گزشتہ کئی برسوں سے وطنِ عزیز کی بڑی ریاستی انٹرپرائزز کا خسارہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ اب روز مرہ کے معاملات کو چلانا بھی مشکل تر ہورہا ہے۔ خسارے میں چلنے والے ان اداروں میں پاکستان سٹیل ملز‘ پاکستان ریلوے‘ نیشنل ہائی ویز اتھارٹی‘ بجلی کی ترسیلی کمپنیاں‘ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (PIA) اور گیس کی ترسیلی کمپنیاں وغیرہ شامل ہیں۔ ان انٹرپرائزز کا سالانہ مالی خسارہ 2020ء کی رپورٹ کے مطابق 500ارب روپے سے زیادہ ہے اور المیہ دیکھیں کہ 2020ء کے بعد نقصانات و خسارے کی رپورٹ ہی مرتب نہیں کی گئی۔ صرف پی آئی اے کی بات کریں تو اس کا مالی خسارہ ساڑھے سات سو ارب تک پہنچ گیا ہے جو پی آئی اے کے اثاثوں کی مجموعی مالیت سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ پی آئی اے کے ایک مسافر طیارے پر 600سے 700افراد پر مشتمل عملہ موجود ہے جو دنیا کی کسی بھی منافع بخش ایئر لائن کے لیے مطلوبہ عملے کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ پاکستان میں نجی شعبے کی 137سٹیل ملز کامیابی کے ساتھ چل رہی ہیں اور منافع بھی کما رہی ہیں لیکن پاکستان سٹیل ملز‘ جسے پاکستان میں موجود 1.42ارب ٹن خام لوہے کے ذخائر کو فولاد میں تبدیل کرنے اور مقامی ضرورت کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ بر آمد کرکے منافع کمانے کے لیے لگایا گیا تھا‘ وہ خسارے میں ہے۔ اس مل نے 1981ء میں پیداوار کا آغاز کیا۔ یہ منصوبہ 27 ارب 70کروڑ کی لاگت سے مکمل ہوا لیکن گزشتہ آٹھ برس سے بند ہونے کے باوجود اس کے نقصانات 206ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں آج بھی ریلوے مال برداری اور سفری سہولیات کے لیے سودمند ہے اور پاکستان ریلوے کا خسارے 48 ارب ہے۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا خسارہ 47ارب روپے ہے۔ بجلی کی ترسیلی کمپنیوں کا گردشی قرضہ 2.3 کھرب جبکہ گیس کی ترسیلی کمپنیوں کاخسارہ 2.7 کھرب روپے ہے۔ بجلی چوری اور بل نہ دینے کا سالانہ خسارہ 590ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ کیسے کو ئی ملک اتنے بڑے خسارے کے ساتھ ترقی کر سکتا ہے؟ دارصل اس سب کی بنیادی وجوہات میں حکومتی اداروں میں سیاسی بنیادوں پر میرٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے ضرورت سے زیادہ بھرتیوں کا ہونا‘ گورننس کے ماڈل کو وقت کے ساتھ بہتر بنانے پر توجہ نہ دینا‘ احتساب اور جواب دہی کا عمل نہ ہونا شامل ہیں جن کی وجہ سے ادارے روز بروز کمزور سے کمزور ہوتے چلے گئے۔
ملک کی زیادہ تر معاشی پالیسیاں طاقتور طبقات کے دباؤ میں بنائی جاتی رہی ہیں اور اس مقصد کی راہ میں اگر کوئی رکاوٹ ہو تو حکومتی ادارے تمام تر مالی بوجھ عوام پر منتقل کرکے کسی نئی قانون سازی میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ اس کی تازہ مثال رواں برس جولائی اور اگست کے مہینوں میں پارلیمنٹ سے کی جانے والی قانون سازی ہے جس میں انفرادی مفادات کو محفوظ کرنے کے لیے عوامی مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے قانون سازی کی گئی۔ ایوب خان کے دور میں جہاں ملکی معیشت 22خاندانوں کی گرفت میں تھی‘ اب اس معیشت پر 31خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ 50برس قبل 22خاندانوں کی اجارہ داری کا رجحان بڑھ کر اب 31خاندانوں میں تبدیل ہو چکا ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں بیشتر دولت بھی انہی کے ہاتھوں میں ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں متحرک ملک کی زیادہ تر کاروباری کمپنیاں اپنے ڈائریکٹرز کے ذریعے باہم منسلک ہیں۔ یہ چند درجن بروکرز وقتاً فوقتاً قیمتیں بڑھا کر یا گھٹا کر بحران پیدا کر دیتے ہیں جن کی وجہ سے خسارے کا شکار ہوکر چھوٹے سرمایہ کاروں کا سرمایہ ڈوب جاتا ہے۔ اگر صرف پچھلی تین دہائیوں پر نظر ڈالی جائے تو 1993ء سے اب تک طاقتور طبقوں کو کئی بار ٹیکس ایمنسٹی دی جا چکی ہے جس کی مدد سے یہ لوگ معمولی ٹیکس ادا کرکے کالا دھن اور لوٹی ہوئی دولت کو سفید کر چکے ہیں۔
