ممانعتِ سود کا تاریخی فیصلہ

مجھے جب کبھی جماعت اسلامی کے مرکزی ہیڈکوارٹر منصورہ‘ لاہور جانے کا موقع ملتا ہے تو یہ دیکھ کر نہایت خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ شاندار انتظام و انصرام اور باہمی مشاورت کے اعتبار سے اس تنظیم کا شاید ہی کوئی ثانی ہو۔ جماعت اسلامی کئی بار قوم کے سامنے اپنی معیاری دیانت و امانت اور اہلیت کا ثبوت پیش کر چکی۔ دوبار کراچی کی میئرشپ کے دو درخشاں ستاروں عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان کی اعلیٰ کارکردگی کی صورت میں۔ دو بار کے پی حکومت اپنی مثالی پرفارمنس کی شکل میں اور کئی بار قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپنی اعلیٰ قانونی و آئینی صلاحیتیں منوانے کی صورت میں؛ البتہ حیرت اس بات پر بھی ہے کہ اتنی شاندار کارکردگی اور اپنی دیانت و امانت کی عدالتوں سے لے کر ایوانوں تک داد وصول کرنے کے باوجود یہ تنظیم گزشتہ پچھتر سالوں میں عوامی سطح پر مرکزِ نگاہ کیوں نہیں بن سکی؟ اس میں جہاں عوامی تغافل کا حصہ ہے وہاں جماعت اسلامی کی مزاجی کیفیات اور اس کی ہر لحظہ بدلتی ہوئی سیاسی پالیسیوں کا بھی تعلق ہے؛ تاہم اس وقت جماعت اسلامی کی سیاست کا تجزیہ ہمارا موضوع نہیں‘ یہ پھر کبھی۔
جماعت اسلامی نے سودی نظامِ معیشت و بینکاری کے خاتمے کیلئے پاکستان میں روزِ اول سے جدوجہد شروع کردی تھی‘ مگر گزشتہ 32 برسوں کے دوران اس نے ممانعتِ سود کے لیے ایک طویل عدالتی جنگ لڑی۔ غالباً اس عدالتی جدوجہد کا آغاز اس جماعت کے عالمی سطح پر تسلیم شدہ اقتصادی سکالر پروفیسر خورشید احمد نے کیا تھا۔ اس جدوجہد کی ایک اہم ترین کامیابی کی صورت میں تکمیل امیر جماعت سراج الحق کے زمانۂ امارت میں ہوئی ہے۔ نائب امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر فرید پراچہ جماعت کی طرف سے وفاقی شرعی عدالت میں گزشتہ کئی سال پیروی کرتے رہے ہیں۔ 28 اپریل 2022ء کو فیڈرل شریعہ کورٹ کے چیف جسٹس جناب محمد نور مسکانزئی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے حرمتِ سود کے بارے میں تاریخی فیصلہ دیا۔ اس تاریخی فیصلے کی اس کی روح کے مطابق تنفیذ کیلئے جماعت اسلامی نے ایک مشاورتی سیمینار حال ہی میں منعقد کیا۔ اس اجلاس میں مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام‘ سکالرز اور بینکرز نے شرکت کی۔ شرکائے اجلاس نے مجموعی طور پر فیڈرل شریعت کورٹ کے ممانعتِ سود کے تاریخی فیصلے کی بہت تعریف و توصیف کی۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے سودی نظام کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو عوام کی امنگوں کا ترجمان قرار دیا اور قوم کو خوشخبری دی کہ ان شاء اللہ ہم علمائے کرام کے ساتھ مل کر غیرسودی معیشت کو پروان چڑھائیں گے اور قوم کو غیرسودی معیشت کی برکتوں سے آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک اور دیگر مالیاتی اداروں کے چنگل سے نجات دلائیں گے۔ ڈاکٹر فرید پراچہ نے تمام علمائے کرام اور دینی سکالرز کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ اب پاکستان اور دنیا کے دیگر بہت سے اسلامی و غیراسلامی ممالک میں غیرسودی بینکاری بہت فروغ پا رہی ہے‘ اس لیے اسلامی بینکنگ اب کوئی اجنبی شے نہیں رہی۔ سیمینار میں جب مجھے اظہارِ خیال کا موقع دیا گیا تو میں نے سودی بینکاری کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے اور اس سلسلے میں ہونے والی کوششوں اور کاوشوں کو بہت سراہا۔ احمد علی صدیقی اسلامی بینکنگ اور فنانس کا ایک مستند نام ہیں۔اُن کے حوالے سے عرض کیا کہ اسلامی بینکنگ روایتی بینکوں کی طرح سود پر رقوم قرض دینے کا ادارہ نہیں بلکہ اسلامی بینک شراکتی سرمایہ کاری‘ لیزنگ‘ شراکت و مضاربت وغیرہ کی تجارتی کارروائیاں اور نفع نقصان کی بنیاد پر انجام دیتے ہیں۔اس سلسلے میں بینکنگ پروسیجر سے واقفیت رکھنے والے بعض افراد اور تجارتی اداروں کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات علمائے کرام اور بینکر صاحبان کے سامنے پیش کیے۔ میں نے عرض کیا کہ بالعموم یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اگرچہ اسلامک بینک نفع نقصان کی بنیاد پر کھاتہ داروں کی رقوم سے سرمایہ کاری کرتے ہیں مگر وہ تقریباً اتنا ہی منافع اپنے کھاتہ داروں کو دیتے ہیں جتنا روایتی کمرشل بینک دیتے ہیں۔ کبھی یہ نہیں دیکھا گیا کہ اسلامی بینکوں نے اکائونٹ ہولڈرز کو منافع کے بجائے نقصان میں شامل کیا ہو۔ میں نے اس طرف بھی اہل ِعلم کی توجہ دلائی کہ کمرشل بینک فکسڈ منافع کی بات کرتے ہیں جبکہ اسلامی بینک متوقع منافع کی نوید سناتے ہیں۔ بالعموم کھاتہ داروں کو اتنا ہی متوقع منافع ملتا ہے۔
اس مشاورتی سیمینار میں ممتاز علمائے کرام اور بینکرز و سکالرز خواتین و حضرات شریک ہوئے۔ ان میں سے کئی علمائے کرام مختلف بینکوں کے شریعہ بورڈز کے ایڈوائزرز ہیں۔ ڈاکٹر حافظ عاطف وحید‘ مفتی زبیر عثمانی‘ پروفیسر محمد ابراہیم‘ اسداللہ بھٹو‘ ڈاکٹر سرفراز اعوان‘ ماہر معیشت مفتی محمود‘ مولانا زاہدالراشدی‘ اخوت کے چیئرمین ڈاکٹر امجد ثاقب‘ جواد ساجد بینکر‘ ڈاکٹر ناہید‘ ایڈوائزر اسلامی معیشت محترمہ صباحت رفیق اور ماہر معیشت عزیز عثمانی۔ اسلامک بینکنگ کے علمائے کرام اور اسلامی ماہرین معیشت اسلامی بینکوں کے فروغ اور کمرشل بینکوں کو بلاتاخیر اسلامک بینکنگ کی طرف لانے کے بارے میںیک زبان تھے۔ اس وقت پاکستان میں تقریباً 18 فیصد رقوم کا لین دین اسلامی بینکوں جبکہ 82 فیصد روایتی بینکوں کے ذریعے ہو رہا ہے۔ اس بارے میں علمائے کرام میں اتفاق تھا کہ مکمل طور پر اسلامی روح کے مطابق بینکنگ اس وقت ہوگی جب ملک میں سو فیصد بینکنگ سود سے پاک ہوگی۔سیمینار کے اعلامیہ میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ بینکنگ اور مالیاتی نظام کو مکمل طور پر سود سے پاک کرنے کیلئے فوری اقدامات کرے اور ضروری قانون سازی کرے۔
ماہر معیشت محترمہ صباحت رفیق پاکستانی امریکن ہیں۔ کیلیفورنیا اور کئی ممالک میں کامیاب بزنس چلا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اسلامک بینکنگ کو مروج و مقبول بنانے کیلئے ضرور جدوجہد کرنی چاہئے مگر ہمیں اس کے ساتھ ساتھ اسلامی نظام معیشت کو کلی طور پر نافذ کرنا چاہئے۔ اسلام دولت کے ارتکاز کے بجائے اس کی سرکولیشن پر زور دیتا ہے۔ سرمایہ گردش میں آتا ہے اور تجارتی کارروائیاں بڑھتی ہیں اور زیادہ سے زیادہ لوگ مستفید ہوتے ہیں۔ انہوں نے شرکائے سیمینار کی توجہ دلائی کہ اسلامک بینکنگ میں سرمایہ کاری کے منصوبوں کیلئے قرضہ انہیں دیا جاتا ہے جن کے پاس پہلے سے سرمایہ موجود ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں زیرو پرسنٹ پر قرضہ دیا جاتا ہے اور بینک نفع نقصان میں شامل ہوتے ہیں۔ صباحت رفیق نے اسلامی بینکرز سے درخواست کی کہ وہ بھی امریکن بینکوں کی طرح پہلے سے سرمایہ نہ رکھنے والوں کو نیا کاروبار کھولنے کے لیے قرضہ دیں۔ اسلامی بینکوں کو بھی اس طرف آگے بڑھنا چاہئے۔
اخوت کے چیئرمین ڈاکٹر امجد ثاقب ہمارے خاکستر کی ایک حیران کن چنگاری ہی نہیں بلکہ ہماری اندھیری شب کا وہ چراغ ہیں کہ جس نے اپنے اردگرد امیدوں کے لاکھوں دیے روشن کر دیے ہیں۔ خطاب میں بتایا کہ انہوں نے گزشتہ 20 برس کے دوران اخوت کے فورم سے 40 لاکھ گھرانوں کو 162 ارب روپے کی خطیر رقم مائیکرو قرضِ حسنہ کی صورت میں دے کر اپنے قدموں پر کھڑا کر دیا۔ بتایا کہ اگر ہم ملک کی ساری زکوٰۃ اجتماعی طور پر ہر سال اکٹھا کریں تو یہ ہمارے سالانہ بجٹ سے تین گنا زیادہ ہوگی۔ انہوں نے صدقات بینک کھولنے پر بھی زور دیا کہ جہاں سے بغیر کسی سکیورٹی کے لوگوں کو کاروبار کیلئے قرضہ اور رہنمائی دی جائے۔
اس سیمینار کے دل سے یہ صدا بلند ہوئی کہ پیدا کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں۔ اگر اس سیمینار والی سنجیدگی ہمارے مجموعی قومی مزاج کا حصہ بن جائے توچند سالوں میں بلاسود بینکاری اور بلاسود فنانسنگ کے ذریعے ملک کو خوشحالی اور خودمختاری کی منزل کی جانب رواں دواں کر سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں