کیا ووٹ ہمیشہ کے لیے خفیہ ہوتا ہے؟

سینیٹ کیلئے اوپن یا سیکرٹ بیلٹ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا ووٹ کو ہمیشہ کیلئے خفیہ رکھا جا سکتا ہے؟ ظاہر ہے اس سوال کا جو کوئی بھی جواب دے گا وہ آئین پاکستان کی روشنی میں ہی دے گا؛ تاہم فاضل جسٹس کا استفسار پڑھتے ہی ایک جواب ارتجالاً ہمارے ذہن کی سکرین پر نمودار ہوا۔ یہ عربی کا ایک مقولہ ہے کہ وسرّالثلاثۃ غیرالخفی یعنی تین بندوں کا راز کوئی راز نہیں ہوتا۔ مراد یہ کہ دو بندوں کے درمیان تو راز رہ سکتا ہے، ایک صاحب راز اور دوسرا رازداں مگر جب یہ راز تیسرے بندے تک منتقل ہوگا تو راز نہیں رہے گا۔ خفیہ رائے یا سیکرٹ بیلٹ کے فلسفے کے مطابق یہ راز صرف قرطاسِ رائے دہی یعنی بیلٹ پیپر اور ووٹر کے درمیان ہی رہنا چاہئے، تیسرے شخص تک اس کی رسائی کبھی بھی نہیں ہونی چاہئے۔
پاکستان اور ساری دنیا میں ووٹ کی پرچی پر کوئی سیریل نمبر نہیں ہوتا اور نہ ہی اس پر کسی قسم کا کوئی شناختی نشان ہوتا ہے جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ یہ ووٹ کس کا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے عدالت عظمیٰ میں اپنا بیان قلمبند کراتے ہوئے یہی کہا کہ بیلٹ پیپر پر سیریل نمبر نہیں ہونا چاہئے۔ قابل شناخت بیلٹ پیپر کی قانون میں کوئی گنجائش ہی نہیں‘ نیز ماضی میں سپریم کورٹ بیلٹ پر نشان لگانے کو غیرقانونی قرار دے چکی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کا یہ بھی کہنا ہے کہ سینیٹ میں سیکرٹ بیلٹ کا طریقہ صرف آئینی ترمیم سے ہی بدلا جا سکتا ہے۔
1872ء کو جب پہلی مرتبہ برطانوی پارلیمنٹ نے خفیہ رائے دہی کا قانون پاس کیا تو اس کے پیچھے یہی فلسفہ کارفرما تھا کہ خفیہ رائے دہی کے طریقے سے ووٹر آزادانہ طور پر اپنا حق رائے دہی استعمال کرتا ہے اور ہر طرح کے دبائو سے آزاد ہوتا ہے۔ اس طریقے کے مطابق رشوت، مداہنت اور ہر طرح کے ڈر اور خطرے کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ دنیا نے اس سیکرٹ بیلٹ سے بدعنوانی کا دروازہ بند کر دیا مگر ہم اتنے اختراع پسند ہیں کہ ہم نے اس تالے کو بھی کھولنے کا طریقہ سینیٹ کے انتخابات میں دریافت کر لیا ہے۔ یقینا اس پریکٹس کی روک تھام ہونی چاہئے مگر اس طور نہیں کہ اس سے خفیہ رائے دہی کا تقدس ہی پامال ہو جائے۔
یہاں ایک دلچسپ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب 2019ء میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لے کر آئی تو اس وقت وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان بڑے پُراعتماد طریقے سے ایک طرف ہٹ کر اطمینان سے بیٹھے تھے۔ حتیٰ کہ جب اپوزیشن نے 64 ممبران کی حمایت سے سینیٹ میں تحریک عدم اعتماد پیش کر دی تب بھی خان صاحب نہ گھبرائے اور نہ ہی انہیں کوئی پریشانی ہوئی۔ اس اطمینان کا راز اُس وقت کھلا جب ووٹنگ میں یہ 64 ووٹ کے بجائے 50 ووٹ رہ گئے۔ اب سینیٹ انتخابات کے موقع پر جناب وزیر اعظم بہت گھبرائے گھبرائے دکھائی دیتے ہیں۔ سینیٹ امیدواروں کی ایک لسٹ جاری کرتے ہیں تو اس پر پارٹی کے اندر سے اعتراضات کی بوچھاڑ ہو جاتی ہے۔ نظرثانی کرکے دوسری فہرست تیار کرتے ہیں تو کسی دوسرے صوبے سے ''باغی‘‘ سر اٹھا لیتے ہیں۔ اس دوڑ دھوپ سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب وہ دستِ غیب کارفرما نہیں جو 2019ء میں بہت کارآمد تھا۔
اگرچہ جناب عمران خان فرماتے ہیں کہ ہمارے بہترین امیدوار سینیٹ الیکشن آسانی سے جیت جائیں گے‘ لیکن اسی بیان میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ تحفظات کے باوجود ارکان ہمارے ساتھ ہیں۔ حقیقت میں ایسا نہیں۔ وہ ارکانِ صوبائی اسمبلی‘ جن کی وزیراعلیٰ کے سیکرٹری تک رسائی نہ تھی اب اُن پر وزیراعظم ہائوس کے ابواب کھل گئے۔ خود خان صاحب انہیں شرفِ باریابی بخش رہے ہیں اور اُن کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرا رہے ہیں۔ خان صاحب کی بے چینی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اسلام آباد سے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی سینیٹ کے امیدوار کی حیثیت سے انٹری بھی خاصی تشویشناک ہے۔ یوسف رضا گیلانی پی ڈی ایم کے متفقہ اور مشترکہ امیدوار ہیں۔ اُن کے مقابلے میں پی ٹی آئی کی طرف سے موجودہ وزیر خزانہ حفیظ شیخ ہیں۔ حفیظ شیخ اس لحاظ سے ایک کمزور امیدوار ہیں کہ وہ پی ٹی آئی کے رکن نہیں۔ وہ پہلے جنرل پرویز مشرف کی کابینہ میں تھے پھر وہ آصف علی زرداری کے زمانۂ صدارت میں پیپلز پارٹی کے وزیر خزانہ مقرر ہوئے اور مستقلاً وہ آئی ایم ایف کے نمائندے ہیں۔ اُن کا براہِ راست وزیراعظم سے رابطہ رہتا ہے مگر ممبرانِ قومی اسمبلی کے ساتھ اُن کی علیک سلیک نہ ہونے کے برابر ہے۔
اُن کے برعکس یوسف رضا گیلانی کا تعلق ملتان کے ایک بڑے سیاسی خانوادے سے ہے اور اپنی وزارتِ عظمیٰ کے زمانے میں خندہ پیشانی اور خوش گفتاری اُن کا شیوہ تھا۔ اپنے علاقے میں بھی اُن کا یہی وتیرہ ہے۔ اس کے علاوہ اُن کی جہانگیر ترین، پیرپگاڑا اور دیگر سیاسی خاندانوں کے ساتھ قرابت داری بھی ہے۔ جب یوسف رضا گیلانی پسِ دیوارِ زنداں تھے تو انہوں نے اپنی زندگی اور یادوں پر مشتمل ایک کتاب بھی لکھی جس کا ٹائٹل تھا ''چاہِ یوسف سے صدا‘‘۔ میں نے اسلام آباد کی ایک انتہائی باخبر شخصیت سے پوچھا کہ ''چاہِ یوسف‘‘ سے کیا صدا آرہی ہے۔ انہوں نے کہا: ذرا کان لگا کر سنیں وہاں سے اہم خبر آرہی ہے۔
پی ڈی ایم اسلام آباد کی سینیٹ کی سیٹ کی کامیابی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے گی کیونکہ اگر اپوزیشن قومی اسمبلی کے ووٹوں سے یہ سیٹ جیت جاتی ہے تو یہ ایک طرح سے پی ٹی آئی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی تصور کی جائے گی۔ یوسف گیلانی کی بحیثیت سینیٹر کامیابی کے بعد عین ممکن ہے کہ پیپلز پارٹی زرداری فلسفہ کے مطابق اِن ہائوس تبدیلی پر قناعت کر لے جبکہ مسلم لیگ (ن) اِن ہائوس تبدیلی کی چند کلیوں پر قناعت نہیں کرے گی اور علاجِ تنگیٔ داماں پر زور دیتے ہوئے وسط مدتی انتخابات سے کم کسی بات پر راضی نہیں ہوگی۔
بعض تجزیہ کاروں کی رائے میں پی ٹی آئی کے ستارے گردش میں ہیں اور کوئی بڑی تبدیلی آنے والی ہے۔ ہم کوئی ستارہ شناس نہیں اور نہ ہی ہمیں اہل نظر ہونے کا دعویٰ ہے مگر اتنا ضرور جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی خوش قسمتی کا چراغ ابھی ماند نہیں پڑا۔ گزشتہ چند روز کے دوران پی ٹی آئی کے بارے میں اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سے بہت سی ناخوشگوار خبریں آئیں۔ براڈشیٹ کے ڈائریکٹر کاوے موسوی اور ڈیوڈروز اور شہزاد اکبر کی ملاقاتوں حوالے سے کمیشن کے لین دین پر اپوزیشن کی طرف سے جو شدید ردعمل متوقع تھا وہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ اسی طرح پی ٹی آئی کی طرف سے فارن فنڈنگ کے پیسے 4 ملازموں کے ذاتی اکائونٹ میں وصول کرنے کا اعتراف بھی کوئی کم بڑی خبر نہ تھی مگر یہ بھی سینیٹ الیکشن کی دھول میں ہی کہیں چھپ گئی۔
ابھی تک سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں آیا کہ سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے ہوں گے یا سیکرٹ بیلٹ سے؛ تاہم جس طرح جناب وزیراعظم گھبرائے گھبرائے پھر رہے ہیں اور پارٹی کے اندر اضطراب کی لہریں بلکہ موجیں بلند ہو رہی ہیں وہ اقتدار کے سفینے کو زبردست ہچکولوں سے دوچار کر سکتی ہیں۔ ان حالات میں جناب وزیر اعظم کی ساری امیدوں کا دارومدار اوپن بیلٹ پر ہے۔ سیکرٹ بیلٹ سے کوئی بھی پارٹی کسی ناخوشگوار سرپرائز سے دوچار ہو سکتی ہے۔ دیکھئے، پردۂ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔ اس وقت قوم کی نگاہیں عدالت عظمیٰ پر جمی ہوئی ہیں۔ وہاں سے جو فیصلہ یا آئین کی جو تشریح آئے گی اسی کے مطابق سینیٹ کا الیکشن ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں