ویمن ڈے یا حجاب ڈے

انٹرنیشنل ویمن ڈے‘ جسے پاکستان میں عورت مارچ کا نام دیا گیا ہے‘ 8 مارچ کو منایا جاتا ہے۔ گزشتہ چند برس سے بعض این جی اوز کے تحت یہ دن پاکستان میں بھی زورشور سے منایا جانے لگا ہے۔ اس مارچ میں لگائے جانے والے نعرے اور بعض خواتین کا لباس اور اُن کا جارحانہ انداز ہمیشہ نشانۂ تنقید بنتا رہا ہے۔ ''میرا جسم میری مرضی‘‘ اور اسی طرح کے دیگر نعروں اور مارچ میں لہرائے جانے والے بعض پوسٹرز کی تصویروں اور تحریروں پر نہ صرف پاکستان کا دینی طبقہ بلکہ عامۃالناس بھی شدید غم و غصے کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
اس مرتبہ تقریباً ایک ماہ قبل وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے پیش بندی کرتے ہوئے جناب وزیراعظم عمران خان کو ایک خط لکھا ہے۔ قادری صاحب نے اپنے مکتوب میں تحریر کیا ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک میں حقوقِ نسواں کے بارے میں آگہی کے لیے یہ دن منایا جاتا ہے۔ قادری صاحب نے یہ تسلیم کیا ہے کہ دنیا میں یہ انٹرنیشنل ڈے اس لیے منایا جاتا ہے تاکہ تعلیمی‘ سماجی اور معاشی میدان میں عورتوں کی گراں قدر خدمات کی پذیرائی کی جائے اور اُن کے ساتھ دنیا کے اکثر ممالک میں ہونے والی ناانصافی کا تدارک کیا جاسکے؛ تاہم قادری صاحب نے کہا کہ پاکستان میں اس موقع پر خواتین جو نعرے بلند کرتی ہیں اور جس طرح کے پلے کارڈز لہراتی ہیں اس کی اسلام اجازت دیتا ہے اور نہ ہی ہماری معاشرتی اقدار۔ قادری صاحب نے جناب عمران خان سے گزارش کی ہے کہ 8 مارچ کو یوم حجاب کے طور پرمنایا جائے جس سے دنیا کو معلوم ہو کہ اسلام عورتوں کو وسیع تر حقوق دیتا ہے۔ قادری صاحب کی رائے میں یہ یوم حجاب پاکستان کے طول و عرض میں منایا جانا چاہئے تاکہ عالمی کمیونٹی‘ یو این او اور مغربی حکومتوں کو میسج دیا جائے کہ بھارت میں مسلمان خواتین اور بچیوں کے ساتھ کتنا ظالمانہ اور متعصبانہ سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں حجاب کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔
قادری صاحب کے وزیراعظم کے نام مکتوب کے خلاف کچھ خواتین بھی خم ٹھونک کر میدان میں آگئی ہیں۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ دن جسے ساری دنیا میں عورت مارچ کے طور پر منایا جاتا ہے اسے روک کر اپنا ''حجاب ڈے‘‘ نافذ کرکے ہم کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ قادری صاحب نے معزز خواتین کے ردعمل کے جواب میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ غیرشائستہ جارحانہ نعرے اور عورت مارچ کے موقع پر پاکستان میں ہونے والی بے لگام ہلڑبازی قابلِ مذمت ہے۔ انہوں نے اپنی وضاحت میں یہ بھی کہا ہے کہ میرے مکتوب کے مندرجات میں پاکستانی سوسائٹی کی اکثریت کی ترجمانی کی گئی ہے۔
نورالحق قادری صاحب کے علم میں ہوگا کہ پہلے ہی 4 ستمبر کو عالمی یوم حجاب منایا جاتا ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ جب نائن الیون کے بعد ساری دنیا میں اسلامی شعائر کے خلاف مغرب میں تحریک چلائی گئی اور 2003ء میں فرانس میں مسلم خواتین کے نقاب پر پابندی لگا دی گئی تو 2003ء میں لندن کے میئر کین لونگ سٹون نے مختلف ادیان سے تعلق رکھنے والے سکالرز کی کانفرنس بلائی۔ اس کانفرنس میں مشہور اسلامی سکالر علامہ یوسف القرضاوی نے مسلمانوں کی نمائندگی کی اور حجاب سمیت دیگر شعائر اسلامی کے بارے میں کانفرنس میں آگہی دی۔ کانفرنس کے شرکاء نے علامہ قرضاوی کی گفتگو کو بہت سراہا۔
اس موقع پر علامہ قرضاوی نے دیگر علمائے اسلام کی مشاورت سے 4 ستمبر 2004ء کو عالمی یوم حجاب کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت کے امیرِ جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے علامہ قرضاوی کی پکار پر لبیک کہا۔ اس وقت کی قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کی خواتین ممبران عائشہ منور اور ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے یوم حجاب منانے کا آغاز کیا۔ اُس وقت سے لے کر اب تک یہ روایت پورے جوش و خروش سے جاری ہے۔ ڈاکٹر سمیحہ کے بقول بہت سی ماڈرن خواتین جب ہماری کانفرنسوں میں حجاب آبزروِنگ ڈاکٹرز‘ انجینئرز اور سیاست سمیت دیگر شعبوں میں لیڈنگ رول ادا کرنے والی خواتین کو دیکھتی ہیں تو اُن میں سے بھی بہت سی حجاب کی قائل ہو جاتی ہیں۔
پاکستان میں عورت مارچ والی خواتین نے اپنا تاثر یہ بنایا ہے کہ وہ عورتوں اور بچوں کے بنیادی حقوق کے لیے نہیں بلکہ مادر پدر آزاد بے حجاب مغربی کلچر کی ترویج اور اسلامی شعائر کی تضحیک کے لیے سڑکوں پر آتی ہیں۔ پاکستانی عورت کے اصل مسائل کے حل کے لیے کوئی حکومت ٹھوس اقدامات کرتی ہے اور نہ ہی علمائے کرام اس طرف کماحقہٗ توجہ دیتے ہیں۔
عمومی طور پر پاکستانی معاشرے کا سب سے اہم مسئلہ جہالت ہے۔ جناب عمران خان اڑھائی کروڑ بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے اور ہر مردوزن کے لیے معاشرتی و عدالتی انصاف کو یقینی بنانے کے لیے میدان میں اترے تھے مگر انہیں گزشتہ ساڑھے تین برس سے اپوزیشن کی سرکوبی سے کچھ فرصت ملتی تو وہ پاکستان کے اصل مسائل کی طرف حسبِ وعدہ توجہ دیتے۔ عورت مارچ ہو یا حجاب ڈے‘ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین کے بنیادی انسانی و اسلامی حقوق کو اجاگر کیا جائے۔ ہر بچی جو بلوچستان کے دوردراز صحرائوں میں بستی ہو یا پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں آباد ہو‘ اس کا ریاست پر پہلا حق یہ ہے کہ اس کی کم از کم ثانوی تعلیم تک رسائی ہو۔ دیہات سے لے کر شہروں تک‘ ہر پاکستانی بچے یا بچی کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا وفاقی و صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہو۔ یہ ریاست کا فرض ہے کہ پاکستانی سوسائٹی کے بعض علاقوں میں ''سوارہ‘‘ کے نام پر عورت کا استحصال نہ کیا جائے اور ''غیرت‘‘ کے نام پر خواتین کو قتل نہ کیا جائے۔
پاکستان میں صرف بیس فیصد خواتین کام کرتی ہیں۔ ان میں بھی زیادہ تعداد اُن کی ہے جو کھیتی باڑی میں مردوں کا ہاتھ بٹاتی ہیں یا گھروں میں ملازمائوں کی حیثیت سے ''باروزگار‘‘ ہوجاتی ہیں۔ میں جب پاکستانی گھروں میں آٹھ نو سالہ بچیوں کو برتن مانجھتے یا ورکشاپوں میں ''چھوٹے‘‘ کے طور پر استاد کی جھڑکیاں کھاتے دیکھتا ہوں تو تڑپ جاتا ہوں۔ ان میں سے ہر بچی اور بچے میں ڈاکٹر‘ انجینئر اور افسر وغیرہ بننے کی صلاحیت اسی طرح موجود ہوتی ہے جس طرح سے خوشحال گھرانوں کے بچوں میں پائی جاتی ہے۔
پاکستان کے اکثر زمیندار گھرانوں کی بچیوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا اور پاکستان میں ستر فیصد خواتین ڈاکٹرز اور دیگر اعلیٰ تعلیم یافتہ عورتوں کو شادی کے بعد چولھا جھونکنے اور چکی کی مشقت پر لگا دیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورتوں پر جتنے مظالم ڈھائے جاتے ہیں وہ سارے کے سارے خلافِ اسلام ہیں۔ ہمیں خطے کے دوسرے ممالک سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ بنگلہ دیش میں تقریباً 33 فیصد‘ سری لنکا میں 35 فیصد اور ملائیشیا میں 37 فیصد خواتین کام کرتی ہیں۔ ان خواتین کی ایک بڑی تعداد نے اپنی کاٹیج انڈسٹری لگارکھی ہے۔ گھریلو صنعتوں کے لیے وہاں کی حکومتیں فراخ دلی سے قرض دیتی ہیں۔ سچ پوچھیں تو ہمیں ملائیشیا کا کلچر بہت پسند آیا ہے۔ وہاں ہر مسلمان عورت ڈھیلا ڈھالا لباس زیب تن کرتی اور سرپر سکارف اوڑھتی ہے۔ وہاں امن و امان اور قانون کی عملداری مثالی ہے۔
اس سال پاکستانی خواتین کو چاہئے کہ وہ 8 مارچ کے ویمن ڈے پر ہماری ظالمانہ قبائلی اور جاہلانہ معاشرتی رسوم کے خلاف علم بغاوت بلند کریں اور ہر بچی اور بچے کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کا بھرپور مطالبہ کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں