تلافی کی بھی ظالم نے تو کیا کی

لوگ اس وقت چکی کے دو پاٹوں میں پس رہے ہیں۔ ایک پاٹ معیشت کی بربادی اور مہنگائی کی بھرمار ہے اور دوسرا پاٹ تجزیہ کاروں کی سنجیدہ باتیں ہیں۔ لوگ اس دہری مار سے تنگ آ چکے ہیں اس لیے آج ہم ذرا ہلکے پھلکے انداز میں گفتگو شروع کریں گے اور درمیان میں حسبِ موقع سنجیدہ باتیں بھی آتی رہیں گی۔ 
لوگوں کا شکوہ ہے کہ جناب عمران خان تبدیلی نہیں لاتے۔ یہ عوامی شکوہ بے جا ہے کیونکہ خان صاحب آئے روز وزیروں‘ مشیروں اور افسروں کے تبادلے کرتے رہتے ہیں۔ سابق وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان گرم گفتاری اور گل افشانی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ چوہان صاحب بڑے صاحب کے تقرب کیلئے روز اپنے آتشیں لب و لہجے میں مزید حدّت اور شدت پیدا کرتے رہے تھے اور اپوزیشن خاص طور پر شریف فیملی کو نشانہ بناتے رہتے تھے‘ مگر لگتا یوں ہے کہ ہر بار ایک آنچ کی کسر رہ جاتی ہے اس کی بنا پرآئے رو ز چوہان صاحب کا پسندیدہ نشیمن بجلیوں کی زد میں رہتا ہے۔ اس بار تو وزارتِ اطلاعات اُن کے ہاتھ سے یوں اُچک لی گئی جیسے چیل یکایک جھپٹ کر مرغی کی بے خبری میں چوزہ دبوچ کر لے جاتی ہے۔
شخصی حکومت کے کمالات دیکھئے کہ جب چند ماہ قبل ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو ایوانِ اقتدار سے رخصت کرنے کا فیصلہ خان صاحب نے کر لیا تو انہوں نے اپنے پرنسپل سیکرٹری سے کہا کہ اُن سے استعفیٰ لے لو۔ ڈاکٹر صاحبہ کو بلا کر سیکرٹری نے اُن پر عائد کردہ الزامات کی فہرست سنائی اور انہیں بتایا کہ آپ پر اشتہارات‘ کئی کئی گاڑیاں زیر تصرف رکھنے اور کئی حکومتی ملازمین کو ذاتی خدمات کے لیے وقف رکھنے کے الزامات ہیں ‘ لہٰذا آپ فی الفور مستعفی ہوں۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان یہ الزمات سن کر سیخ پا ہو گئیں۔ انہوں نے مستعفی ہونے سے صاف انکار کر دیا اور وزیراعظم سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیامگر انہیں بتایا گیا کہ وزیراعظم ملاقات نہیں کرنا چاہتے۔ آنکھوں میں آنسو لیے ڈاکٹر صاحبہ کوچہ اقتدار سے نکل آئیں۔ اسداللہ غالب نے کہا تھا؎
نکلنا خُلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
اب دوطرفہ کمال ملاحظہ فرمائیے۔ کہاں گئے وہ الزامات‘ کہاں گئیں وہ رپورٹیں‘ کہاں گئے اپنے کو بھی معاف نہ کرنے کے دعوے۔ دوسری طرف ڈاکٹر صاحبہ وہ سلوک فراموش کر کے ایک بار پھر طوافِ کوئے ملامت کی طرف کشاں کشاں دوڑی چل آئی ہیں۔ اُن کا مشن یہ لگتا ہے کہ چوہان صاحب سے جو ایک آنچ کی کسر رہ گئی تھی اس کسر کو ڈاکٹر صاحبہ نہ صرف پورا کریں گی بلکہ بڑھتے ہوئے سیاسی درجۂ حرارت کو مزید بڑھائیں گی۔ سنجیدہ مزاج لوگ انگشت بدنداں ہیں کہ لوگ فیاض الحسن چوہان کی گرم گفتاری کا شکوہ عمران خان صاحب تک پہنچاتے تھے اور اُن کی جگہ پنجاب میں کسی سنجیدہ فکر وزیر اطلاعات کی تقرری کا مطالبہ کرتے تھے‘ مگر عمران خان صاحب نے کس فیاضی و دلنوازی کے ساتھ یہ عوامی مطالبہ کیسے پورا کیا ہے۔ مومن خان مومن کہاں برمحل یاد آئے ہیں؎
اگر غفلت سے باز آیا‘ جفا کی
تلافی کی بھی ظالم نے تو کیا کی
فیاض الحسن چوہان کو پہلے سے موجود ایک قلمدان کے ساتھ جیل خانہ جات کا اضافی چارج دے دیا گیا کیونکہ اُن کے پیشرو کو ناقص کارکردگی کی بنا پر اس وزارت سے فارغ کیا گیا ہے۔ ہم بعض حوالوں کی بنا پر چوہان صاحب کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ چوہان صاحب وزارتِ جیل خانہ جات سے بھی فارغ کیے جائیں اس لیے ہم انہیں ایک نسخہ بتائیں گے جس پر عمل کر کے وہ جیلوں کی حالت کو بہت سدھار سکتے ہیں اور نیک نامی کما سکتے ہیں۔ 
1964ء میں والد گرامی مولانا گلزار احمد مظاہریؒ جماعت اسلامی پاکستان کے دیگر زعما کے ساتھ گرفتار کر لیے گئے۔ یہ ایوب خانی دور تھا اور ہمارے لڑکپن کا زمانہ۔ ہم لائل پور جیل میں والد صاحب کو ملنے جایا کرتے تھے۔ کئی بار ہمیں جیل کے اندر بھی جانے کا موقع ملا تھا۔ میں ان دنوں ''جیل کہانی‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب پر کام کر رہا ہوں۔ چوہان صاحب کیلئے نصف صدی پہلے اور آج کی جیلوں کی چند جھلکیاں پیش کر رہا ہوں۔
رات کو جیل کی ایک ایک بیرک سے پہریدار پکارتا ہے اور ہر بیرک کا پہریدار بلند آواز سے جوابی ہانک لگاتا ہے ''سب ٹھیک ہے‘‘۔ جہاں ایک ہزار سے زائد قیدی مجبوری و بے کسی کی حالت میں پابند سلاسل ہوں وہاں بہت کچھ غلط ہوتا ہے۔ یہ کارپردازانِ جیل ایک ہزار آدمیوں کو کوٹھڑیوں میں بھاری تالوں میں بند کرنے کے بعد یہ پکارتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں سب کچھ کیا کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوتا۔ جیل میں چکیوں کی بھی ایک جھلک دیکھ لیجئے۔ ہر تنگ کوٹھڑی میں ایک کچا چبوترہ ہے جس پر ایک چکی لگی ہوئی ہے۔ ساتھ ہی لیٹنے اور سونے کیلئے تنگ سی جگہ بنی ہوئی ہے۔ نہ روشنی نہ راستہ‘ نہ کشادگی نہ چلنے پھرنے کی جگہ۔ جیسے چڑیا گھر میں جانور پنجرے میں بند ہوتا ہے اسی طرح انسان کو بند کر کے رکھا جاتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ درندہ پنجرے میں چکی نہیں پیستا ۔ جیل میں اگر کوئی قیدی اپنی عزتِ نفس کے تحفظ کیلئے اُف کر بیٹھے تو پھر ٹکٹکی پر باندھ کر جلادوں کے ذریعے بید لگا لگا کر گوشت اڑا دیا جاتا ہے۔ آج سے نصف صدی پہلے معمولی جرم کی پاداش میں ملزم جیلوں میں آتے تھے اور وہاں سے تربیت یافتہ مجرم بن کر نکلتے تھے۔
1964ء کی جیلوں کی ہولناک اور تشویشناک صورتحال ایک بار پھر یاد کر کے طبیعت بہت آزردہ ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی دل کی کسی تہہ میں امید کی ایک کرن پھوٹی کہ معلوم کرنا چاہئے کہ پچاس پچپن برس کے بعد آج اکیسویں صدی میں پاکستانی جیلوں کی کیا حالت ہے۔ اس حوالے سے میں جتنی جتنی معلومات اکٹھی کرتا گیا اتنا اتنا مضطرب و پریشان ہوتا گیا۔ آج نصف صدی کے بعد ہماری جیلوں کی حالت بہتر نہیں ابتر ہوئی ہے۔ لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان کی 99 جیلوں میں زیادہ سے زیادہ 45,210 قیدیوں کی گنجائش ہے مگر وہاں 80,159 قیدی ٹھسے ہوئے ہیں۔ بعض جیلوں میں تو بیچارے قیدیوں کو کمر سیدھی کرنے کیلئے دو گز زمین بھی نہیں ملتی۔ جیلوں میں اگر نہایت دیانت داری اور جانفشانی سے کام کیا جائے تو انہیں اصلاحی مراکز بنایا جا سکتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ چوہان صاحب کا اصل مینڈیٹ کیا ہے۔ اگر اُن کا مینڈیٹ جیلوں میں موجود ''شرفاء‘‘ پر نظر رکھنے تک محدود ہے تو پھر یہ مشورے لاحاصل ثابت ہوں گے۔ 
اب ذرا آئیے جیلوں کی اصلاحات کے نسخے کی طرف۔ میں نے دنیا کی جیلوں کے بارے میں ریسرچ کی تو مجھے معلوم ہوا کہ ناروے کی جیلوں کا نظام اور انتظام سب سے بہترین ہے۔ میرا اگلا سوال یہ تھا کہ اس حسنِ انتظام کا راز کیا ہے؟ ناروے والوں نے بتایا کہ ہمارے بہترین انتظام کا راز یہ ہے کہ ہم قیدی کو ''انسان‘‘ سمجھتے ہیں۔ باقی سب تفصیلات ہیں۔ جس روز جیلوں میں ایسا تربیت یافتہ عملہ تعینات کر دیا جائے گا جو قیدیوں کو انسان سمجھے گا اس روز ہماری جیلوں کی حالت بھی سدھر جائے گی۔ آخر میں قندِ مکرر کے طور پر ایک بار پھر اس تبدیلی کا ذکر ہو جائے جو جناب عمران خان کا انتخاب اور اُن کے حسنِ کرشمہ ساز کا اعجاز ہے۔ اسی لیے تو مومن خان مومن یاد آئے تھے؎
اگر غفلت سے باز آیا‘ جفا کی؍ تلافی کی بھی ظالم نے تو کیا کی

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں