کیا کوئی رستہ نکلے گا؟

بظاہر حکومت اور اپوزیشن دونوں بند گلی کی طرف بڑھ رہے ہیں‘ جس کے بارے میں شاعر نے کہا ہے
اس گلی کے دوسری جانب کوئی رستا نہیں
گزشتہ چند روز سے عجائبات سامنے آ رہے ہیں۔ سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کے انکشافات ہوشربا ہی نہیں چشم کشا بھی ہیں۔ اُن کا روئے سخن جناب وزیراعظم کی طرف تھا کہ کس طرح سے انہیں اپوزیشن کے لوگوں کے خلاف مقدمات قائم کرنے کو کہا گیا۔ اُن کے انکار کرنے پر وزیراعظم نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔ حیرت یہ ہے کہ حکومت نے ان الزامات کی ابھی تک کوئی واضح تردید بھی نہیں کی۔ اسی طرح تقریباً ایک ہفتہ پہلے شاہدرہ لاہور میں آدھی رات کو بدر رشید نامی شخص نے مسلم لیگ (ن) سے وابستہ دو چار نہیں پورے بیالیس افراد کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرا دیا۔ ان ''غداروں‘‘ میں میاں نواز کے علاوہ آزاد کشمیر کے موجودہ وزیراعظم فاروق حیدر اور تین سابق جرنیل بھی شامل تھے۔ جس ملک میں ایک عام سی واردات کی ایف آئی آر درج کرانے کیلئے دھرنا دینا پڑتا ہو وہاں ایک عام شخص رات گئے تھانے جاتا ہے اور 42 معروف و مشہور لوگوں کے خلاف غداری کاپرچہ کٹوا دیتاہے۔ جب غداری کی ایف آئی آر پر ہر طرف سے تنقید و ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا تو اگلے روز جنابِ وزیراعظم نے کہا کہ اس ایف آئی آر کا اُنہیں کوئی علم نہیں۔ ابھی تک عوام کو نہیں بتایا گیا کہ پرچہ کس کے کہنے پر درج ہوا تھا۔ جب تمام تر حکومتی جائزوں اور اندازوں کے باوجود اپوزیشن کی تمام جماعتیں یک جان سو قالب ہو گئیں تو حکومتی فکرمندی کا گراف عروج پر پہنچ گیا۔ جناب عمران خان کہ جن کا پہلے روز سے صبح و شام ایک ہی نعرہ تھا کہ ''نہیں چھوڑوں گا‘‘ اب انہوں نے اپوزیشن کے خلاف دھمکیوں کا سلسلہ تیزتر کر دیا ہے۔ وہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ جلسہ کریں مگر کسی نے قانون ہاتھ میں لیا تو سب کو جیل بھیجوں گا اور جیل بھی عام آدمی والی۔ دوسری طرف حکومتی وزرا کی طرف سے بات دھمکیوں سے ہٹ کر مشوروں تک پہنچ گئی ہے کہ اپنی احتجاجی تحریک تین ماہ تک مؤخر کر دیں کیونکہ کورونا کا خطرہ ہے۔ کورونا کے خطرے کے پیش نظر تو اپوزیشن کو جلسے کیلئے وسیع جگہ مہیا کی جانی چاہئے تھی۔ ابھی تک مقامی انتظامیہ کی طرف سے پی ڈی ایم کو گوجرانوالہ سٹیڈیم میں جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
یہ منظرنامہ دیکھ کر مجھے ایک تاریخی واقعہ یاد آ گیا کہ 1963ء میں ایوب خان کی حکومت کے ایما پر لاہور کے افسران نے جماعت اسلامی کو منٹو پارک لاہور (موجودہ مینارِ پاکستان) میں کئی ہفتوں کی لیت و لعل کے بعد وہاں سالانہ جلسۂ عام منعقد کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ جماعت اسلامی سے وابستہ ممتاز محقق و ادیب سلیم منصور خالد نے لکھا تھا کہ بعداز خرابیٔ بسیار حکومت نے داتا دربار سے کچھ فاصلے پر بیرون بھاٹی و ٹکسالی گیٹ لاہور کی طویل پٹی پر سہ روزہ اجتماع منعقد کرنے کا اِذن اس شاطرانہ سوچ کے ساتھ عطا کیا تھا کہ یہ جگہ اپنی تنگی‘ گندگی اور غلاظت کے اعتبار سے ناقابل استعمال ہے‘مگر جب جماعت کے پرجوش اور مخلص کارکنوں نے اس دلدل کو ایک منظم خیمہ بستی میں بدل ڈالا تو حکومت نے اُن کے راستے میں کچھ اور سنگِ گراں کھڑے کر دیے۔ گویا
ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگ گراں اور
یہ ''سنگ گراں‘‘ لائوڈ سپیکر کے استعمال پر پابندی تھی۔ جب جماعت نے بشری مکبرین کا نظام متعارف کرا کے یہ سنگ گراں بھی عبور کر لیا تو پھر حکومتِ وقت نے ہٹ دھرمی کا ثبوت دیتے ہوئے جماعت کے جلسے پر غنڈوں سے حملہ کرا دیا۔ حیرت ہے کہ آج ستاون برس بعد ہماری سیاسی تاریخ وہیں کی وہیں کھڑی ہے۔ اس سوچ کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ اگر ہمارے پاس اختیار ہے تو پھر آئین و قانون کیسا‘ ہم سیاہ سفید کے مالک ہیں۔ ان سوا دو سالوں میں خان صاحب اپنا ہر وعدہ بھلا کر‘ اپنا ہر خواب طاقِ نسیاں پر رکھ کر‘ اور اپنا ہر پروگرام لپیٹ کر صرف یک نکاتی ایجنڈے پر کاربند رہے ہیں اور وہ ایجنڈا ہے کہ اپوزیشن کے ایک ایک بندے کو دیوار سے لگانا بلکہ دیوار میں چننا۔ اب سوا دو برس کے بعد خان صاحب نے اچانک چونک کر جاں توڑ مہنگائی کے خلاف مہم شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ملک میں اس وقت عام استعمال کی اشیا کی قیمتیں ناقابلِ یقین حد تک بڑھ چکی ہیں۔ چکی کا آٹا 78 روپے فی کلو اور دکانوں پر چینی ایک سو دس روپے فی کلو فروخت ہو رہی ہے اور بجلی اور گیس کے بل ناقابلِ برداشت حد تک پڑھ چکے ہیں۔ خان صاحب کے اس تاخیری ایکشن پر فاقہ کشی کے مارے اس کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
عالمی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اقتصادی صورتحال مسلسل روبہ زوال ہے‘ غربت میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے حتیٰ کہ اقتصادی شرح نمو مالی سال 2021ء میں مزید کم ہو کر 0.5 فی صد ہو جائے گی۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ اتنی خستہ اقتصادی صورتحال کے بارے میں موجودہ حکومت سنجیدگی سے غوروفکر کرے گی اور کیا وہ اس نکتے کو سمجھ پائے گی کہ معاشی حالات میں بہتری کیلئے سیاسی حالات کی بہتری ضروری ہے۔ کیا وزیراعظم دھمکی اور مزید دھمکی کی پالیسی پر نظرثانی کریں گے؟ یا یہ نظام لشتم پشتم ایسے ہی چلتا رہے گا اور لوگ مہنگائی کی چکی میں پستے اور بیڈ گورننس کا شکار ہوتے رہیں گے؟ دوسرا آپشن یہ ہے کہ حکومت تصادم کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کرے کیونکہ اندرونی و بیرونی خطرات پر قابو پانے اور جمہوری سفر کو جاری رکھنے کیلئے یہ ایک کارگر نسخہ ہے۔ اگلے چند روز میں واضح ہو جائے گا کہ غم کے مارے اپنے درد کے درماں کیلئے اپوزیشن کی پکار پر لبیک کہتے ہیں یا لاتعلق رہتے ہیں۔
تاریخ ماضی کا وہ آئینہ ہے جس میں ہم اپنے حال کو درست کرنے کیلئے سبق سیکھ سکتے ہیں‘ مگر ہم کم ہی ایسا کرتے ہیں۔ ایئر مارشل (ر) اصغر خان مرحوم یہی رونا روتے ہوئے اس دارِفانی سے دل گرفتہ کوچ کر گئے کہ ہم تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتے۔ انہوں نے تو انگریزی میں ایک کتاب بھی اس موضوع پر لکھی ہے ۔ پاکستانی تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ماورائے دستور حکومت نہیں چل سکتی۔ جس کسی نے عوامی لہر کے خلاف جانے کی کوشش کی تو بالآخر اسے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں۔ ایوب خان اور نوابزادہ نصراللہ خان کی قیادت میں پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے مذاکرات کامیاب ہو گئے تھے مگر اس موقع پر ایوب خان نے اُس وقت کے آرمی چیف جنرل یحییٰ کا دبائو قبول کرتے ہوئے اقتدار اُن کے حوالے اقتدار کر دیا۔ یحییٰ خان عوامی لیگ کے ساتھ نوڈائیلاگ کی پالیسی پر کاربند رہے اور انہوں نے مشرقی پاکستان کے احتجاجی لوگوں کے خلاف ایکشن کیا اور یوں ملک دولخت ہو گیا۔ سقوطِ ڈھاکہ کی ٹریجڈی کو ابھی چھ برس بھی نہ گزرنے پائے تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے آل پاورفل بننے کیلئے اپوزیشن کو بے دست و پا کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ انتخابات میں دھاندلی کی۔ شدید عوامی احتجاج کے نتیجے میں وہ اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کی میز پر تو آئے مگر تاخیری حربوں کے ساتھ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک بار پھر فوجی حکومت آ گئی۔ سیاست میں کوئی بند گلی نہیں ہوتی۔ اگر نیک نیتی اور ارادہ موجود ہو تو راستہ نکل آتا ہے۔ اب یہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کا امتحان ہے کہ وہ مفاہمت سے راستہ نکالتے ہیں یا خدانخواستہ ملک و قوم کو کسی بڑی آزمائش میں مبتلا کر دیتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں