اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا

ہم نے بچپن میں اپنی دادی محترمہ کو پنجابی زبان کا یہ محاورہ کئی بار بولتے سنا ''گھر دا زیاں جگ دی شہرت‘‘ تب ہمیں اس کا مفہوم کیا معلوم ہوتا مگر آگے چل کر اس کا مطلب واضح ہوا کہ اپنے گھر کو نقصان پہنچا کر یا گھر کی بات طشت از بام کر کے اپنے ہاتھوں بدنامی مول لینا۔ ہم نے زندگی میں کئی بار لوگوں کو پہلے ذاتی باتوں کا افسانہ بناتے اور پھر یہ گلہ کرتے سنا کہ 
خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
مگر ہم نے پہلی بار ایسے حکمران دیکھے ہیں کہ جو روز گھر کا زیاں کرتے اور جگ دی شہرت یعنی بدنامی کا اہتمام کرتے ہیں۔ ایوی ایشن کے وزیر غلام سرور خاں نے 24 جون کو طیارہ حادثے کی انکوائری رپورٹ پیش کرتے ہوئے بڑے طمطراق سے ایوان کو بتایا کہ ہم نے ایک ماہ میں رپورٹ پیش کر دی ہے۔ ''اِس رپورٹ‘‘ کے مطابق پی آئی اے کرپشن کا گڑھ ہے۔ پاکستان کی قومی ائرلائنز کے 860 میں سے 262 پائلٹس کے فلائنگ لائسنس جعلی ہیں۔ گویا ہم نے دنیا کو یہ بتا دیا کہ ہمارے پائلٹس اُڑتے ہوئے میزائل ہیں لہٰذا جو کوئی ہماری ائرلائن پر سفر کرے گا تو اپنے رسک پر کرے گا۔ اس سے ساری دنیا میں ہماری بدنامی اور جگ ہنسائی ہوئی۔ اب اس کا جو نتیجہ نکلا وہ تو وزیر صاحب کے اس دھماکے کے بعد نوشتۂ دیوار تھا۔ 
دو تین روز بعد ہی دنیا کا سو فیصد متوقع ردّعمل سامنے آ گیا۔ یورپی یونین نے یورپ کے ملکوں میں پاکستانی جہازوں کی آمدورفت پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اسی طرح برطانیہ نے لندن، برمنگھم اور مانچسٹر وغیرہ میں پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ترکی نے ہمارے سولہ کے سولہ پائلٹس کو معطل کر دیا ہے۔ ان پائلٹس میں سے صرف ایک کے لائسنس کے جعلی ہونے کا ذکر حکومت کی جاری کردہ فہرست میں تھا۔ اس کے علاوہ ویت نام نے ہمارے نیک نام پاکستانی پائلٹس کو اس ''خودکش بمبار‘‘ رپورٹ کے آنے پر جہاز اُڑانے سے روک دیا ہے۔ اسی طرح کویت نے بھی ہمارے پائلٹس کو فی الفور گرائونڈ کر دیا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے پی آئی اے کے ڈائریکٹر کو خط لکھ کر اس رپورٹ کے بارے میں وضاحت مانگ لی ہے۔
اب ذرا جگر تھام کر یہ پڑھ لیجئے کہ لائیو ٹی وی پر نتائج سے بے پروا ہو کر غلام سرور خاں گھر کا زیاں کرتے رہے مگر انہوں نے اپنے سی ای او ائر مارشل ارشد ملک کو جو سرکاری خط لکھا ہے وہ بالکل مختلف ہے۔ پائلٹس کے لائسنسوں کے جعلی اور مشکوک ہونے کی بھیانک خبر سنانے والے وزیر خط میں یہ نہیں لکھتے کہ ان پائلٹس کے لائسنس جعلی ہیں اور انہیں پی آئی اے اور دیگر ائرلائنز سے نکال دیا جائے۔ انہوں نے اس کے برعکس لکھا ہے کہ جن پائلٹس کے نام فہرست میں ہیں انہیں احتیاطاً گرائونڈ کر دیا جائے اور ان کے بارے میں فرداً فرداً سول ایوی ایشن قوانین مجریہ 1994ء کے تحت انکوائری کی جائے اور اس کارروائی کے دوران ہر مرد یا خاتون پائلٹ کو اپنی صفائی پیش کرنے کا مکمل موقعہ دیا جائے تاکہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو۔ ایوی ایشن وزیر کی ابتدائی انکوائری کے مطابق کسی ایک پائلٹ کے لائسنس کو بھی جعلی قرار نہیں دیا گیا۔ اس رپورٹ میں کچھ اشاروں کا ذکر ملتا ہے جن سے یہ گمان پیدا ہوتا ہے کہ فہرست میں مذکورہ پائلٹس کے کاغذات کے بارے میں کچھ شک شبہ ہو سکتا ہے۔ اب انصاف کے کٹہرے میں ایوی ایشن کے وزیر کو کھڑا کر کے یہ سوال پوچھا جانا چاہئے کہ جب نہ فرداً فرداً انکوائری ہوئی، نہ کسی کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقعہ دیا گیا، نہ انصاف کا کوئی ایک تقاضا بھی پورا کیا گیا تو پھر آپ محض معمولی سے شک کی بنیاد پر کسی پائلٹ اور اپنی قومی ائرلائن کو مجرم کیسے قرار دے سکتے ہیں۔ کیا قومی وقار کا یہ تقاضا نہ تھا کہ آپ اس وقت تک کسی پبلک فورم سے ایک لفظ بھی نہ کہتے جب تک پی آئی اے کی داخلی کارروائی مکمل نہ ہو جاتی اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی نہ ہو جاتا۔ نہ جانے آئے روز ان حکمرانوں کو ایسی کوئی بات کہنے کا شوق کیوں ہے کہ جو ملک کے لیے شرمندگی و ندامت کا باعث ہو۔
پی آئی اے اور اس کے پائلٹس کو کٹہرے میں کھڑا دیکھ کر مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا کہ وقت وقت کی بات ہے‘ 28 مئی 1998ء کو پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے اور پاکستان عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بن کر دنیا کے سامنے آیا تو ملک کا مقام و وقار بہت بلند ہو گیا۔ عرب دنیا میں کام کرنے والے پاکستانی راتوں رات سر جھکا کر چلنے کی بجائے سر اُٹھا کر چلنے لگے۔ سارے عالم اسلام بالخصوص ہمارے عرب بھائیوں کو پاکستان کی اس عظیم الشان کامیابی پر بہت خوشی ہوئی۔ جدہ کی فرینڈز آف پاکستان ایسوسی ایشن نے غالباً جون 1998ء کے پہلے ہفتے میں جدہ کے سعودی جرمن ہسپتال کے عالی شان آڈیٹوریم میں پاکستان کی کامیابی کے حوالے سے شاندار تقریب منعقد کی جس میں مجھ سمیت کئی پاکستانی و سعودی حضرات کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس موقع پر سعودی ائرلائنز کے ایکٹنگ چیئرمین مسٹر عبدالسلام نے بڑے پُرجوش انداز میں بزبانِ انگریزی تاریخی خطاب کیا۔ انہوں نے پاکستان کے حکمرانوں، برادر سائنس دانوں اور پائلٹس کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ مجھے آج بھی ایک ایک لفظ یاد ہے۔ شیخ عبدالسلام نے کہا کہ ہماری ائرلائن میں پہلے ہی بہت سے برادر پاکستانی پائلٹس ہیں مگر پاکستان کی زبردست کامیابی کے بعد میں نے پاکستان کے ایک سینئر پائلٹ کیپٹن عرفان کے ذمے لگایا ہے کہ وہ کم از کم مزید 18 پاکستانی پائلٹس کا انتظام کرے۔ ہم امریکی پائلٹس کو فارغ کر کے اُن کی جگہ پرپاکستانی پائلٹس لانا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ عظیم الشان خراجِ تحسین سن کر کھچاکھچ بھرے ہوئے ہال میں تادیر تالیاں گونجتی رہیں۔ 
میں نے اپنے شہر سرگودھا کی ایک غیرملکی ائرلائن میں ورکنگ سینئر پائلٹ سے پوچھا کہ کیا سابق حکمرانوں کی چٹوں پر پی آئی اے میں پائلٹ بھرتی ہوتے رہے ہیں؟ پائلٹ نے خالص سرگودھوی لہجے میں کہا ''بادشاہو عقل دی گل کرو‘‘۔ پھر پائلٹ نے نہایت سنجیدگی سے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحب! کیا ایک چٹ پرآپ نے کسی نوجوان کو ڈی سی یا ایس پی بھرتی ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے کہا: ناممکن‘ پہلے سی ایس ایس کا امتحان دینا پڑتا ہے ۔ پائلٹ نے بتایا کہ بالکل اسی طرح پی آئی اے کا نظام بھی ہے باقی جو کچھ ہے وہ سیاسی پروپیگنڈا ہے۔ یہ تو تھیں پائلٹ کی بے ساختہ باتیں۔ میری معلومات کے مطابق پی آئی اے برسوں سے زوال پذیر ہے۔ اس میں یقینا پی آئی اے کے منتظمین کی انتظامی نااہلیت اور سابقہ حکمرانوں کی سیاسی مداخلت اور بے جا نوازشات کا بھی حصہ ہو گا۔ گزشتہ دنوں پی آئی اے کے موجودہ سی ای او ائر مارشل ارشد ملک سپریم کورٹ کے سامنے ایک مقدمے میں پیش ہوئے تو جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اُن سے پوچھا کہ آپ پی آئی اے کو کیسے کامیابی سے ہمکنار کریں گے جبکہ آپ اس سے پہلے شاہین ائرلائن کو ڈبو چکے ہیں۔ فاضل ججز نے ائر مارشل صاحب سے کہا کہ آپ پی آئی اے کو فیملی بزنس کی طرح چلا رہے ہیں۔ آپ نے 4 ائر وائس مارشل صاحبان، 2 ائر کموڈور، 3 ونگ کمانڈر کس بنیاد پر بھرتی کر لیے تھے؟
1959ء سے 1965ء تک ائر مارشل نور خان نے پی آئی اے کے چیئرمین کی حیثیت سے اس ادارے کو نقطۂ کمال تک پہنچا دیا تھا۔ تب پی ادارے کے ماتھے پر یہ جھومر خوب سجتا تھا ''باکمال لوگ لاجواب سروس‘‘۔ پی آئی اے کو بلاوجہ ایک ''دیوالیہ‘‘ ائرلائن بنا کر پیش کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ اب اگر نجکاری ہوگی تو کوئی اونے پونے ہی خریدے گا۔ حکومت نے پاکستان کے ایک باوقار ادارے کا سابقہ وقار لوٹانے کے بجائے اسے بے وقار کر دیا ہے۔ اسے کہتے ہیں اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں