہر سال یہ گمان غلط ثابت ہوتا ہے۔ معمولی بارش سے ملک کے شہر تالاب کی تصویر بن جاتے ہیں۔ اربن فلڈنگ نے ایک آسیب کی طرح بڑے شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ان شہروں میں ڈسپوزل سٹیشن‘ اپنی مکمل صلاحیت کے مطابق کام نہیں کرتے یا خراب ہو جاتے ہیں یا پھر ان کو چلانے کے لیے مختص کیا جانے والا بجٹ افسر شاہی کی من مانیوں پر خرچ ہو چکا ہوتا ہے۔ ان ڈسپوزل سٹیشنوں کا درست طور پر کام نہ کرنا لاکھوں شہریوں کی زندگی کو اجیرن بنا دیتا ہے۔ کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہر پہلی بارش کے بعد ہی تالاب کا منظر پیش کر رہے تھے۔ ملک بھر میں خصوصاً بڑے شہروں میں پلاننگ اور نکاسیٔ آب کے نظام پر جامع اور بہتر پالیسی ہی اربن فلڈنگ کا واحد حل ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے سبب بارشوں کا پیٹرن اتنا بدل گیا ہے کہ کسی بھی انتہائی غیرمعمولی ایونٹ کی صورت میں سیلابی صورتحال کا خدشہ بڑھ جاتا ہے‘ اس کے باوجود موسمیاتی تبدیلی اربن فلڈنگ کی واحد وجہ نہیں ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی‘ کمزور انفراسٹرکچر اور خراب گورننس اس کی اہم وجوہات ہیں۔ انتظامی سطح پر ترجیحات کو ازسر ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ بارشوں سے ہونے والی تباہی سے بچنے کے لیے طویل مدتی پلاننگ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تحقیق کی بنیاد پر 25سالہ منصوبہ تیار کرکے اس پر بلاتعطل عمل درآمد کرنا ہوگا۔ بے شک حکومتیں بدلتی رہیں لیکن ہر حکومت اپنے پانچ سالہ دور میں وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کی اپنا ٹارگٹ پورا کرنے میں بھرپور معاونت کرے۔ بصورتِ دیگر موسمیاتی تبدیلی اور اس سے پیدا ہونے والی موحولیاتی آفات پاکستان کے لیے مستقبل میں سکیورٹی خطرہ بھی بن سکتی ہیں۔