مریم نواز کی سیاست

سیاست اور خطابت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ حسنِ بیان عطیۂ خداوندی ہے۔ اچھا کہنا فن ہے‘ کیسا کہنا ہنر ہے‘ کب کہنا اور حسبِ موقع کہنا دانش ہے‘ اور بات کو کہاں ختم کرنا ہے یہ کمالِ خطابت ہے۔ ایک کامیاب خطیب وہ ہوتا ہے کہ وہ مجمع کو اپنی مٹھی میں بند کر لے۔ کہیں استدلال کی شبنم‘ کہیں جذبات کی تپش‘ کہیں احساسات کی ٹھنڈک‘ کہیں آبِ رواں کی سی روانی‘ کہیں تلاطم خیز موجوں کی طغیانی‘ کہیں الفاظ کی ندرت‘ کہیں معانی کی قدرت‘ کہیں لہجے کی حلاوت‘ کہیں آواز کا زیروبم اور کہیں اشعار کا برمحل استعمال۔
سید عطاء اللہ شاہ بخاری سے لے کر آغا شورش کاشمیری تک اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سے لے کر نوابزادہ نصراللہ خان تک ہماری سیاسی خطابت میں یہی اوصافِ حمیدہ بدرجہ اتم موجود تھے۔ اب مولانا فضل الرحمن اس طرزِ خطابت کی آخری نشانی کے طور پر اپنی تقریر کو منطق و استدلال کے ترازو میں تول کر سامعین کے دلوں پر دستک دیتے ہیں۔ قارئین کرام! کوچۂ سیاست سے یہ طرزِ تقریر رخصت ہو چکی ہے۔ دل میں ترازو ہو جانے والے جملوں اور اشعار سے مزین خطابت اب ایک خواب و خیال کے علاوہ کچھ نہیں۔
مریم نواز نے خارزارِ سیاست میں 2017ء میں قدم رکھا۔ اس سے پہلے وہ 2012ء سے اپنی جماعت کی طرف سے مقرر کردہ بعض سیاسی و فلاحی کاموں کی نگران کے طور پر فرائض انجام دیتی رہیں۔ 2017ء میں جب ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے میاں نواز شریف کو انتخابی سیاست سے باہر آنا پڑا اور پھر کچھ ہی عرصے کے بعد شریف فیملی کے اکثر مرد سیاست دانوں کو پسِ دیوارِ زنداں جانا پڑا تو مریم نواز نے عملی سیاست کا محاذ سنبھال لیا۔ مریم بی بی ہماری سیاسی تاریخ کے اس قدیم طرزِ خطابت سے تو شاید آشنا بھی نہیں ہوں گی؛ تاہم اپنے سیاسی اتالیق کی مدد سے تھوڑے ہی عرصے میں مروجہ گھن گرج والی پرجوش تقاریر کے فن میں خاصی طاق ہو گئیں۔
ایک کامیاب سیاستدان کی عالمی و پاکستانی تاریخ سے شناسائی و آگاہی بھی بہت ضروری ہے۔ تاہم مریم بی بی کو غالباً ادراک نہیں کہ سیاست محض حریف کو للکارنے‘ اسے سبق سکھانے اور اسے اکھاڑے سے اٹھا کر باہر پھینکنے کا نام نہیں۔ سیاست دان کی نظر جہاں شب وروز بدلتے ہوئے ملکی حالات پر ہونی چاہئے وہاں اس کی نظر سے عالمی منظرنامہ بھی اوجھل نہیں ہونا چاہئے۔ اس کے علاوہ نئے سیاست دان کو اچھی طرح معلوم ہونا چاہئے کہ اس کی اپنی جماعت کا ملکی معاملات کے بارے میں کیا نقطۂ نظر ہے۔ سیاست دان کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ اس کا ملکی آئین سیاست کے لیے کیا کیا حدودو قیود مقرر کرتا ہے۔ شعلہ بیانی ایک دو دھاری تلوار ہے۔ اس کا استعمال بے حد احتیاط کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ اس ضمن میں ذرا سی بھی بے احتیاطی سیاسی مقرر اور اس کی جماعت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہے۔
28 مئی کی شب کو بہاولپور میں جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ ''سپریم کورٹ کو فتنہ باز سے دور رہنا ہوگا۔ عدالتوں کو غیرجانبدار رہنا چاہئے۔ کیا عدالتوں کا کام یہ رہ گیا ہے کہ جہاں عمران خان ناکام ہوں وہاں مدد کے لیے آئیں‘‘۔ مریم نواز عدالت عظمیٰ سے جس انداز سے مخاطب ہوئیں اس پر ارتجالاً یہی کہا جا سکتا ہے کہ
تمہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
مریم بی بی کو معلوم ہونا چاہئے کہ اگر عدالتیں غیرجانبدار ہو جائیں تو پھر فیصلہ بزورِ شمشیر ہوتا ہے۔ کیا مسلم لیگ (ن) کو عدالت عظمیٰ کی یہ غیرجانبداری قبول ہے؟ اس سے پہلے عمران خان بھی اسی طرح کے اندازِ تخاطب سے کام لیتے ہوئے عدالت عظمیٰ کو اُن کے خلاف امریکی سازش کا حصہ قرار دے چکے ہیں۔ کیا محترمہ مریم نواز کی سیاست کا مرکزو محور محض عمران خان کے نہلے پہ دہلا مارنے تک محدود ہو چکا ہے۔ جہاں تک کسی بھی عدالت کا تعلق ہے اس کا قولاً‘ فعلاً اور عملاً احترام ہونا چاہئے۔ کسی بھی ملک میں عدالتوں کے بغیر انصاف و استحکام کا وجود ناممکنات میں سے ہے۔ ادھر عمران خان ایک بار پھر سپریم کورٹ میں جانے اور احتجاج کے لیے تحفظ طلب کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اب عدلیہ کا امتحان ہے کہ وہ کیا فیصلہ دیتی ہے۔
بہاولپور کے ہی جلسے میں مریم نواز نے جوشِ خطابت میں یہ کہا کہ ہم عمران خان کی طرح ''مذہبی کارڈ‘‘ استعمال نہیں کرتے۔ مریم بی بی کو معلوم ہونا چاہئے کہ ''مذہبی کارڈ‘‘ کی اصطلاح وہ سیکولر جماعتیں استعمال کرتی ہیں جو سیاست میں کسی مذہبی و دینی تعلیمات اور اُن کے نفاذ پر یقین نہیں رکھتیں۔ پاکستان کی کوئی بھی سیاسی جماعت آئینی طور پر مذہبی لاتعلقی کا اعلان نہیں کر سکتی۔ دستورِ پاکستان کے مطابق مذہب کے بغیر سیاست نہیں۔ مریم نواز کو یہ کہنا چاہئے تھا کہ اُن کی جماعت مذہبی رہنمائی پر دل و جان سے یقین رکھتی ہے لیکن وہ محض سیاسی فائدے اور دکھاوے کے لیے مذہبی اصطلاحات کے استعمال کو درست نہیں سمجھتی۔ خطابت میں چوائس آف ورڈز کی بیحد اہمیت ہوتی ہے۔ مریم نواز کو یقینا یہ ادراک بھی ہوگا کہ مسلم لیگ (ن) ایک ایسی سیاسی جماعت سمجھی جاتی ہے جو نفاذِ شریعت پر یقین رکھتی ہے۔
ایک طرف عمران خان کہتے ہیں کہ پچھلی مرتبہ ہم سے کچھ کوتاہی ہوئی اور ہمارے کارکنان بروقت تیاری نہیں کر سکے مگر اس بار ہم پوری تیاری کے ساتھ آئیں گے اور اسلام آباد میں دھرنا دیں گے۔ دوسری طرف وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ اس بار ہم زیادہ مؤثر کارروائی کریں گے اور اسلام آباد میں کسی کو پَر مارنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ان دوطرفہ دھمکیوں کا آزادانہ استعمال کرتے ہوئے کسی فریق کو یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ سڑکیں اور شہروں کے داخلی و خارجی راستے عام شہریوں کے لیے بند کرنے کا حق نہ حزبِ اقتدار کے پاس ہے نہ حزبِ اختلاف کے پاس ہے۔ کیا رانا ثناء اللہ اور عمران خان کو معلوم ہے کہ 25 مئی کے روز سینکڑوں مریض دوسرے شہروں کے ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے پاس مہینوں اور ہفتوں پہلے سے دی ہوئی مقررہ تاریخ پر نہیں پہنچ پائے۔
کئی جاں بلب مریضوں کی ایمبولینسز کو گھنٹوں ناکوں پر روک لیا گیا۔ سینکڑوں مسافر اپنی پروازوں کو پکڑنے سے محروم رہ گئے۔ بہت سے اپنے ویزوں کی مدت کے ختم ہونے کی بنا پر ناقابلِ بیان مشکلات کا شکار ہو گئے۔ اسی طرح بے شمار طلبہ و طالبات بروقت امتحان گاہوں میں نہیں پہنچ پائے اور یوں اُن کو ناقابلِ تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سے لوگوں کو کئی کئی ماہ کے انتظار کے بعد جس مقررہ تاریخ پر انٹرویو کے لیے پہنچنا تھا وہ سڑکوں کی بندش کی بنا پر نہیں پہنچ پائے۔ عوام الناس کی اذیت اور اتنے بڑے قومی نقصان کا ذمہ دار کون ہے؟
سپریم کورٹ سے ایک مطالبہ مریم نواز کر رہی ہیں‘ ایک مطالبہ عمران خان کر رہے ہیں اور ایک فریاد عامۃ الناس کی بھی ہے۔ عوام کا مطالبہ یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ ہر طرح کے حالات میں شہریوں کی آزادانہ آمدورفت کو یقینی بنائے۔ یقینا مریم نواز کے سامنے بھی کئی اور آسماں ہوں گے۔
بینظیر بھٹو اور نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کی مثالیں بھی اُن کی نگاہ میں ہوں گی۔ مریم بی بی کو دھمکیوں اور بڑھکوں والی پامال سیاست کو یکسر خیرباد کہہ کر ایک ایسا سیاسی ماڈل قوم کے سامنے پیش کرنا چاہئے کہ جس میں عوامی فلاح و بہبود کو اوّلیت حاصل ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں