پاکیٔ داماں کی حکایت

دعویٰ جتنا بڑا ہو اس کا ثبوت بھی اتنا ہی بڑا ہونا چاہیے۔ عمران خان نے اپنی سیاست کی بنیاد ہی دیانت و امانت پر رکھی۔ اُن کا دعویٰ تھا کہ وہ سچے اور کھرے انسان ہیں اور باقی دونوں بڑی پارٹیوں کے حکمران و سیاست دان جھوٹے اور کرپٹ ہیں۔ انہوں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے صادق و امین کی سند بھی حاصل کر لی تھی۔ جسٹس موصوف نے ایک معمولی عذر کی بنا پر اس وقت تک کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف کو نہ صرف کوچۂ سیاست سے نکال باہر کیا بلکہ انہیں تاحیات نااہل بھی قرار دے دیا۔ گزشتہ دس پندرہ برس سے عمران خان کا طریقہ یہ ہے کہ اگر کسی ریاستی و سیاسی ادارے سے انہیں کوئی فیور ملتی تو اُن کے گُن گانے لگتے اور اگر اُن کی طرف سے کوئی فیصلہ یا کمنٹ پی ٹی آئی کے خلاف آتا تو خان صاحب فوراً اپنے تیور بدل لیتے اور انتہائی واجب الاحترام اداروں کو تنقید و تشنیع کا نشانہ بناتے۔ فنڈنگ کیس میں پی ٹی آئی کی کمزوری اور چیف الیکشن کمشنر کی مضبوطی کے پیشِ نظر گزشتہ کئی ماہ سے عمران خان الیکشن کمیشن کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کر رہے تھے۔ خان صاحب اپنے سیاسی مخالفین اور اداروں پر شدید تنقید کرتے ہیں تاکہ وہ بیک فٹ پر چلے جائیں۔
الیکشن کمیشن کے 68 صفحات پر مشتمل فیصلے کے مطابق تحریکِ انصاف نے جانتے بوجھتے غیرملکی افراد اور انٹرنیشنل کمپنیوں سے فنڈنگ حاصل کی جس کی آئینِ پاکستان میں ممانعت ہے۔ تحریک انصاف نے 34 غیرملکی اشخاص اور 351 انٹرنیشنل کمپنیوں سے فنڈز لیے۔ کمیشن کے فیصلے کی جو شق عمران خان کی شخصیت اور تحریکِ انصاف کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے وہ یہ ہے کہ مسلسل پانچ برس تک چیئرمین پی ٹی آئی فارم ون میں ایسے بیانِ حلفی پر دستخط کرتے رہے جس میں درج ہوتا کہ پارٹی نے کہیں سے فارن یا ممنوعہ فنڈنگ نہیں لی۔ 29 جولائی کو سائمن کلارک کی فنانشنل ٹائمز میں شائع ہونے والی رپورٹ کے خلاف عمران خان نے کوئی بیان دیا اور نہ ہی اخبار کے خلاف لندن کی عدالت میں مقدمہ دائر کرنے کا کوئی ارادہ ظاہر کیا۔ عالمی بزنس کمیونٹی میں ایک فراڈ کی شہرت رکھنے والے عارف نقوی عمران خان کے دوست تھے۔ اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ عارف نقوی کے ذریعے خیراتی اداروں کے نام پر لیے گئے پیسے پی ٹی آئی کی سیاسی مہمات کے لیے خرچ کیے جاتے تھے۔ عمران خان کے دورِ اقتدار میں بشیر میمن ڈی جی ایف آئی اے تھے۔ مبینہ طور پر انہوں نے ایک تفتیش میں عارف نقوی کے ذمہ سوئی ناردرن کی واجب الادا رقم 87 ارب روپے کا کھوج لگا لیا تھا جسے عارف نقوی نے تسلیم بھی کر لیا تھا کہ ان کے ذمہ یہ ادائیگی بنتی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس موقع پر سابق وزیراعظم نے ڈی جی بشیر میمن کو بلایا‘ میمن صاحب کہتے ہیں کہ وہ خوش تھے کہ شاید اتنی بڑی ریکوری پر وزیراعظم انہیں شاباش دیں گے مگر ہوا اس کے برعکس۔ خان صاحب اُن سے بہت برہم ہوئے۔ انہوں نے ڈی جی سے کہا: تم عارف نقوی کو کیوں تنگ کر رہے ہو؟ میمن صاحب نے کہا کہ جناب پیسے عارف نقوی نے ادا کرنے ہیں‘ رقم واپس حکومت کے ادارے سوئی ناردرن کو ملنی ہے۔ خان صاحب نے جواب دیا: تمہیں معلوم نہیں وہ میرا دوست ہے۔ اور وہ پی ٹی آئی کے لیے فنڈنگ بھی کرتا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ تحریکِ انصاف کے لیے بالواسطہ فنڈنگ کے علاوہ عارف نقوی نے براہِ راست تحریک انصاف کو 2.1 ملین ڈالرز کی ایک رقم بھی ادا کی۔
ممنوعہ فارن فنڈنگ کی کہانی اور عارف نقوی کے بارے میں عمران خان کے جذبات کو ذہن میں رکھیے اور اب ذرا اس حدیث پاک کی گونج بھی سنیے جو خان صاحب گزشتہ کئی برس سے تسلسل کے ساتھ بیان کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ''اے لوگو! تم سے پہلی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ جب کوئی بڑا آدمی جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی معمولی شخص اسی جرم کا ارتکاب کرتا تو اسے سزا دے دی جاتی۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا‘‘۔
خان صاحب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ سیاسی مخالفین پر مقدمات قائم کرواتے رہے ہیں۔ اپنی پارٹی کے لوگوں کو چھوٹے بڑے مقدمات سے بچاتے رہے ہیں۔ بغیر تحقیق لوگوں پر بڑی بڑی تہمتیں لگاتے رہے ہیں اور پھر ریاست مدینہ کا علی الاعلان نام لیتے رہے ہیں۔ ریاستِ مدینہ کا کوئی حاکم تو دور کی بات کیا کوئی ادنیٰ سا شہری بھی خان صاحب جیسا رویہ اختیار کر سکتا ہے؟ خان صاحب کے دورِ اقتدار میں قدم قدم پر اُن کے قول و فعل کا تضاد سامنے آتا رہا۔ خان صاحب کی جرأتِ اظہار ملاحظہ کیجیے کہ وہ اس تضاد کے بارے فخریہ کہتے رہے کہ یوٹرن تو ایک بڑے لیڈر کی شان سمجھا جاتا ہے۔
اس فیصلے کے خان صاحب اور تحریکِ انصاف پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟ الیکشن کمیشن نے آٹھ سالہ تحقیق و تفتیش کے بعد نتائج قوم اور حکومت کے سامنے پیش کر دیے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے یہ بھی کہا کہ قانون کے مطابق پارٹی کو ملنے والے غیرقانونی فنڈز کیوں نہ ضبط کر لیے جائیں۔ اب ان ہوش ربا انکشافات کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور قوم کیا ایکشن لیتی ہے۔ حکومت نے عمران خان کی نااہلی کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور جمعرات کے روز کابینہ نے متفقہ طور پر ڈی جی ایف آئی اے کو الیکشن کمیشن کا فیصلہ ارسال کر دیا ہے تاکہ وہ اس بارے اپنی تفتیش مکمل کریں اور اس کے نتائج سے حکومت کو آگاہ کریں۔
عمران خان نے اداروں پر تنقید کرنے کی پالیسی جاری رکھتے ہوئے جمعرات کی شب ایف نائن پارک میں جمع ہونے والے لوگوں سے بنی گالا میں بیٹھ کر خطاب کیا اور چیف الیکشن کمشنر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ اگرچہ الیکشن کمیشن نے عمران خان اور تحریک انصاف کو جاری کردہ نوٹس میں صرف اتنا کہا ہے کہ آپ کے غیرقانونی فنڈز کیوں نہ ضبط کر لیے جائیں؛ تاہم اس فیصلے نے چیئرمین تحریک انصاف اور پارٹی کے خلاف کئی مقدمات قائم کرنے کے دروازے کھول دیے ہیں۔ اگر خان صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں اپنی خواہش کے مطابق‘ اعلیٰ عدالتوں سے ریلیف مل جائے گا تو غالباً یہ اُن کی بھول ہو گی۔ اکبر ایس بابر کی فارن فنڈنگ کے خلاف الیکشن کمیشن میں آٹھ سالہ جدوجہد قابلِ داد ہے۔ اس دوران وہ ہر طرح کے خطرات و خدشات کے سامنے سینہ سپر رہے۔
خان صاحب سیاسی میدان میں نہیں اگر عدالتی و قانونی محاذ پر اپنا مقدمہ سنجیدگی سے لڑیں گے تو ان کے لیے شاید ریلیف کی صورت نکل سکے۔ عدالتوں میں انہیں جذبات سے نہیں منطق و دلائل سے کام لینا ہوگا۔ اگر عدالت عظمیٰ سے خان صاحب کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو اس سے خان صاحب کے ووٹروں کا اُن پر اعتماد ٹوٹ جائے گا۔ عوام کی اکثریت خان صاحب کو نجات دہندہ سمجھتی تھی۔ خان صاحب پاکیٔ داماں کی حکایت کو طول دیتے رہے مگر وہ پارٹی فنڈنگ کے سارے ممنوعہ غیرملکی ذرائع استعمال کرتے رہے۔ آنے والے چند ہفتوں میں عدالت عظمیٰ اور عوامی عدالت اپنا اپنا فیصلہ صادر کریں گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں