ہر سال 9ستمبر کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کے مطابق تعلیم کو حملوں سے محفوظ کرنے کا دن منایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں یونیسکو اور یونیسف کی مدد سے متاثرہ ممالک میں رہنے والے لاکھوں بچوں کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لیے آگہی مہم چلائی جا رہی ہے۔ عالمی سروے کے مطابق یہ تشویش ناک رپورٹ سامنے آئی ہے کہ دنیا بھر میں تعلیمی اداروں‘ طلبا و اساتذہ پر پہلے سے کہیں زیادہ حملے ہورہے ہیں۔ امریکہ‘ شام‘ یمن‘ افغانستان‘ چاڈ‘ سوڈان‘ نائیجیریا‘ ایتھوپیا‘ کیمرون اور میانمار میں تعلیمی اداروں پر حملوں میں تیزی آئی ہے۔ گلوبل کولیشن ٹو پروٹیکٹ ایجوکیشن فرام اٹیک (GCPEA) کے مطابق 2020ء سے 2022ء کے درمیان نو ہزار سے زیادہ طلبا‘ اساتذہ اور ماہرینِ تعلیم مسلح تنازعات کے دوران زخمی یا ہلاک ہوئے۔ ایسی صورتحال میں یونیسکو اور یونیسف کی جانب سے تعلیم کے حق کو برقرار رکھنے کے لیے بین الاقوامی قانون کا بن جانا عالمی سطح پر سماج کے لیے ہوا کا جھونکا ثابت ہو رہا ہے۔ آج تک صرف 114ریاستوں نے Safe Schools Declaration پر دستخط کیے ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ باقی تمام ممالک بھی اس تحریک کو عالمی سطح پر موثر بنانے کے لیے اس میں شمولیت اختیار کر لیں گے۔
سکولوں‘ طلبا اور اساتذہ پر حملوں سے تعلیم تک رسائی‘ تعلیمی نظام اور سماجی ترقی پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ یونیسکو نے خبردار کیا ہے کہ ہنگامی حالات میں پھنسے ہوئے بچوں اور نوجوانوں کے لیے تعلیم نہ صرف سیکھنے کا تسلسل ہے بلکہ یہ معمول کا احساس اور مختلف مستقبل کی کلید بھی فراہم کرتا ہے کیونکہ تعلیم کے ذریعے حاصل کردہ علم‘ ہنر اور مدد کے ساتھ نسلیں بحرانوں سے بچ جاتی ہیں اور اپنی قوم و ملک کو ایک پائیدار مستقبل کی طرف لے جا سکتی ہیں‘ تاہم تعلیمی اداروں پر حملے طلبا اور اساتذہ کے لیے سنگین طویل مدتی جسمانی اور نفسیاتی مسائل پیدا کرتے ہیں۔
عوام کو تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ تعلیمی شماریات کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا تعلیمی نظام دو لاکھ ستر ہزار نو سو تین اداروں پر مشتمل ہے اور سولہ لاکھ پینتیس ہزار چار سو اکسٹھ اساتذہ کی مدد سے چار کروڑ بیس لاکھ اٹھارہ ہزار تین سو چوراسی طلبا کو تعلیم فراہم کررہا ہے۔ اس نظام میں ایک لاکھ اکیاسی ہزارآٹھ سو چھیالیس سرکاری اور اکیاسی ہزار ساٹھ نجی ادارے شامل ہیں۔ اس طرح تعلیم کے نظام میں 31فیصد ذمہ داری نجی شعبے اور 69فیصد سرکار نبھا رہی ہے۔ مناسب منصوبہ بندی کا فقدان‘ سماجی پابندیاں‘ صنفی فرق‘ تعلیم کی لاگت‘ دہشت گردی‘ قبائلی تنازعات‘ تعلیم کے لیے فنڈز کی کمی (پاکستان تعلیم پر جی ڈی پی کا صرف 2.4فیصد خرچ کرتا ہے) وغیرہ ایسے مسائل ہیں جن کی وجہ سے بچوں کی بڑی تعداد تعلیم کے بنیادی حق سے محروم ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی نئی رپورٹ کے مطابق 25ملین پاکستانی بچے سکول سے باہر ہیں۔ رپورٹ میں اس بات کی شہادتیں شامل ہیں کہ کس طرح شدت پسند عناصر اور قبائلی تنازعات کی وجہ سے لاکھوں بچوں بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم متاثر ہورہی ہے۔ 2007ء سے 2015ء کے دوران تعلیمی اداروں پر 867حملے ہوئے جس کے نتیجے میں 392افراد جاں بحق اور 924زخمی اور 370 سے زیادہ سکول تباہ ہوئے۔
پاکستان دنیا کے ان 11ممالک میں شامل ہیں جہاں لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کو حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس سال مئی میں شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی میں لڑکیوں کے دو سکولوں کو تباہ کیا گیا۔ صوبہ سندھ کے بالائی علاقوں کشمور‘ کندھ کوٹ‘ شکار پور‘ گھوٹکی وغیرہ میں متعدد قبائل کے درمیان خونی تنازعات چل رہے ہیں۔ ان قبائلی تنازعات نے سینکڑوں معصوم انسانوں کی زندگیاں تباہ کردی ہیں۔ کندھ کوٹ قبائلی تنازع نے ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر کی جان لے لی۔ تنازعات کی وجہ سے متعلقہ قبائل کے بچوں کی تعلیم سخت متاثر ہو رہی ہے۔ سکول جانے کی عمر کے بچوں کے ہاتھوں میں کتابوں کے بجائے آتشیں اسلحہ موجود ہے۔ صرف شکار پور اور تنگوانی کے علاقوں میں قبائلی تنازعات کی وجہ سے 200سے زیادہ سکول بند ہیں۔ صوبے میں کل 44ہزار پرائمری سکول ہیں جن میں سے ساڑھے چار ہزار سکول شیلٹر لیس ہیں۔
بلوچستان میں تعلیم کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں صرف 12ہزار 347سرکاری سکول ہیں اور ان سرکاری سکولوں کا انفراسٹرکچر انتہائی خراب ہے۔ امن و امان کی خراب صورت حال نے سکولوں کا حال مزید خراب کردیا ہے۔ سکول جانے کی عمر کے 27لاکھ بچوں میں سے 18لاکھ سکول نہیں جاتے۔ بچوں کے سکول نہ جانے کی وجوہات میں سکولوں کی کمی‘ سکولوں میں سہولیات کی عدم فراہمی‘ سکولوں کا طویل فاصلے پر ہونا اور امن و امان کی خراب صورت حال جیسے محرکات سر فہرست ہیں۔ سکولوں سے تعلیم مکمل کیے بغیر ڈراپ آؤٹ ہونے والے بچوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ ملک کے چار صوبوں میں سے تین کا حال تو انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ صوبہ پنجاب میں البتہ سکول کی سطح تک بچوں کی انرولمنٹ کچھ بہتر ہے لیکن جنوبی پنجاب میں بچوں کی بڑی تعداد مختلف وجوہات کی وجہ سے سکول سے باہر ہے۔
حالیہ دنوں میں بٹگرام خیبر پختونخوا میں 1200فٹ بلندی پر طلبا و اساتذہ 15گھنٹے تک کیبل کار میں پھنسے رہے‘ شکر ہے کہ انہیں بخیریت ریسکیو کر لیا گیا لیکن اس واقعے نے ان بچوں کے ذہنوں پر کس طرح کے اثرات مرتب کیے ہوں گے اور کیا اس علاقے کے دوسرے بچے اور ان کے والدین ایسے ناموافق حالات میں اپنے بچوں کو سکولوں میں بھیج پائیں گے؟ ناخواندگی کا ایک اور بڑا سبب تعلیم کے محکموں میں بدعنوانی بھی ہے۔ محکمہ تعلیم میں مانیٹرنگ کا مؤثر نظام نہ ہونے کے برابر ہے‘ ابھی پچھلے دنوں بہاولپور یونیورسٹی میں سامنے آنے والا سکینڈل‘ یا تین روز قبل کراچی جیسے میٹروپولیٹن شہر کے ایک سکول کی اساتذہ کے ساتھ بدسلوکی کے واقعے کا منظر عام پر آنا لڑکیوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گا؟ اسی طرح کے کئی واقعات ایسے بھی ہوں گے جو رپورٹ نہیں ہو سکے۔ پہلے ہی پرائمری سکول سے لے کر کالج کی سطح تک تعلیم کے حصول کے لیے بچوں کی بہت کم تعداد داخلہ لے سکتی ہے اور اس میں بھی ڈراپ آؤٹ کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اعلیٰ سطح کے تعلیمی اداروں تک تو طلبا کی بہت ہی قلیل تعداد پہنچ پاتی ہے۔ ایسے میں مذکورہ بالا واقعات تعلیم و تعلیمی اداروں سے مزید دوری کا سبب بن رہے ہیں۔ انفرادی و اجتماعی زندگی میں تعلیم کی غیرمعمولی اہمیت ہے۔ سماج اور تعلیم دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ جہاں تعلیم و تعلم میں بہتری آئے گی وہیں خود سماج بااختیار بنے گا۔
تعلیم کی طرف راغب کرنے اور تعلیمی اصلاحات کے لیے صرف نصاب کی تبدیلی ہی کافی نہیں بلکہ اساتذہ کی تربیت اور تدریسی طریقوں میں بھی تبدیلیوں کی اشد ضرورت ہے۔ تعلیم کی راہ میں صرف شدت پسندوں کے حملے‘ جرائم پیشہ عناصر اور قبائلی تنازعات ہی رکاوٹ نہیں بلکہ بٹگرام کیبل کار‘ بہاولپور یونیورسٹی اور کراچی سکول جیسے واقعات بھی ایک اہم وجہ ہیں۔ ہمارے ملک میں سکولوں پر حملے ایک تشویشناک مسئلہ رہے ہیں۔ خاص طور پر تنازعات اور انتہا پسندی سے متاثرہ علاقوں میں ان حملوں کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ ان نتائج سے مستقل بنیادوں پر بچنے کے لیے حکومت میں ایسے رجحانات کی نشاندہی کرنے کی صلاحیت کے ساتھ ایسے حملوں کا ڈیٹا بیس اور اس کے بعد تباہ شدہ سکولوں کی مرمت کے متعلق قومی اعداد و شمار کی شفافیت کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ حفاظتی اقدامات کے ساتھ ذمہ دار افراد کے خلاف تحقیقات اور موثر قانونی کارروائی کرکے ملک کے تما م تعلیمی اداروں کو محفوظ بنایا جا سکے۔