کشمیر : مدتیں گزریں تری یاد بھی آئی نہ ہمیں

2020ء کے آغاز میں امریکی بمباری کی زد میں آئے ہوئے ایک شامی بچے نے شہادت سے قبل اپنی توتلی زبان میں اہلِ زمین کے لیے بہت دھمکی آمیز پیغام چھوڑا : ''میں اللہ سے شکایت کروں گا اور بتائوں گا کہ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا تھا‘‘۔ کم و بیش جولائی 2020ء میں اپنے معصوم و بے قصور نانا کے جسدِ خاکی پر بیٹھے ہوئے کشمیری بچے کے بھی یہی جذبات تھے اور وہ زبانِ حال سے کہہ رہا تھا کہ میں اللہ سے شکایت کروں گا کہ ظالموں نے میرے نانا کو کس جرم کی پاداش میں گاڑی سے گھسیٹ کر اتارا اور پھر ٹھاہ ٹھاہ گولیاں مار دیں۔ یہ بچہ اور ایسے بے شمار معصوم بچوں اور جوانوں کی حرماں نصیب مائیں کشمیر کو اپنی شہ رگ قرار دینے والوں سے پوچھ رہی ہیں کہ انہوں نے گزشتہ ایک برس کے دوران ہمارا محاصرہ ختم کرانے‘ ہمیں گولیوں کی بوچھاڑ سے بچانے کیلئے کیا کیا‘ تو اہلِ پاکستان کے پاس اس کا کیا جواب ہو گا؟ میری معلومات کے مطابق اس کا کوئی کافی و شافی جواب نہ پاکستانی حکمرانوں کے پاس ہے نہ اپوزیشن کے سیاست دانوں کے پاس ‘ نہ اخوت کا رشتہ نبھانے والی اسلامی جماعتوں کے پاس ہے نہ نعرے لگانے والے عوام کے پاس ۔ اس ایک سال کے دوران جناب عمران خان کی کارکردگی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شعلہ بیانی اور اُن کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی دو چار بار کی خوش گفتاری کے علاوہ کچھ نہیں۔ 
میں ذرا قارئین کو یاد دلا دوں کہ 5 اگست 2019ء کو بھارت نے 80 لاکھ کشمیریوں کا غیرانسانی محاصرہ کر لیا۔ اُن کی نقل و حرکت پر پابندی لگا دی‘ ذرائع مواصلات تک اُن کی رسائی ناممکن بنا دی اور انسانی حقوق کی ہر وہ پامالی کی جو درندہ صفت لوگوں کے سنگین خیالوں میں آ سکتی تھی۔ 5 اگست سے جون 2020ء تک درجنوں نوجوان شہید کر دیئے گئے۔ 13582 کشمیریوں کو جبراً گرفتار کر لیا گیا اور انہیں بھارت کی دور دراز جیلوں میں پہنچا دیا گیا۔ ان زیرِ حراست کشمیریوں میں سے 1331 پر بدترین تشدد کیا گیا۔ تشدد کے نتیجے میں 13 کشمیری دورانِ حراست شہید ہو گئے۔ 935 مکانات و دیگر املاک جلا کر خاکستر کر دی گئیں۔ کشمیر میڈیا سروس نے ایک اور گھنائونے جرم کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس ظلم کو نقل کرنے کا بھی مجھے یارا نہیں کیونکہ میرے نزدیک قتل و غارتگری سے بڑھ کر بھیانک جرم خواتین کی آبرو ریزی ہے۔ سید علی گیلانی صاحب گزشتہ 11 برس سے گھر پر نظربند ہیں‘ میر واعظ عمر فاروق بھی گھر پر ہی مقید ہیں جبکہ بیمار محمد یاسین ملک کسی جیل میں قیدِ تنہائی کاٹ رہے ہیں۔ جہاں تک کشمیریوں کی معیشت کا تعلق ہے وہ بری طرح تباہ ہو چکی ہے۔ 7 لاکھ کشمیری شعبۂ زراعت سے وابستہ ہیں‘ سارے ہندوستان کی فروٹ منڈیوں میں فروخت ہونے والے سیبوں کا 85 فیصد مقبوضہ کشمیر سے جاتا ہے۔ سیبوں کی فصل گزشتہ برس بھی ضائع ہو گئی تھی ‘ اس سال بھی برباد ہو چکی ہے۔ یوں پھلوں کی زراعت سے وابستہ 7 لاکھ کشمیری بے روزگار ہو چکے ہیں۔ ان کے علاوہ ٹورازم‘ ٹرانسپورٹ اور ہوٹلوں سے وابستہ تقریباً پونے دو لاکھ افراد بھی روزگار سے محروم ہو چکے ہیں۔
اس دوران سننے میں آیا ہے کہ حکومتِ پاکستان 5 اگست کو ''یومِ استحصال‘‘ کے طور پر منا رہی ہے۔ یہ کاسمیٹک سا یومِ احتجاج ہو گا‘ اس روز وزیراعظم عمران خان مظفرآباد جائیں گے اور وہاں کی پارلیمنٹ سے خطاب کریں گے۔ بعدازاں وہ کشمیری ارکانِ پارلیمنٹ کی ریلی کی قیادت بھی کریں گے اور غالباً دو تین گھنٹے میں واپس اسلام آباد کے عافیت کدے میں لوٹ آئیں گے۔ البتہ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق 5 اگست کو اسلام آباد میں ''یوم استحصال‘‘ کے حوالے سے ایک بڑی ریلی کی قیادت کریں گے جبکہ اُن کی جماعت کے دیگر زعما سارے ملک میں ریلیاں نکالیں گے۔ایک شنید یہ بھی ہے کہ 5 اگست کو اسلام آباد میں صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان ارکانِ پارلیمنٹ کی ریلی کی قیادت کریں گے۔ بقول وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس روز ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی جائے گی۔ اس پر کسی دل جلے کشمیری نے کہا ہے کہ حضور! آپ اور آپ کی حکومت گزشتہ ایک برس سے چپ ہی تو ہیں‘ اور کیا کر رہے ہیں؟
آزادیٔ کشمیر کی سیاسی و سفارتی آواز بن کر مظلوم کشمیریوں کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے والے رکن آزاد کشمیر اسمبلی جناب رشید احمد ترابی میرے مہربان ہیں۔ وہ ایک جنازے میں شرکت کیلئے پیدل پہاڑی پر چڑھتے بھی جا رہے تھے اور میرے سوالوں کے جوابات بھی دے رہے تھے۔ اُن کے لہجے میں اتنی تشویش میں نے پہلی بار محسوس کی۔ ترابی صاحب نے فرمایا کہ گزشتہ ایک ماہ میں نریندر مودی نے 4 لاکھ بھارتیوں کو کشمیر کا ڈومیسائل جاری کیا۔ ان شہریوں میں سابق فوجی‘ سابق بیوروکریٹ اور آر ایس ایس کے خونخوار کارکن بھی شامل ہیں۔ ترابی صاحب نے ایک اور بڑی تشویشناک بات بتائی کہ تازہ ترین قانون سازی کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج اپنے کنٹونمنٹ وغیرہ کی ضروریات کیلئے جس ایریا کو چاہے گی اس پر قبضہ کر لے گی۔ 
مودی حکومت نے آئین کا آرٹیکل 370 اور 35A کے خاتمے کے بعد نئی قانون سازی کی ہے کہ جس بھارتی سابق فوجی یا بیوروکریٹ نے کشمیر میں دو سال ملازمت کی ہو گی وہ کشمیر کے ڈومیسائل کا حقدار ہو گا۔ یہ ایسے ظالمانہ قوانین ہیں کہ جو کشمیری مسلمانوں ہی کو نہیں کشمیری ہندوئوں کو بھی قابلِ قبول نہیں۔ گزشتہ روز پنڈتوں نے ان کالے قوانین کے خلاف سری نگر میں شدید احتجاج کیا ہے۔ بھارتی دستور سے کشمیر کے شہریوں کی شہریت کا تحفظ کرنے والی شقوں کی منسوخی اور غیرکشمیریوں کو کشمیر کا ڈومیسائل دینے کے لیے نئی قانون سازی دونوں کشمیر کے بارے میں سکیورٹی کونسل اور اقوامِ متحدہ کے قراردادوں کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ اس وقت بھارت پاکستان کے علاوہ لداخ میں چین کے ساتھ ایک سرحدی جھگڑے میں سینگ پھنسائے ہوئے ہے۔ چینیوں نے وہاں دنیا کی بلند ترین چوٹیوں پر بندوقوں اور توپوں کے بغیر ہی بھارتیوں کو ناقابلِ فراموش سبق سکھایا ہے اور 20 بھارتی افسروں اور سپاہیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا ہے۔ نیپال کے ساتھ بھی متکبر مودی اُن کے 400 کلومیٹر سرحدی علاقے پر قبضہ کرنے کیلئے برسرپیکار ہے۔ اسی طرح بھارت کا دیرینہ دوست بنگلہ دیش بھی اس کی توسیعی پالیسیوں اور ظلم و ستم کی بنا پر بہت نالاں ہے۔ مودی نے آسام کے بنگالی نژاد مسلم شہریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے اور بھارتی مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا تو بنگلہ دیش میں اس کے خلاف نفرت پھیل گئی۔ اب بھارت کی دیرینہ حلیف بنگلہ دیش کی وزیراعظم مودی کی ان مسلم کش پالیسیوں کی حمایت نہیں کر رہی۔ اگر وہ مودی کی حمایت کریں گی تو اُن کے خلاف مظاہرے شروع ہو جائیں گے۔ 
دنیا کو متعصب اور ظالم و متکبر بھارتی وزیراعظم کا مکروہ چہرہ دکھانے اور اقوامِ متحدہ کو اپنی ذمہ داری باور کرانے اور عالمی کمیونٹی کے خوابیدہ ضمیر کو جگانے کیلئے اس سے بہتر کوئی اور موقعہ نہیں ہو سکتا ‘مگر پاکستانی حکومت بھی کشمیریوں کے احوال سے بیگانہ ہو کر خوابِ غفلت کے مزے لوٹ رہی ہے۔ گاہے آزاد کشمیر کے انتہائی باخبر صدر مسعود خاں اور شدتِ احساس رکھنے والے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر حکومت پاکستان کو اس کی ذمہ داری یاد دلاتے رہتے ہیں۔
مدتیں گزریں‘ تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
حقیقت یہ ہے کہ حکومت پاکستان بے دردی کی تصویر بن کر کشمیریوں کو بھول کر خوش بیٹھی ہے۔ مودی کے پنجۂ استبداد سے کشمیریوں کی رہائی 5 اگست یا 5 فروری جیسے علامتی احتجاجوں سے نہیں‘ عالمی سطح بھرپور سفارتی و سیاسی اقدامات سے ملے گی جس کیلئے ہماری حکومت آمادہ نظر نہیں آتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں