ضمنی انتخابات‘ ہم نے کیا سیکھا

ضمنی انتخابات کے حیران کن نتائج کا سب سے پہلا سبق تو یہ ہے کہ ہم جمہوریت میں ایک قدم آگے بڑھے ہیں۔ اس الیکشن کی 20میں سے 15 نشستیں پی ٹی آئی کواور چار مسلم لیگ (ن) کو حاصل ہوئی ہیں جبکہ ایک آزاد امیدوار جیتا ہے۔ دوسرا مثبت سبق یہ ہے کہ مریم نواز نے خوشدلی کے ساتھ تحریک انصاف کی کامیابی کو تسلیم کیا اور یہ کہا کہ انتخابات میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے‘ ہمیں دل بڑا کرنا چاہیے اور اپنی خامیوں کی نشاندہی کرکے ان کی اصلاح کرنی چاہیے۔ میرا اندازہ یہ تھا کہ عمران خان حقیقت پسندی اور اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ پر لگائے گئے الزامات کے بارے میں اظہارِ ندامت کریں گے‘ معذرت کرتے ہوئے صاف شفاف انتخابات پر ان کی تعریف کریں گے مگر خان صاحب نے ایسا کوئی تکلف نہیں کیا۔ مجھ سے جب بھی قارئین و ناظرین چیف الیکشن کمشنر کے بارے میں پوچھتے تو میرا دو ٹوک جواب ہوتا کہ وہ بالکل فیئر الیکشن کروائیں گے‘ اس جواب کی بنیاد قرب مکانی ہے۔ میرا آبائی شہرہ بھیرہ ہے اور راجہ صاحب کا تعلق میانی سے ہے جو اس تاریخی شہر سے متصل ہے۔ گویا ایک طرح سے بھیرہ کا ایک محلہ ہے یہاں ہمارے علاقے میں راجہ خاندان کی بالعموم اور سکندر سلطان راجہ کی اصول پسندی بالخصوص ضرب المثل ہے۔
ضمنی انتخابات کا تیسرا سبق یہ ہے کہ پنجاب کے لوگوں نے خاندانی سیاست کے خلاف ووٹ دے کر جمہوریت کو سربلند کیا ہے۔ باپ بیٹے کی حکومتوں کو انہوں نے مسترد کر دیا ہے۔اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ وہ کیا فیکٹر تھا کہ جس کی بنیاد پر پنجاب‘ جو مسلم لیگ (ن) کا گھر اور لاہور جو اس کا گڑھ سمجھا جاتا تھا‘ میں اسے ناقابلِ یقین شکست کا سامنا کرنا پڑا؟ بڑے بڑے کالم نگاورں اور تجزیہ کاروں کا شروع میں یہ کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو کسی صورت بھی پانچ یا چھ سیٹوں سے زیادہ نہیں مل سکیں گی۔ ایسا کیا ہوا کہ برج اُلٹ گئے؟ انتخاب کی صبح کو لاہور کی سیٹوں کے مختلف پولنگ سٹیشنوں پر کئی ٹیلی وژن چینلز کی جائزہ ٹیموں کے اینکرز کا کہنا تھا کہ یہاں مسلم لیگ (ن) کی تین سیٹوں پرکامیابی یقینی ہے اور تحریک انصاف بمشکل ایک سیٹ نکال پائے گی۔ مگر ہوا اس کے برعکس۔ مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی باک نہیں کہ میرا اندازہ اور تجزیہ تھا کہ مسلم لیگ (ن) کو دس سے اوپر اور تحریک انصاف کو دس سے کم سیٹیں ملیں گی؛ تاہم انتخابی نتائج نے سارے اندازے غلط ثابت کر دیے۔ تحریک انصاف کی حیران کن کامیابی کا راز کیا ہے؟ بعض لوگوں کی رائے میں پی ڈی ایم کی حکومت آنے کے بعد عوام کو جس کمر توڑ مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا وہ اِس انتخابی شکست کا بنیادی سبب بنا۔ بعض کے خیال میں میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف کی ناقص کارکردگی کی بنا پر مسلم لیگ (ن) کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ ایک تجزیہ یہ بھی ہے کہ مریم نواز کے انتخابی بیانیے کو پنجاب کے عوام نے شرفِ پذیرائی نہیں بخشا۔
ان سب تجزیوں میں جزوی صداقت تو موجود ہے کہ مگر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ تحریک انصاف کی ناقابلِ تصور کامیابی کا سہرا عمران خان کی کرشماتی شخصیت اور طوفانی انتخابی مہم کے سر بندھتا ہے۔ عمران خان کا بیانیہ درست تھا یا غلط‘ وہ حق تھا یا ناحق اور وہ سچ تھا یا جھوٹ مگر ووٹروں نے عمران خان کے ہر انتخابی جلسے میں جوق در جوق شمولیت کر کے اس بیانیے پر مہرِ تصدیق ثبت کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کے خلاف تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے مسلم لیگ (ن) کی حمایت کی مگر اس سلسلے میں جس طرح تمام اتحادی جماعتوں کی طرف سے بھرپور انتخابی مہم چلائی جانی چاہیے تھی وہ دیکھنے میں نہیں آئی۔
ملتان میں شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی کو شکست دینے کے لیے پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر وہ ملتان میں عمران خان کی انتخابی مہم کو ناکامی سے دوچار کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ یوں شاہ محمود قریشی کے دلِ بے قرار کو اپنے نورِ نظر کی کامیابی سے قرار آ گیا۔ 2018ء کے انتخاب میں شاہ محمود قریشی اسی حلقے سے بنفسِ نفیس پنجاب اسمبلی کی سیٹ کے لیے اکھاڑے میں اترے تھے مگر کامیابی ان کا مقدر نہ بن سکی۔ انہوں نے کئی بار یہ بیان دیا کہ خود تحریک انصاف پس پردہ ان کی شکست کی ذمہ داری تھی۔ بہرحال اب شاہ صاحب کا یہ الزامی بیانیہ سچ ثابت ہو گیا ہے۔ بھکر میں سعید نوانی جیسے سکہ بند سیاست دان اور بہار و خزاں میں کامیابی سے ہمکنار ہونے والے (ن) لیگی امیدوار کی شکست حیران کن ہے۔نوانی صاحب اس حلقے سے ایک بار نہیں‘ مسلسل سات بار الیکشن جیت چکے تھے۔ لیہ میں بھی تحریک انصاف کا جادو سر چڑھ کر بولا۔ ڈی جی خان میں کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ سیف الدین کھوسہ (ن) لیگی امیدوار عبدالقادر کھوسہ سے تقریباً دو گنا ووٹ لے جائیں گے۔
مسلم لیگ (ن) نے اکثر سیٹوں پر منحرفین کے متعلقین کو اکاموڈیٹ کیا اور اپنی پارٹی کے معروف امیدواروں کو نظر انداز کیا تھا۔ ''لوٹوں‘‘ کے خلاف عمران خان کا بیانیہ ہر شے کو بہا کر لے گیا۔ اب شاید مسلم لیگ (ن) نظر ثانی کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے گی کہ میاں نواز شریف کا ابتدائی مؤقف درست تھا کہ ان کی جماعت کو معیشت کے اس مشکل مرحلے پر حکومت قبول نہیں کرنی چاہیے اور قبل از وقت یا 2023ء کے اگلے عام انتخابات کے لیے طے شدہ وقت کا انتظار کرنا چاہیے۔ (ن) لیگی قائدین و کارکنان کا کہنا ہے کہ ہم نے ڈگمگاتی معیشت کا پھندا تحریک انصاف کے گلے سے اتار کر اپنے گلے میں ڈال لیا‘ یہ دانشمندی تھی نہ دور اندیشی۔
پنجاب حکومت تحریک انصاف کے پاس جانے کے بعد اب وفاقی حکومت کا فعال رہنا بھی محال نظر آ رہا ہے۔ مرکزی حکومت جس طرح دوچار مانگے تانگے کے تنکوں پر کھڑی ہے‘ اسے گرانے کے لیے بادِ صرصری نہیں بادِ صبا کا بھی کوئی مخالفانہ جھونکا فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیے اب وزیراعظم شہباز شریف کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا۔ لندن سے قربت رکھنے والے بعض (ن) لیگی حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی پی ٹی آئی کے اِن چودہ پندرہ اراکینِ قومی اسمبلی کے استعفے قبول کر لیں گے جنہوں نے عوامی سطح پر یا میڈیا کے سامنے اپنے استعفوں کا اقرار کیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کو اگلے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے نہایت دقتِ نظر کے ساتھ اپنی پارٹی کی خامیوں کا جائزہ لینا ہو گا۔ پارٹی کے اندر جو غیر علانیہ گروپنگ یا ناراض عناصرہیں ان کی ناراضی کو دور کرنا ہوگا۔ نیوٹرلز نے اپنی غیرجانبداری کو ثابت کر دیا ہے‘ سابقہ ادوار کے برعکس اس بار کوئی اُن کا منظور نظر نہ تھا۔ اب تمام سیاسی جماعتوں بشمول پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم سب کو نیوٹرل کلچر کی دل و جان سے پذیرائی کرنی چاہیے۔ پارٹیوں کو اس سلسلے میں تبصرے کرتے ہوئے احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اِس بحث میں جائے بغیر کہ 2018ء کے انتخابات میں عمران خان کی کامیابی میں ان کی کرشمہ سازی کا کتنا تعلق تھا اور غیبی امداد کا کتنا حصہ تھا۔ بہرحال ان ضمنی انتخابات میں خان صاحب ایک مسلمہ مقبول لیڈر بن کرسامنے آئے ہیں۔ خان صاحب کو اپنی کرشماتی شخصیت اور مقبولیت وقتی اور لمحاتی کامیابیوں کے بجائے پاکستان کے بنیادی معاشی‘ تعلیمی اور سماجی مسائل کو حل کرنے کے لیے استعمال کرنی چاہیے۔
آخری سبق یہ کہ مسلم لیگ (ن) کی ناکامی سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ اگلے عام انتخابات کی انتخابی مہم کو صرف مریم نواز پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس کے لیے میاں نواز شریف کو خود آنا پڑے گا۔ کیا میاں صاحب پاکستان آنے کے لیے آمادہ ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں