نئی صبح

کیا یہ سپیدۂ سحر ہوگا یا شب گزیدہ سحر یا ایک نئی صبح کی نوید‘ اس بارے میں فوری طور پر تو کوئی حتمی بات کہنا بہت مشکل ہے؛ تاہم اس وقت وہ فضا ہے جس کی کئی دہائیوں سے سیاست دان آس لگائے بیٹھے تھے اور اس کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس وقت عدلیہ بالکل آزاد ہے۔ عدلیہ نے نہ صرف آزادانہ فیصلہ کیا بلکہ معزز ججز سوموٹو ایکشن کی ابتدا میں ہی اصل معاملے کی تہہ تک پہنچ گئے تھے۔ فاضل بینچ نے ٹودی پوائنٹ کیس کی سماعت کو آگے بڑھایا اور ایک تاریخی فیصلہ سنا دیا۔ یہ تاریخی فیصلہ سابق عدلیہ کے کچھ متنازعہ فیصلوں سے یکسر مختلف ہے۔
سیاستدان ہمیشہ یہ کہتے چلے آئے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ کو نیوٹرل ہونا چاہئے اور کسی ایک سیاسی پارٹی کے سر پر خصوصی دست شفقت کا تاثر نہیں ہونا چاہئے۔ اس بار یہ خواب بھی پورا ہو گیا ہے۔ فوج نے تحریک عدم اعتماد کی ابتدا میں ہی یہ اعلان کردیا تھا کہ ملکی سیاست سے اُن کا کوئی لینا دینا نہیں۔ عمران خان نے قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفوں اور سڑکوں پر نکلنے کا جو آپشن اختیار کیا ہے اس سے سیاسی اور انتخابی طور پر انہیں اور اُن کی پارٹی کو فائدہ ہو گا یا نقصان، اس کا ہم ایک الگ کالم میں تفصیلی جائزہ لیں گے۔
اپوزیشن کے قائدین بالخصوص آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کو داد دینا پڑے گی‘ جنہوں نے نہایت ثابت قدمی کے ساتھ تحریک عدم اعتماد کیلئے زبردست ہوم ورک کیا۔ ان قائدین نے پہلے مسلم لیگ (ن) کو اس آپشن کیلئے پوری طرح آمادہ کیا اور پھر حکومت کی اتحادی جماعتوں کے در پر حاضری دی۔ ان جماعتوں کے قائدین پہلے ہی عمران خان کے طرزِ عمل کی وجہ سے بھرے بیٹھے تھے‘ لہٰذا انہوں نے اپوزیشن قائدین کی پکار پر کچھ غوروفکر اور سوچ بچار کے بعد لبیک کہا۔
اپوزیشن کی تین بڑی پارٹیاں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) ہیں؛ تاہم تحریک عدم اعتماد کے میزان پر ایک ایک‘ دو دو ووٹوں کا بھی اتنا ہی وزن تھا جتنا 83 اور 56 ووٹوں والی بڑی جماعتوں کا۔ اپوزیشن کی حیران کن کامیابی اس وقت تک محض ایک خواب ہی رہتی جب تک مسلم لیگ (ق) کے دو اور جمہوری وطن اور عوامی نیشنل پارٹی کا ایک ایک ووٹ شامل نہ ہوتا۔
نومنتخب وزیراعظم میاں شہباز شریف کیلئے اس وقت ایک نہیں کئی بڑے چیلنجز ہیں۔ ترجیحات میں سردست معیشت کی بحالی ہونی چاہئے۔ اقتصادی حقائق کے مطابق جانے والی حکومت نے ساڑھے تین برس میں 20 ہزار ارب روپے کا قرضہ لیا تھا جو گزشتہ تمام حکومتوں کے کل قرض کا 80 فیصد بنتا ہے۔ اگلے سال پاکستان کو اب تک کے تخمینوں کے مطابق تقریباً 30 ارب ڈالرز کی واپسی کا ایک خوفناک چیلنج درپیش ہے۔ سابقہ حکومت ایک بھی نئی نوکری نہ دے سکی مگر اس کی ناقص معاشی پالیسیوں کی بنا پر ساٹھ لاکھ افراد بیروزگار ہوگئے۔
ایک لحاظ سے دیکھیں تو یہ ایک بڑی آئیڈیل فضا ہے کہ نئی مخلوط حکومت میں پاکستان کے چاروں صوبوں کی نمائندگی ہوگی۔ اگر اتحاد کی یہ خوشگوار فضا برقرار رہتی ہے تو اگلے آٹھ دس ماہ میں ملک نہ صرف ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا بلکہ اُن معاملات کو حل کرنے کی بھی کوئی سبیل نکل آئے گی جو برسوں سے حل طلب ہیں۔ اتحاد خاص طور پر سندھ میں ایک ایسے انقلاب کی راہ ہموار کر سکتا ہے جو شہری اور دیہی سندھ کے مابین دوریوں کو قربتوں میں بدل کر باہمی اخوت اور ہم آہنگی کو فروغ دے سکتا ہے۔
اگر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے مابین طے پانے والا منصوبہ وفاق کی سرپرستی میں آگے بڑھتا ہے اور معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عمل ہوتا ہے تو اس سے نہ صرف عروس البلاد کراچی کی رونقیں لوٹ آئیں گی اور شہر کے زیر تکمیل منصوبے‘ جن میں صاف پانی کی فراہمی، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی مرمت، سیوریج کے بہترین نظام کی تعمیر شامل ہے‘ بھی جلد مکمل کئے جا سکیں گے۔ پیپلز پارٹی بھی اگر صدقِ دل کے ساتھ اندرونِ سندھ میں ترقیاتی کام کرے گی تو صوبہ خوش حال ہو جائے گا۔
وزیراعظم شہباز شریف کے لیے اتحادی پارٹیوں کو ساتھ لے کر چلنا، انہیں وزارتیں تفویض کرنا اور اس اتحاد کو اس کی روح کے مطابق برقرار رکھنا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہو گا۔ بدھ کے روز کراچی میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے قائدین سے ملاقات کرکے وزیراعظم شہباز شریف کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ مختلف پارٹیوں کے آبگینوں کو ٹھیس لگنے سے بچانا جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس بارے میں میر تقی میر کی نصیحت پر کان دھرنے کی ضرورت ہے:
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہِ شیشہ گری کا
اس اتحاد کی برکت سے بلوچستان کے دیرینہ بلکہ بہت ہی دیرینہ مسائل کو سمجھنے اور وہاں ہونے والی دہشت گردی کے مسئلے کو بلوچستان کی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل کر حل کرنے میں خاصی پیش رفت ہو سکتی ہے۔
نئے وزیراعظم نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیشکش کی ہے کہ معیشت اور جمہوریت دونوں کیلئے ڈیڈلاک نہیں ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ میاں شہباز شریف نے یاد دلایا کہ سابق حکومت کو میثاق معیشت کی پیشکش کی تھی جس کا انہوں نے حشر نشر کر دیا۔ پی ٹی آئی کو شہباز شریف کی یہ پیشکش قبول کرلینی چاہئے اور حکومت کے ساتھ مل کر انتخابی اصلاحات، نئے انتخابات کی تاریخ اور نیب وغیرہ کے معاملات ہمیشہ کیلئے طے کر لینا چاہئیں۔ محض ایک دوسرے کے خلاف سڑکوں پر بھاگتے پھرنا کوئی دانائی ہے اور نہ ہی کوئی قابل تحسین عمل۔ حکومت اور اپوزیشن کو نہایت سنجیدگی کے ساتھ اُس مینڈیٹ کی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہئے جو عوام نے انہیں دے کر اسمبلیوں میں بھیجا ہے۔
اس وقت میاں شہباز شریف کے سامنے جو سب سے بڑا چیلنج ہے وہ دس پارٹیوں پر مشتمل کابینہ کی تشکیل ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں۔ پارٹی یک رکنی ہو یا دورکنی اس کی یہ خواہش ہوگی کہ اسے کابینہ میں ضرور کچھ نہ کچھ حصہ ملنا چاہئے۔ پیپلز پارٹی نے چونکہ دوسری چھوٹی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے جو وعدے وعید کیے ہیں اُن کا وفا ہونا ازبسکہ ضروری ہے اس کے لیے پیپلز پارٹی اپنے حصے میں سے بھی قربانی دینے پر تیار ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے تو پنجاب کے چودھریوں سے بھی بہت بڑا وعدہ کر لیا تھا۔ اگر چودھری پرویز الٰہی اپوزیشن کے ساتھ آجاتے تو پھر شریف برادران کو بھی زرداری صاحب کے وعدے کی پاسداری کرنا پڑتی۔
گجرات کے وضع دار چودھریوں کے بارے میں بالعموم یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہیں اور موقع شناسی میں اُن کا کوئی ثانی نہیں۔ اُن کی نگاہ اپنے مفاد پر رہتی ہے اور وہ بروقت ''درست‘‘ فیصلہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں‘ مگر اس بار ان کے عرفان سے کچھ نہیں بہت بڑی بھول ہوئی ہے۔ جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔
حکومتی اتحاد کی تینوں بڑی پارٹیوں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے قائدین کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ اگر خدانخواستہ اتحاد کی ہنڈیا کاٹھ کی ہنڈیا ثابت ہوئی اور بیچ چوراہے پھوٹ گئی تو بہت بڑا نقصان ہو جائے گا۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اپوزیشن کی نئی صبح اپنے دامن میں عوام کے لیے کیا پیغام لے کر آتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں