ستم گر ستمبر کی آٹھویں شب مراکش کے اٹلس پہاڑ 6.8شدت کے زلزلے سے لرز اٹھے اور 110مکانات پر مشتمل گاؤں صفحۂ ہستی سے مٹ گیا۔ مراکش کی تاریخ میں بہت کم اتنے طاقتور زلزلے آئے ہیں۔ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق اس خطے میں اس شدت کے زلزلے غیر معمولی ہیں۔ ایک صدی سے زائد عرصے میں وہاں آنے والے زلزلوں میں یہ سب سے شدید زلزلہ تھا۔ پہاڑی دیہات کو اس زلزلے نے ملبے کے ڈھیر میں بدل کر رکھ دیا‘ کم از کم تین ہزار اموات ہوئیں۔ کئی ہزار لوگ شدید زخمی اور بے گھر ہو گئے۔
صرف دو دن بعد لیبیا کے مشرقی علاقے میں بحیرۂ روم سے اٹھنے والے ڈینیل طوفان نے لینڈ فال کیا جس کے باعث ایک ہی دن میں ایک میٹر سے زیادہ بارش ہوئی۔ عام طور پر سال بھر کے دوران اس خطے میں ہونے والی بارش سے یہ بارش تین سے چار گنا زیادہ تھی۔ خوبصورت ساحلی و صنعتی شہر درنہ جو وادی کے دامن میں آباد ہے‘ کی آبادی تقریباً ایک لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ شہر کو سیلاب سے بچانے اور وادی کے کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے کرنل معمر قذافی نے 1973ء میں درنہ ڈیم اور 1977ء میں ابو منصور ڈیم یوگو سلاؤ کنسٹرکشن کمپنی سے تعمیر کروائے تھے۔ درنہ ڈیم 75میٹر اونچا ہے جس میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 18ملین کیوبک میٹر ہے جبکہ ابو منصور ڈیم کی اونچائی 45میٹر اور پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 15ملین کیوبک میٹر ہے۔ ان ڈیموں کی مرمت کا کام 2010ء کے بعد سے نہیں ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے یہ دونوں ڈیم خستہ حال ہو چکے تھے۔ ڈینیل طوفان کے لینڈ فال کے سبب ہونے والی طوفانی بارش کو یہ خستہ حال ڈیم برداشت نہ کر پائے اور ان کے حفاظتی پشتے ٹوٹ گئے اور 30ملین کیوبک میٹر پانی نصف سے زیادہ شہری انفراسٹرکچر‘ تین پلوں اور آبادی کو بہا کر سمندر میں لے گیا۔ جس سے اب تک گیارہ ہزار تین سو سے زیادہ اموات ہوچکی ہیں۔ سمندر ابھی تک انسانی لاشیں اُگل رہا ہے۔ دس ہزار لوگ لاپتہ اور ہزاروں شدید زخمی ہیں۔
2011ء کی عرب بہار کے انقلابات کے ایک حصے کے طور پر کرنل قذافی کی معزولی کے بعد لیبیا میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا۔ جب 2020ء میں خانہ جنگی ختم ہوئی تو ملک کے مشرقی و مغربی حصوں میں دو حریف حکومتیں قائم ہو گئیں۔ دارالحکومت طرابلس میں قائم عبدالحمید دبیبہ کی حکومت کو اقوامِ متحدہ نے تسلیم کیا ہے جبکہ مشرق میں قائم جنرل خلیفہ حفتر کے حمایت یافتہ حکمران اسامہ حماد کو مصر اور روس کے ویگنر گروپ کی حمایت حاصل ہے۔
تیل کی صنعت کی زبوں حالی کی وجہ سے حکومتی محصولات میں کمی کے باعث لیبیا میں تعمیر نو کا کام سست روی کا شکار ہے۔ ملک میں انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کو نظر انداز کرنے کے اثرات حالیہ سیلاب کے دوران تکلیف دہ طور پر واضح ہوئے جب طوفانی بارش اور خستہ حال ڈیموں کے ٹوٹنے کے نتیجے میں یہ خطہ قیامتِ صغریٰ کا منظر پیش کرنے لگا۔ زندہ بچ جانے والوں کی تلاش اور لاشیں نکالنے کے لیے تباہ ہونے والی عمارتوں اور مٹی کے تودوں کی کھدائی جاری ہے۔ اس سب میں تشویشناک ترین بات یہ ہے کہ اتنی بڑی تباہی کے باوجود اپنے لوگوں کی مدد کرنے کے لیے سیاسی حریف اپنے آپسی اختلافات کو بالائے طاق رکھنے کے لیے تیار نظر نہیں آرہے۔
مراکش میں آنے والے زلزلے کے بعد مراکش نے اپنے پڑوسی ملک الجزائر اور فرانس سے امداد کی پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ الجزائرکے ساتھ مراکش کے تعلقات بہتر نہ ہونے کی وجہ پولساریو فرنٹ (Polisario Front) تحریک ہے۔ یہ تحریک مغربی صحارا میں مراکش کے قبضے کے خلاف سرگرم ہے۔ الجزائر اس قوم پرست تحریک کا حامی ہے۔ اسی طرح مراکش فرانس کی نوآبادی رہا ہے اور ان دونوں کی طویل و تلخ تاریخ ہے۔ مراکش اور لیبیا کی آفات نے جہاں انسانی المیے کو جنم دیا وہیں ان آفات نے ان ملکوں کی پیچیدہ ملکی اور غیر ملکی سیاست کو نمایاں کر دیا ہے۔
براعظم افریقہ جو عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے 10فیصد سے بھی کم اخراج کا ذمہ دار ہے لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے یہ براعظم بہت زیادہ متاثر ہورہا ہے۔ گرمی کی لہریں شدید بارش‘ سیلاب‘ Tropicalطوفان اور طویل خشک سالی‘ مقامی باشندوں اور معیشتوں پر تباہ کن اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ اس پر مستزاد سیاسی اختلافات اور براعظم کے مختلف ممالک میں جاری خانہ جنگی‘ عدم استحکام نے خطے کے باشندوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا ہے۔ سوڈان میں خانہ جنگی‘ نائیجیریا میں شدت پسندوں کے حملے‘ نائیجر میں فوجی بغاوت‘ لیبیا میں 9 برس خانہ جنگی جاری رہنے کے بعد بھی عملاً ملک دو حریف حکومتوں کے درمیان منقسم ہے۔ اس طرح کے دیگر مسائل براعظم کر ترقی کی راہ میں حائل اور افریقی باشندوں کی غربت کا سبب ہیں۔
عالمی موسمیاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق درنہ میں اگر ایمرجنسی وارننگ سسٹم فعال ہوتا تو زیادہ ہلاکتوں سے بچا جا سکتا تھا۔ درنہ میں انفراسٹرکچر مکمل تباہ ہو گیا ہے اور متاثرہ علاقے تک رسائی ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔ مشرقی لیبیا کے پانچ صوبوں (مائیکاس) میں تقریباً 8لاکھ 84 ہزار لوگ آباد ہیں جو اس طوفان اور اچانک سیلاب سے براہِ راست متاثر ہوئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے ابتدائی طور پر 71.4ملین ڈالر کے عطیے کی درخواست کی ہے۔ بہت سے متاثرہ علاقوں میں اب بھی ریسکیو کارکنوں کی رسائی نہیں ہو سکی۔ برسوں کے تنازعات عدم استحکام‘ ملک کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے نہ صرف مسائل کو پیچیدہ کر دیا ہے بلکہ ریسکیو اور بحالی کے کام میں بھی رکاوٹ ہے۔ ترکی‘ یونان‘ اٹلی‘ عرب امارات اور مصر کی امدادی ٹیمیں مشرقی لیبیا پہنچی ہیں لیکن وہاں بحالی کے آپریشنز کو مربوط کرنے کی کوشش کرنا ایک مشکل ترین چیلنج ہے۔
قدرتی آفات کے بارے میں بروقت آگاہی دینے والے نظام کی ضرورت بڑھ رہی ہے جسے 2027ء تک دنیا بھر میں پھیلانے کے لیے اقوامِ متحدہ کی ہدایات کے مطابق حکومت اور معاشرے کی ہر سطح پر دستیاب ہونا چاہیے۔ مراکش اور لیبیا میں دو مختلف طرح کی تباہی اور سوگوار خاندانوں کو درپیش ناقابلِ بیان صدمے کے بعد عالمی سطح پر امدادی کوششوں کو متحرک اور مربوط کرنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔ مراکش کے اٹلس پہاڑی سلسلے میں آنے والے زلزلے کے بعد 24گھنٹوں میں ہی اقوامِ متحدہ کی امدادی ٹیم خطے میں پہنچ گئی تھی لیکن لیبیا میں جہاں تباہی کے نتائج نہایت دہشت خیز اور ناقابلِ تصور ہیں‘ وہاں کے اندرونی سیاسی اختلافات کی وجہ سے مقامی ریسکیو ٹیمیں چاہنے کے باوجود منظم طریقے سے کام نہیں کر پا رہی ہیں۔ ہماری دنیا قدرتی تانے بانے میں اس طرح بندھی ہوئی ہے کہ قدرتی آفات ہمیں ہماری کمزوری کی یاد دلاتی ہیں۔ مراکش اور لیبیا میں آنے والی تباہی کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث آنے والی آفات سے مستقبل میں نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کے لیے ایک ٹھوس یاد دہانی سمجھنا چاہیے۔ ان آفات کی پیش گوئی کرنا تو ممکن نہیں لیکن ان سے ہونے والی تباہی کا اگر مل کر مقابلہ نہ کیا جائے تو تبائی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اسی لیے ایسے حالات میں تمام تر اختلافات و مخالفتوں کو بھول کر انسانیت کی مدد کو اولیت دینا ہو گی۔ دنیا میں جغرافیائی‘ سیاسی تناؤ میں اضافہ ہورہا ہے۔ آج مضبوط‘ جدید‘ کثیر الجہتی اداروں کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ اس طرح کے خوفناک قدرتی المیوں کی صورتحال میں کوئی عالمی سطح کی قانون سازی بھی ہونی چاہیے جس کے تحت کم سے کم وقت میں زیادہ انسانوں کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے سیاسی و سماجی رکاوٹوں کو وقتی طور پر ہی صحیح مگر معطل کردیا جائے۔