معیشت کو درست راہ پر ڈالنے کے لیے مضبوط قدم کے طور پر نان فائلر کی category ختم کرکے ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ہوگا۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہوتا ہے‘ اس سلسلے میں ہمارے غریب اور مقروض ملک کے حکمرانوں کا طرزِ زندگی ملک کی معاشی صورتحال سے قطعاً میل نہیں کھاتا۔ سرکاری اخراجات کو کم کرنے کے ساتھ وفاقی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ فنڈز کے نام سے اربوں روپے کے فنڈز دینے کے بجائے ڈویلپمنٹ کا کام لوکل باڈیز کے سپرد کیا جائے۔ ملکی قوانین کو آسان بنانے کے ساتھ سرمایہ کاروں کے لیے One Window Operation کی سہولت فراہم کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ 18ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کے بعد صوبوں کو اپنے وسائل بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ وفاق سے تمام تر فنڈز لینے کے باوجود صوبائی سطح پر انفراسٹرکچر اور دیگر عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے نہیں بنائے جا رہے اور نہ ہی اختیارات ضلعی سطح تک منتقل کیے جا رہے ہیں۔
ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 95ملین پاکستانی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں غربت کی شرح 39.42فیصد تک بڑھ گئی ہے اور 12.5ملین لوگ خراب معاشی حالات کی وجہ سے غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ اس کے علاہ ہمارے پلاننگ کے اداروں میں باصلاحیت افسران کی موجودگی کے باوجود ملک کے سالانہ بجٹ کے تخمینوں میں ساڑھے چار ارب ڈالر کے خلا کی نشاندہی کی گئی ہے۔ غیرحقیقی بجٹ بھی ملکی معیشت کی کمزوری کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ غیرمستحکم مالیاتی صورتحال عوام کے لیے مشکلات کو بڑھا رہی ہے۔ اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے حکومت کو ریئل اسٹیٹ‘ ریٹیلرز اور زرعی آمدن پر ٹیکس لگا کر ٹیکس نیٹ کو جی ڈی پی کے تناسب سے فوری طور پر 5فیصد اضافے اور اخراجات کو جی ڈی پی کے تقریباً 2.7فیصد تک کم کر نے سے ہی معاشی مسائل کے حل کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔
سوچنا یہ ہے کہ پاکستان جیسا غریب ملک جسے معاشی بحران‘ بڑھتی ہوئی آبادی‘ دہشت گردی اور اس طرح کی کئی سنگین مسائل کا سامنا ہے‘ وہ اپنے ٹیکس دہندگان کے پیسوں کو ان سفید ہاتھیوں کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے کب تک ضائع کرتا رہے گا۔ وقت آگیا ہے کہ ملکی مفاد میں سخت اور بولڈ فیصلے کیے جائیں‘ ٹیکس اصلاحات کا رُخ بدلیں اور امیروں سے ٹیکس وصول کرنے کے ساتھ ان انٹرپرائزز کی نجکاری کرکے ملکی بجٹ کا خسارہ کم کیا جائے۔ نجکاری کے معاملے پر پہلے ہی بہت وقت ضائع کیا جا چکا ہے۔ ماضی میں جب بھی حکومت نے اس سلسلے میں کچھ سنجیدگی دکھائی ہے تو پہلے مرحلے میں سٹے آرڈرز اس عمل کو روک لیتے ہیں اور اس کے بعد اپوزیشن ملکی مفاد میں حکومت کی حمایت کے بجائے اپنی سیاست چمکانے کے لیے اس عمل کے لیے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ وہی اپوزیشن جب بعد میں حکومت میں آتی ہے تو خود نجکاری میں سنجیدہ دکھائی دیتی ہے۔ کاروبار میں فیصلہ سازی بروقت اور پیشہ ورانہ بنیادوں پر ہی کامیابی سے ہم کنار ہوتی ہے۔ ریاستی انٹرپرائزز کے قیام کا مقصد حکومت کے لیے منافع کمانے کے علاوہ شہریوں کو سہولیات فراہم کرنا اور نجی شعبے کی اجارہ داری یا حد سے زیادہ منافع خوری کو روکنے میں مدد کرنا ہوتا ہے۔ اگر یہ انٹر پرائزز ملکی خزانے پر بوجھ بن جائیں تو ان کا بنیادی مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں ٹیکس دہندگان کے پیسوں کو ان اداروں کے خسارے کو پورا کرنے پر خرچ کرنا اور بیل آؤٹ پیکیج دینا نقصان کو بڑھانے کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں دے سکتے۔