تعلیم بقا کی مترادف

آٹھ فروری کو ملک میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ الیکشن کی گہما گہمی میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے انتخابی منشور کا اعلان کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ الیکشن کے بعد اقتدار میں آنے والی جماعت اور اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے والی جماعتیں انتخابی منشور اور وعدوں کو بھول کر اقتدار کے مزے میں مشغول ہو جاتی ہیں‘ دوبارہ انہیں اس منشور کی یاد اس وقت آتی ہے جب ایک بار بھر انتخابات کا سٹیج سجتا ہے۔ عوام بھی اپنے نمائندوں سے منشور میں کیے گئے وعدے فراموش کر دینے کے حوالے سے سوال نہیں کرتے۔ اب کی بار ان کے انتخابی منشور میں تعلیم کے حوالے سے وژن و سنجیدہ نوعیت کے اقدامات کی کیا صورتحال ہے‘ ہم سب کو سامنے رکھنی چاہیے۔ نہیں بھولنا چاہیے کہ آئندہ مہینے ہونے والے الیکشن سے قبل اکثر سیاسی جماعتیں برسر اقتدار یا اقتدار میں حصہ دار رہ چکی ہیں لیکن حیرانی ہوتی ہے کہ وطنِ عزیز دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو 1870ء میں برصغیر میں جنم لینے والی تعلیمی تحریک کا ثمر مانا جاتا ہے۔ اس کے بابائے قوم نے تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنے پیغام میں تعلیم کو پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ قرار دیا تھا۔ ہم اپنے بابائے قوم کے پیغام کو بھلا بیٹھے ہیں۔ ملک کی آزادی کے 76برس بعد بھی ہم اپنے جی ڈی پی کا صرف 1.7فیصد تعلیم کے شعبے کے لیے مختص کرنا کافی سمجھتے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنے کم سالانہ بجٹ کے ساتھ 24 کروڑ سے زیادہ آبادی والے ملک کے 63فیصد نوجوانوں کو حقیقی دولت میں تبدیل کرنے کے لیے انہیں اعلیٰ معیار کی پرائمری‘ سیکنڈری اور اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے نئے سکولوں کا قیام ہو‘ موجودہ سکول اَپ گریڈ ہوں‘ تعلیمی ادارے ڈیجیٹل ہو جائیں‘ فاصلاتی تعلیم کا فروغ بھی ہو جائے اور اساتذہ کی استعداد کار میں اضافے کے ساتھ ہر نوجوان کی تعلیم تک رسائی بھی یقینی بن جائے۔ حقیقت کی دنیا میں تو یہ کسی دیوانے کا خواب ہی لگتا ہے جو اتنے محدود بجٹ سے دنیا کی بڑی ناخواندہ اور غیر ہنرمند آبادی کے ساتھ ملک کو ترقی یافتہ بنتا دیکھنا چاہتا ہے۔
عالمی ادارے کے ترقیاتی پروگرام کی رپورٹ کے مطابق 189ممالک کی فہرست میں پاکستان 154ویں نمبر پر ہے جس نے 2010ء کے بعد سے خواندگی کے شرح‘ مجموعی اندراج کا تناسب اور تعلیم پر اخراجات جیسے اہم اشاریوں میں کوئی اہم پیشرفت نہیں دکھائی ہے۔ ملک میں نافذ کی جانے والی تمام تر تعلیمی پالیسیاں اپنے بیان کردہ مقاصد کو حاصل نہیں کر سکیں۔ آج بھی 26فیصد سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ حکومتیں پسماندہ طبقات کے بچوں کے لیے جدید و معیاری تعلیمی سہولیات تو درکنار بنیادی تعلیمی سہولیات فراہم کر نے سے قاصر رہی ہیں۔ پاکستان میں شرحِ خواندگی جنوبی ایشیا کے ممالک میں نیچے سے دوسرے نمبر پر ہے۔ اس خطے کے ممالک میں صرف افغانستان کی شرحِ خواندگی ہم سے کم ہے۔ تعلیم کے لیے مختص کیے جانے والے بجٹ کو گزشتہ برسوں سے مسلسل کم کیا جا رہا ہے۔ پالیسی سازوں کی جانب سے عموماً تعلیم کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ تعلیمی پالیسیوں کے غیرموثر ہونے میں سیاسی مداخلت‘ ملکیت کا فقدان‘ مطلوبہ صلاحیت کی کمی‘ متضاد اعداد و شمار‘ وسائل کی کمی اور نگرانی و احتسابی میکانزم کا نہ ہونا شامل ہیں۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق 155ملین ڈالر مالیت سے چلنے والے ترقیاتی پروجیکٹ Sindh Early Learning enhancement through classroom transformation میں ہونے والی پروگریس کو غیرتسلی بخش قرار دیا ہے۔
پاکستان ایجوکیشن سٹیٹسکس کی رپورٹ سرکاری سکولوں کی تشویشناک تصویر پیش کر رہی ہے۔ اس کے مطابق ملک کے 24فیصد سے زیادہ سکولوں میں چار دیواری‘ بیت الخلا‘ بجلی اور پانی جیسی بنیادی سہولیات موجود نہیں ہیں۔ انصاف‘ سماجی بہبود‘ اقتصادی ترقی اور سیاسی استحکام کے لیے معیاری تعلیم اہم ہے۔ 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے تعلیم کو آئین میں بنیادی انسانی حق کے طور پر شامل کر کے اسے وفاقی اکائیوں کے سپرد کر دیاگیا۔ اس کے باوجود ابھی تک یونیورسل پرائمری ایجوکیشن کا ہدف حاصل نہیں کیا جا سکا۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ پاکستان میں اب پانچ سے 16 سال کے درمیان چھ کروڑ تیس لاکھ سے زیادہ بچے ہیں۔ سرکاری سکولوں کا نیٹ ورک صرف دو کروڑ ستر لاکھ بچوں کو تعلیم دینے کی سکت رکھتا ہے۔ جن میں سے دو کروڑ سے زائد فی الحال سکولوں سے باہر ہیں۔ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ نجی سکولوں‘ مدارس اور غیررسمی تعلیمی اداروں میں داخل ہیں۔ ایسے میں پاکستانی بچوں کی ایک تہائی کو کبھی بھی ایسے تعلیمی و معاشی مواقع میسر نہیں آتے جو ان کا حق ہیں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کرپشن ہمارے معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ ایسا معاشرہ جہاں رشوت ستانی‘ اقربا پروری کاراج ہو وہاں رسمی تعلیم بیکار ہو جاتی ہے۔ جب میرٹ کے سامنے کاغذ کی ڈگری کو زیادہ اہمیت دی جائے تو ایسے میں زندہ رہنے کے لیے کوئی تعلیم میں روشنی تلاش کرنے پر توجہ کیوں دے گا۔ میٹرک کے امتحانات میں 85فیصد سے زیادہ نمبر لینے والا پاکستانی طالب علم پھر بھی بین الاقوامی معیار کے امتحان میں ناکام ہو جاتا ہے۔ گریڈز اور پرسنٹیج کی دوڑ میں علم کی جستجو کہیں کھو گئی ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام روٹ لرننگ اور یاداشت پر زیادہ زور دیتا ہے جو طلبا میں تنقیدی سوچ اور مسئلہ حل کرنے کی مہارتوں کو پنپنے نہیں دیتا۔ ملک میں فنی اور پیشہ ورانہ تربیت کے اداروں کی تعداد بھی ناکافی ہے۔ غیرہنر مند آبادی کا مطلب ہے کہ ملک میں زیادہ بے روزگار افراد جو قومی ترقی کو منفی طور پر متاثر کرتے ہیں۔ تکنیکی تعلیم کو رسمی تعلیم کا حصہ ہونا چاہیے تاکہ سکول میں بچوں کو پیشہ ورانہ تربیت بھی دی جا سکے۔ یہ وہ حقائق ہیں جن کو تسلیم کیے بغیر تعلیمی نظام میں سٹرکچرل تبدیلیاں لانا ممکن نہیں۔ ملک کے سرکاری سکولوں میں پڑھایا جانے والا نصاب صرف پاکستان کی مختصر مدت کی تاریخ‘ ملکی سرحدوں کے اندر محدود جغرافیہ پر مرکوز ہے۔ معاشرت و تمدن‘ اخلاقیات‘ عالمی تاریخ و تہذیب جیسے مضامین شامل ہی نہیں ہیں۔ اسی طرح تنقیدی سوچ سکھانے کے لیے کوئی مضمون یا تدریسی تکنیک نصاب کا حصہ ہی نہیں۔ عالمی تاریخ‘ جغرافیہ‘ اخلاقیات‘ تنقیدی سوچ‘ ماحولیاتی تحفظ اور انسانی حقوق کے مضامین کو تدریسی نصاب میں مناسب جگہ نہ دے کر ہم اپنے بچوں کو متوازن ذمہ دار شہری بننے سے روک رہے ہیں۔ ایسے میں ملکی نظامِ تعلیم پولرائزڈ‘ منتشر اور غیر مساوی ہے۔ وہ خاندان جو اعلیٰ سماجی حیثیت سے تعلق رکھتے ہیں‘ وہ اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے مہنگی اعلیٰ معیاری نجی تعلیم کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ والدین یا خاندانی آمدنی کی سطح معیاری تعلیم تک رسائی کا تعین کرتی ہے۔ والدین جتنی زیادہ فیس ادا کر سکتے ہیں‘ اتنا ہی زیادہ ان کا بچہ جدید اور اچھی سہولیات والے تعلیمی ادارے میں پڑھ سکتا ہے۔ اس سسٹم نے معاشی و سماجی ناہمواری کو بڑھایا ہے۔ تعلیم بنیادی حق ہے۔ افسوس کہ یہ پاپولر بیانات کے علاوہ ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔
انسانی زندگی تعلیم کے اہم کردار سے متاثر ہوتی ہے اور اسی لیے یہ زندگی کے تقریباً تمام پہلوؤں میں تبدیلی کی محرک قوت ہے۔ اس لیے نہ صرف حکومت کو تعلیم کو اولین ترجیحی قرار دے کر تعلیمی شعبے کی بہتری کے لیے کم ازکم جی ڈی پی کا چار فیصد مختص کرنا چاہیے بلکہ ایسا سماجی و ثقافتی رجحان جو تعلیم کی راہ میں رکاوٹ ہے‘ ان رویوں میں تبدیلی کیلئے لائحہ عمل بھی تیار کرنا ہوگا۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں کو تعلیم کے ترقیاتی اخراجات میں پائیدار اضافہ نہ صرف انسانی اور معاشی ترقی کیلئے ایک اہم سرمایہ ہے بلکہ اسی سے ملک کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ معیارات کہ برابر لایا جا سکتا ہے جو صرف عوامی نمائندگان کی مدد سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں