عوام کا کوئی پرسانِ حال نہیں

عوام ہر آنے والی حکومت کے ساتھ بہت سی سنہری توقعات وابستہ کرلیتے ہیں۔ میاں نواز شریف نے کچھ عرصہ پہلے کہا تھا کہ عمران خان کی حکومت رات کی تاریکی میں پٹرول کی قیمتیں بڑھا دیتی ہے۔ اب میاں صاحب کی حکومت نے بھی وہی کچھ کیا اور تیسری مرتبہ مفتاح اسماعیل نے مشینی انداز میں آئی ایم ایف کا نمائندہ بن کر آدھی رات کو پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ناقابل ِبرداشت اضافہ کر دیا ہے۔ مریم نواز جلسوں میں برملا اعلان کرتی تھیں کہ میاں نواز شریف فرماتے ہیں کہ انہیں ایسی حکومت نہیں چاہئے جو عوام کے دکھوں میں کمی لانے کے بجائے ان میں اضافے کا باعث ہو۔ مگر اب عوام کو کوئی نہیں پوچھتا۔
اس حکومت کے لانے میں جس کا جتنا ہاتھ ہے لوگ اسے اس ابتر معاشی صورت حال کا اتنا ہی ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے برسراقتدار آکر 20 دنوں میں تین بار پٹرول کی قیمت بڑھائی اور کوئی دوچار روپے فی لٹر کے حساب سے نہیں بلکہ تیس تیس روپے دوبار بڑھائے گئے اور اب 24 روپے فی لٹر بڑھائے گئے ہیں۔ یوں پٹرول تقریباً 234 روپے فی لٹر اور ڈیزل کی قیمت میں اکٹھا ہی 59.16 روپے فی لٹر کا اضافہ کیا گیا ہے جس سے ڈیزل کی قیمت 263.31 روپے فی لٹر ہوگئی ہے۔ ان اضافوں سے مہنگائی کا خوفناک طوفان برپا ہوچکا ہے مگر وزیروں مشیروں کو کوئی پروا نہیں۔ حکومتی زعماء کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ وہ ماہرانہ غوروفکر سے کام لیں اور بلاسوچے سمجھے سارے کا سارا بوجھ بیچارے ادھ موئے عوام پر نہ لاد یں۔ بہت سے معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت پٹرول پر سبسڈی ختم کرنے کے بجائے بڑی بڑی کارپوریشنوں اور فیکٹریوں کو دی جانے والی سبسڈی ختم کر دیتی تو مہنگائی کے اس سونامی سے بچا جا سکتا تھا۔
ہمارے وزیراعظم شہباز شریف شعلہ بیانی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ وہ اگر عوام کو اپنے پیٹ پر ایک پتھر باندھنے کا کہہ رہے ہیں تو انہیں بتانا چاہیے تھا کہ انہوں نے اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھ رکھے ہیں۔ 22 کروڑ کی آبادی میں سے کم از کم 15کروڑ ایسے ہیں کہ جنہیں دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ 15 ہزار روپے سے لے کر 40 ہزار روپے ماہانہ آمدنی والا کیسے زندہ ہے‘ اس کے بارے میں وزیروں مشیروں کو کوئی پروا نہیں۔ جب سیمنٹ سریا کی قیمتیں عوام کیا خواص کی پہنچ سے باہر ہو جائیں گی‘ جب دیگر تعمیراتی سامان اور سپین کی نہیں چین اور پاکستان کی ٹائلز بھی ہر پاکستانی کی قوتِ خرید سے باہر ہو جائیں گی‘ جب تعمیراتی سرگرمیاں رُک جائیں گی تو مزدور اور مستری کو روزگار کہاں سے ملے گا؟ جب روزگار نہیں ملے گا تو وہ کھائیں گے کہاں سے؟
پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ناقابلِ برداشت اضافے کے بعد اب بجلی کی قیمت میں بھی بڑا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس حکومت نے آنے سے پہلے روپے کی گرتی ہوئی اور ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت پر بڑے اعتراضات اٹھائے تھے مگر اب ڈالر پہلی بار 208 روپے کی بلند ترین سطح پر جا پہنچا ہے۔ اس کا نتیجہ کیا ہو گا کہ ہماری ناگزیر درآمدات جن میں تیل‘ ادویات‘ کیمیائی مواد وغیرہ بہت سی چیزیں شامل ہیں اُن کی قیمتیں بہت بلند ہو جائیں گی۔ اسی طرح بہت سی برآمدات کی تیاری میں استعمال ہونے والے درآمدی سامان کے بلندوبالا نرخوں کی بنا پر اُن کی لاگت بڑھ جائے گی اور اُن کی قیمت بڑھنے سے ڈیمانڈ کم ہو جائے گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ روس یوکرین جنگ اور دیگر عالمی وجوہات کی بنا پر مہنگائی کی ایک گلوبل لہر نے تقریباً مشرق و مغرب کے ہر ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ امریکہ میں مہنگائی نے 40 سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ یہی حال دیگر یورپی ممالک کا ہے مگر ان ملکوں کے پاس ریزرو میں بہت کچھ ہے لہٰذا وہ اپنے لوگوں اور اپنی معیشتوں کی بھرپور مدد کر رہے ہیں۔ امریکہ کے فیڈرل ریزرو‘ جو کہ ہمارے سٹیٹ بینک کی طرح کا مالیاتی ادارہ ہے‘ نے بدھ کے روز ایک بڑا قدم اٹھا کر گرتی ہوئی معیشت اور مہنگائی کو سنبھالا دیا ہے مگر کچھ دن پہلے یہاں ہمارے مالیاتی توشہ خانے میں کل دس بلین ڈالر بچے تھے جن میں سے ہم نے درآمدی بل بھی ادا کرنا تھا۔ خدا جانے اب تازہ ترین صورت حال کیا ہے۔
معاشی واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ عوام کو حوصلہ دیں‘ یہ تو ابتدائے عشق ہے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ اللہ خیر کرے جو ہونے والا ہے کیا وہ اس سے بھی بہت زیادہ ہولناک ہو گا؟
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور!
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی روپے کی قیمت اور گرے گی جس کے نتیجے میں پٹرول‘ ڈیزل‘ پام آئل اور گندم وغیرہ کی قیمتیں اور بڑھیں گی۔ جیسا کہ اوپر ہم نے وضاحت کی ہے کہ اس صورت حال میں ہماری ٹیکسٹائل‘ لیدر اور کھیلوں کے سامان وغیرہ کی بیرونی طلب میں کمی واقع ہو جائے گی۔
موجودہ حکومت عوام الناس کو ابھی تک یہ سمجھانے سے قاصر رہی ہے کہ دگرگوں حالات میں عمران خان کو دھکا دے کر انہوں نے حکومتی گاڑی کا سٹیئرنگ کیوں سنبھال لیا؟ عمران خان کا ہٹایا جانا کیوں ناگزیر ہو چکا تھا؟ اس کا حکومتی افسانے میں کہیں ذکر نہیں۔ عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کل کی اپوزیشن نے معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے شدید عوامی ردعمل کا اتنا بڑارسک کیوں لیا؟
عام آدمی کا مشاہدہ اور بیانیہ بڑا دلچسپ ہوتا ہے۔ عوام کی بہت بڑی تعداد کا کہنا یہ ہے کہ موجودہ سیاسی زعماء کی آمد کا بنیادی مقصد اپنے بیٹوں کو سیٹ کروانا تھا۔ وزیراعظم صاحب نے اپنے صاحبزادے حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ‘ آصف علی زرداری صاحب نے اپنے برخوردار کو وزیر خارجہ اور مولانا فضل الرحمن صاحب نے اپنے خلف الرشید کو وفاقی وزیر مواصلات بنوا لیا ہے۔
یہ تو آنے والے ہی جانتے ہیں کہ وہ خود آئے ہیں یا لائے گئے ہیں۔ تاہم عوام سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے لانے میں میڈیا والوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ ہمارے قارئین کی ایک بڑی تعداد موجودہ حکومت کی آمد کی ذمہ داری حصہ بقدر جثہ ہم پر بھی ڈالتی ہے۔ یہ قارئین ہمیں روپے میں سے اِکنّی دونّی کا بہرحال ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
اگرچہ سارے موجودہ حکمرانوں کے ساتھ ہماری جان پہچان یا دعا سلام ہے تاہم ان زعماء میں سے مولانا فضل الرحمن سے ہماری نیاز مندی کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔ مولانا سے ہمیں خاص تعلقِ خاطر ہے اور یہ تعلقِ خاطر یک طرفہ نہیں دوطرفہ ہے۔ گزشتہ ایک برس سے بطورِ خاص مولانا کے ساتھ بالمشافہ اور ٹیلی فون پر رابطہ رہا ہے۔ میں مولانا کی سیاست کا بہت بڑا مداح ہوں۔ انہیں جلسوں سے خطاب پر پورا عبور حاصل ہے۔ جب سے چیف معاشی سرجن مفتاح اسماعیل نے معیشت کی سرجری کرنا شروع کی ہے تب سے عوام کی چیخیں ساتویں آسمان تک پہنچ رہی ہیں۔ مگر میرے قارئین پوچھتے ہیں کہ تمہارے ممدوح مولانا فضل الرحمن کہاں ہیں؟
میں نے قارئین سے عرض کیا ہے کہ جہاں تک وزیراعظم اور آصف علی زرداری کا تعلق ہے تو اُن سے رابطہ تو میڈیا کی بزرگ ہستیاں ہی قائم کریں گی۔ جہاں تک مولانا کا تعلق ہے تو وہ جہاں کہیں بھی ہوئے میں رابطہ قائم کر کے اُن سے عرض کروں گا کہ کیا آپ نے عوام کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا ہے؟ کیا عوام کا کوئی پرسانِ حال نہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں