پاکستان میں اس وقت 10.5ملین افراد شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں اور اگلے 5برسوں میں امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ملکی آبادی کا 60فیصد حصہ غذائی عدم تحفظ کا شکار ہو سکتا ہے۔ یہ اعداد و شمار اُس ملک کے ہیں جو ایک زرعی ملک ہے جس میں مختلف موسمی زونز موجود ہیں۔ جس کی زرخیز زمین کبھی پورے برصغیر کو اناج مہیا کرتی تھی۔ اس ملک کا بڑا نہری نظام ملک کے کھیتوں کھلیانوں کو سیراب کرتا تھا۔ 1990ء تک ملک میں گندم کی پیداوار مقامی ضروریات سے زائد ہوتی تھی تو اب ایسا کیا ہوا کہ ملک کی بڑی آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہوگئی؟ اس سوال کا جواب صرف زراعت میں تلاش نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ آج بھی ہم یوکرین سے زیادہ گندم پیدا کر رہے ہیں لیکن سرکاری سطح پر مختلف شعبوں میں پیدا ہونے والے بگاڑ نے مل کر اس مسئلے کو گمبھیر بنا دیا ہے۔ سب سے پہلے زرعی زمین کو رہائشی منصوبوں میں تبدیل کرنا‘ دوم آبادی میں بے پناہ اضافہ‘ ہر سال چھ ملین لوگ اس سسٹم میں شامل ہو رہے ہیں جو کہ بہت سے ملکوں کی کل آبادی کے برابر ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں ہم آبادی کے اعتبار سے ہر سال ایک نیا ملک پیدا کر رہے ہیں۔ آبادی کے اس مسئلے کو ایمرجنسی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ تیسرا اہم مسئلہ زرعی شعبے میں ریسرچ کا ہے۔ برازیل‘ جس نے زراعت کے شعبے میں بہت ترقی کی ہے‘ کا زرعی ریسرچ کا بجٹ 1.75فیصد ہے۔ پڑوسی ملک انڈیا میں اس وقت پانچ سو سے زیادہ زرعی تحقیق کے ادارے کام کر رہے ہیں اور زرعی ریسرچ کے لیے ملکی بجٹ میں 0.67فیصد فنڈز مختص کیے گئے ہیں جبکہ ہمارے ملک کے سالانہ بجٹ میں زرعی تحقیق کے لیے صرف 0.1فیصد فنڈز رکھے جاتے ہیں اور یہ فنڈز بھی انگلیوں پر گنے جانے والے زرعی تحقیق کے اداروں میں کام کرنے والوں کی تنخواہ پر خرچ ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فطری طور پر موسمیاتی تبدیلیوں نے بھی زراعت کو نقصان پہنچایا ہے‘ ان کے اثرات کی وجہ سے ربیع اور خریف کی فصلوں کی کاشت کے اوقات اور نمو کے مراحل متاثر ہو رہے ہیں لیکن یہ جانتے ہوئے بھی کہ زرعی خود کفالت بغیر زرعی ریسرچ کے ممکن نہیں‘ اس کے باوجود ریسرچ نہ ہونے کی برابر‘ جدید ٹیکنالوجی کا فقدان‘ ناقص منصوبہ بندی‘ دو نمبر بیج‘ جعلی کیڑے مار اور جراثیم کش ادویات‘ یوریا کھادوں کی زیادہ قیمت کے باوجود مارکیٹ میں کمی‘ یہ وہ عوامل ہیں جو ہماری زرعی پیداوار میں کمی کا سبب بن رہے ہیں۔
مضبوط اور جامع خوراک کا نظام ترقی کے عالمی اہداف کے حصول کے لیے اہم ہے۔ زرعی ترقی انتہائی غربت کے خاتمے‘ مشترکہ خوشحالی کو فروغ دینے اور 2050ء تک 9.7ارب لوگوں کو خوراک فراہم کرنے کے لیے سب سے طاقتور ہتھیاروں میں سے ایک ہے۔ زراعت کے شعبے میں ترقی دیگر شعبوں کے مقابلے میں غریبوں کی آمدنی بڑھانے میں دو سے چار گنا زیادہ موثر ہے۔ عالمی جی ڈی پی کا 4فیصد اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں یہ جی ڈی پی کا 25فیصد سے زیادہ کا حصہ بن سکتی ہے۔ عام طور پر زرعی ملک کی اکانومی میں زرعی شعبے کی شراکت کی کم از کم شرح 35فیصد ہونی چاہیے لیکن ہمارے ملک کی اکانومی میں زراعت کا کل حصہ جو پہلے کبھی 20فیصد تھا‘ اب کم ہوکر صرف 17فیصد رہ گیا ہے۔ دنیا کے تمام ملکوں میں زراعت کے شعبے کو پوری طرح تحفظ دیا جاتا ہے۔ سعودی عرب اور کویت جیسے آئل پروڈیوسنگ ممالک بھی اب زراعت پر توجہ دے رہے ہیں کیونکہ سب جانتے ہیں کہ جس ملک میں زراعت نہیں ہو گی اس ملک کو فوڈ سکیورٹی کے مسائل ہمیشہ درپیش رہیں گے۔
پاکستان میں 1959ء‘ 1972ء اور 1977ء میں لینڈ ریفام قوانین نافذ کیے گئے تاہم متعدد عوامل کی وجہ سے ان اصلاحات سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکے۔ 2002ء میں کار پوریٹ فارمنگ ایکٹ نافذکیا گیا تھا۔ اس ایکٹ کے تحت ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں جدید کارپوریٹ فارمنگ کے لیے زمین لیز پر دینے کا منصوبہ تھا لیکن اس وقت ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے اس منصوبے پر مکمل طور پر عمل نہ ہو سکا۔ پاکستان کا کل جغرافیائی رقبہ 79.6ملین ہیکٹر ہے اس میں سے 9.14ملین ہیکٹر زمین قابلِ کاشت ہونے کے باوجود غیر آباد ہے۔ بلوچستان میں 4.87ملین ہیکٹر‘ پنجاب میں 1.74ملین ہیکٹر‘ سندھ میں 1.45ملین ہیکٹر اور خیبر پختونخوا میں 1.08ملین ہیکٹر زمین غیر آباد ہے۔ کاشت کے قابل یہ غیر آباد رقبہ جو کل کاشت شدہ رقبے کا تقریباً نصف ہے‘ ملک کی مجموعی زرعی پیداوار کو بڑھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بلوچستان میں قابلِ کاشت غیر آباد زمین قلات‘ کوئٹہ‘ نصیر آباد اور مکران ڈویژن میں ہے جبکہ پنجاب میں ڈیرہ غازی خان‘ بہاولپور‘ راولپنڈی اور لاہور ڈویژن میں غیر آباد رقبہ موجود ہے۔ اسی طرح سندھ میں حیدرآباد‘ میرپور خاص‘ سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن اور خیبرپختونخوا میں ڈیرہ اسماعیل خان‘ ہزارہ اور کوہاٹ ڈویژن میں غیر آباد زمین زیر کاشت لائی جا سکتی ہے۔
زراعت کے شعبے سے اس وقت 37.4فیصد افرادی قوت منسلک ہے تاہم پیداواری صلاحیت میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے۔ ملک کو گندم کی پیداوار میں 31ملین میٹرک ٹن کی کل طلب کے مقابلے میں 4ملین میٹرک ٹن سے زیادہ کمی کا سامنا ہے۔ اسی طرح گزشتہ دہائی میں کپاس کی پیداوار 40فیصد سے کم ہو کر تقریباً 5ملین گانٹھوں پر آگئی ہے۔ اس پس منظر میں حکومت نے غذائی تحفظ کو یقینی بنانے‘ برآمدات کو بڑھانے اور زراعت سے متعلقہ درآمدات کو کم کرنے کے لیے حال ہی میں پاک فوج کے ساتھ مل کر گرین پاکستان انیشیٹو (GPI) منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ اس منصوبے کا مقصد پانی کا تحفظ‘ پائیدار کاشت کاری اور زرعی تحقیق و ترقی پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ پاکستان میں زراعت کو ایگری بزنس کے ماڈل پر چلانے کے لیے کاشت کاروں کی تربیت‘ تعلیم‘ کاشت کاری کے جدید طریقوں سے آگاہی‘ سٹرکچرل اصلاحات اور کسانوں کو آسان شرائط و کم شرحِ سود پر قرضوں کی جلد فراہمی لازمی ہیں۔ اس سلسلے میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) کارپوریٹ فارمنگ کو فروغ دینے اور زراعت میں جدت کو آگے بڑھانے میں ایک اہم کردار ادا کرے گی تاکہ ملک میں زرعی درآمدات پر انحصار کم کرکے خود کفالت کو بڑھایا جا سکے۔
کارپوریٹ فارمنگ پاکستان کے زرعی شعبے میں اہم تبدیلی کا سبب بن سکتی ہے اور فی ایکڑ زیادہ پیداوار کا حصول ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے ذریعے کارپوریٹ فارمز کی تشکیل سے زراعت اور معیشت میں نمایاں بہتری کے امکان موجود ہیں۔ ملک کے لاجسٹک انفراسٹرکچر‘ کثیر جہتی مہارتوں اور وسیع تنظیمی آؤٹ ریچ کا استعمال کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر زرعی صنعتی کمپلیکس کا قیام ملک کے زرعی شعبے میں انقلابی تبدیلیوں کا سبب بنے گا۔
اس سب کے ساتھ کارپوریٹ فارمز کے فوائد کے علاوہ ہمیں اس کے منفی پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ مزید برآں منصوبہ بندی اس طرح کی جائے کہ اس کے منفی اثرات کو انتہائی حد تک کم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں تاکہ اس منصوبے سے دیہی علاقوں کی غربت میں خاطر خواہ کمی ہو سکے۔ امریکہ‘ چین اور سابق سوویت یونین میں کارپوریٹ فارمنگ کو گزشتہ صدی میں ہی اپنا لیا گیا تھا‘ ہمارے منصوبہ سازوں کو ان ملکوں میں کارپوریٹ فارمنگ سے ہونے والے فوائد کیساتھ وہاں کسی طرح کے منفی اثرات مرتب ہوئے اور ان منفی اثرات کو کم یا ختم کرنے کے لیے ان ملکوں نے کون سی تدابیر اپنائیں‘ ان تدابیر کا جائزے لینے اور پھر اپنے ملکی حالات و حقائق کے مطابق منصوبوں کا اجرا ہی فائدہ مند ہو سکتا ہے۔