جاپان کا نیوکلیئر پاور پروگرام دنیا بھر میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ مانا جاتا ہے۔ وہاں 50سے زیادہ جوہری بجلی گھر کئی برسوں سے صنعتی اور گھریلو بجلی کی طلب کو پورا کر رہے ہیں‘ لیکن آج سے بارہ برس پہلے جاپان میں ہولناک زلزلے اور سونامی سے جاپان کے فوکو شیما ڈائچی جوہری بجلی گھر میں ایسے شدید جوہری حادثے کا آغاز ہوا جو آج بھی ایشیا پیسفک کے خطے میں تابکاری کے خدشات کے وجہ سے تنازع بنا ہوا ہے۔ 11مارچ 2011ء کو 9.1 شدت کے زلزلے اور سونامی سے 18ہزار لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ سونامی کی 15میٹر بلند سمندری لہروں نے شمال مشرقی جاپان میں ایک بڑی انسانی تباہی کو جنم دیا تھا‘ اس صورتحال کو جاپانیوں نے قومی سطح پر بڑی ہمت و حوصلے سے سنبھالنے کی بھرپور مثالی کوشش کی‘ مگر اس زلزلے اور سونامی نے جہاں جاپان کے شمال مشرقی علاقوں میں تباہی پھیلائی وہیں اس سونامی نے فوکو شیما جوہری بجلی گھر کو شدید نقصان پہنچایا۔ سونامی کے سبب پلانٹ کے چھ ری ایکٹرز میں سے تین کو شدید نقصان پہنچا اور ہائیڈروجن و تابکار مواد رسنا شروع ہو گیا۔ خارج ہونے والی ہائیڈروجن کے پھٹنے سے ری ایکٹر کی تین عمارتوں کو نقصان پہنچا اور تابکاری کی وجہ سے ہنگامی اقدامات کا عمل بھی سست روی کا شکار رہا۔ زلزلے اور سونامی سے ہونے والی یہ ایک بڑی ایٹمی تباہی تھی‘ جس کے بعد نہ صرف جاپان کو بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا بلکہ اس جوہری حادثے نے دنیا کے لیے نیوکلیئر توانائی کے استعمال کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ کیا واقعی جوہری توانائی کے ذریعے بجلی کی پیداوار محفوظ ہے؟
تابکاری کا اخراج ایٹمی پاور پلانٹس سے ہو یا جوہری ہتھیاروں سے‘ ہر دو صورت میں یہ انتہائی خطرناک ہے۔ اگرچہ ہم تابکاری کو نہیں دیکھ سکتے اور اکثر محسوس بھی نہیں کر پاتے لیکن یہ خاموش قاتل ہے جو ماحول‘ صحت‘ زمین اور پانی میں موجود حیات پر تباہ کن اور طویل مدتی اثرات مرتب کرتی ہے۔ اس وقت جاپان‘ جس کا شمار دنیا کے بہترین نیوکلیئر نظام رکھنے والے ممالک میں ہوتا ہے‘ کا فوکو شیما جوہری پاور پلانٹ زمین پر تابکار ترین جگہ بنا ہوا ہے‘ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں سونامی کی وجہ سے ری ایکٹر پگھلنے کے 12سال بعد بھی اس علاقے کو مکمل طور پر محفوظ قرار نہیں دیا جا سکا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ فوکو شیما اور اس کے اردگرد موجود پہاڑی علاقوں میں اب بھی تابکاری موجود ہے۔ ریڈیو سیسیم (Radiocesium) کی نصف زندگی‘ جو تقریباً 29 سال ہے‘ یعنی 2041ء تک اس علاقے میں تابکار مادے کی مقدار نصف رہ جائے گی۔
فوکو شیما کے نیوکلیئر پاور پلانٹ میں تباہ شدہ ری ایکٹرز کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ہر روز تقریباً ایک لاکھ لیٹر پانی استعمال ہو کر تابکاری سے آلودہ ہوتا رہا ہے اور اب وہاں تقریباً 1.34ملین میٹرک ٹن پانی ذخیرہ ہو چکا ہے۔ یہ پانی نہ صرف تباہ شدہ ری ایکٹرز کو ٹھنڈا کرنے سے آلودہ ہوتا ہے بلکہ زمینی پانی کے اخراج اور بارش سے بھی آلودہ ہوتا ہے۔ تباہی کے بعد سے ٹوکیو پاور پلانٹ کمپنی (ٹیپکو) ری ایکٹرز کے ایندھن کی سلاخوں کو ٹھنڈ ا کرنے کے لیے مسلسل پانی پمپ کر رہی ہے‘ اس کا مطلب ہے کہ ہر روز پلانٹ آلودہ پانی پیدا کرتا ہے جو ایک ہزار سے زیادہ ٹینکوں میں ذخیرہ کیا جا چکا ہے۔ اس پلانٹ کو محفوظ طریقے سے بندکرنے کے لیے جاپان کو مزید زمین‘ وقت اورسرمایہ درکار ہے۔
جاپان نے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے ساتھ مل کر فوکو شیما ڈائچی پاور پلانٹ میں تابکاری مادے کو نہایت کم کرنے کے بعد پاور پلانٹ سے ایک کلومیٹر طویل خصوصی سرنگ کے ذریعے ٹریٹڈ تابکار پانی کو 24اگست سے بحرالکاہل میں ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ جاپان نے کہا ہے کہ وہ روزانہ زیادہ سے زیادہ پانچ لاکھ لیٹر پانی پلانٹ سے خارج کرے گا تو اس طرح اس پانی کے مکمل اخراج میں تقریباً 30 سال لگیں گے۔ اقوام متحدہ کے جوہری ریگو لیٹر کا کہنا ہے کہ یہ پانی لوگوں اور ماحولیات پر نہ ہونے کے برابر تابکاری اثرات مرتب کرے گا۔ لیکن کیا یہ واقعی محفوظ ہے؟ اس سوال کے پیش نظر ماحولیات کی ایجنسیوں‘ چین اور خطے کے دیگر ممالک کے علاوہ جاپانی عوام کی ایک بڑی تعداد نے جاپان کے اس عمل یعنی بحرالکاہل میں تابکار پانی کے اخراج کے منصوبے کی مخالفت شروع کر دی ہے۔
چین جاپان سے 1.1بلین ڈالر سے زیادہ سی فوڈ درآمد کرتا ہے۔ جاپان کے اس منصوبے کے خلاف چین نے جاپان سے درآمدات پر پابندی عائد کردی ہے اور جاپان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر تابکاری پانی کے اخراج کو روک دے کیونکہ وہ یعنی جاپان اپنے ڈیٹا کی درستگی کو ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ گرین پیس نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ جب تک بہتر پروسیسنگ ٹیکنالوجی ایجاد نہیں ہو جاتی تب تک پانی کو ٹینکوں میں رکھا جائے۔ پانی کے سمندر میں اخراج کے منصوبے سے خطے میں تشویش پائی جاتی ہے۔ چین اور جنوبی کوریا کے علاوہ بحرالکاہل کے جزائر‘ جن میں مارشل جزائر اور تاہیتی (Tahiti) بھی شامل ہیں‘ جاپان کے اس منصوبے سے خوف زدہ ہیں۔ ان ممالک کا کہنا ہے کہ سرد جنگ کے دوران جوہری تجربات کے نتیجے میں ماحولیات پر مرتب ہونے والے اثرات کی وجہ سے بحرالکاہل کے جزائر کو تابکار اثرات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اُس وقت کی تابکاری کے اثرات کی وجہ سے ایسے جزیرے پہلے سے ہی موجود ہیں جہاں وہ اب نہیں جا سکتے۔ اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلیوں اور سمندر کی سطح میں مسلسل اضافہ اور سمندری پانی کے درجۂ حرارت میں اضافے کی وجہ سے بحرالکاہل کے جزائر زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ ان کا نقطۂ نظر ہے کہ بحرالکاہل میں جاپان کی جانب سے تابکار پانی چھوڑنا ان کے لیے زیادہ خطرناک اور ان کی توہین کے مترادف ہے۔
اگر جاپان سمندر میں آلودہ پانی ڈالنے سے پہلے اس میں سے تمام تابکار عناصر کو نکالنے میں کامیاب ہو جاتا تو اتنا تنازع نہ کھڑا ہوتا۔ یہ مسئلہ ہائیڈروجن کے تابکار عنصر کی وجہ سے ہو رہا ہے جسے ٹریٹیم (Tritium) کہتے ہیں۔ ٹریٹیم کو پانی سے نکالنے کی ابھی تک کوئی ٹیکنالوجی دریافت نہیں کی جا سکی۔ گرین پیس کا کہنا ہے کہ اس آلودہ پانی سے سمندری پانی‘ سمندری حیات اور انسانوں پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ تمام ممالک جو جوہری توانائی استعمال کرتے ہیں‘ وہاں نیوکلیئر پلانٹس کے لیے سمندر میں ٹریٹ شدہ پانی کو ٹھکانے لگانا ایک عام عمل ہے۔ 2018ء میں فرانس نے اپنے پروسیسنگ پلانٹ سے جو پانی سمندر میں ڈالا‘ اس پانی میں ٹریٹیم کی مقدار 11460Bq\L تھی۔ اسی طرح 2010ء سے 2020ء کے دوران جنوبی کوریا کے جوہری پاور پلانٹس نے 4362Bq\L ٹریٹیم ملا پانی سمندر کی نذر کیا۔ جوہری پلانٹ سے پانی کو سمندر میں پھینکنے کا عمل عام ہے لیکن ایک تو فوکو شیما ڈائچی پاور پلانٹ ابھی تک سلگ رہا ہے‘ دوسرا جو پانی جاپان سمندر کی نذر کرے گا‘ اس کی مقدار بہت زیادہ ہے‘ جو تشویش کا باعث ہے۔
گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج‘ پٹرول‘ ڈیزل اور کوئلے کے استعمال سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کے لیے جوہری توانائی کا استعمال ایک متبادل ذریعہ تو ہے لیکن قدرتی آفت کے نتیجے میں فوکوشیما پاور پلانٹ کی تباہی کے بعد دنیا بھر کے سائنسدانوں کے لیے لمحۂ فکریہ بھی ہے کہ وہ اپنی ایجادات کی تباہی کی صورت میں مضر اثرات کو‘ امکانات و مفروضوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے بجائے ٹھوس تحقیق کی بنیاد پر آگے بڑھیں تاکہ یہ کرۂ ارض آنے والی نسلوں کے لیے بھی محفوظ رہ سکے۔