شہادتِ امام حسینؓ

آج دس محرم الحرام ہے۔ دس محرم 61ہجری کو سانحہ کربلا پیش آیا تھا جو تقریباً چودہ صدیوں سے دنیا بھر میں مسلمانوں کو ہی نہیں غیرمسلموں کو بھی رلا رہا ہے۔ ہر سال بالخصوص محرم میں کروڑوں مسلمان امام حسینؓ کی شہادت پر اپنے اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہیں البتہ بقول مولانا مودودی‘ بہت ہی کم لوگ اس مقصد کی طرف توجہ دیتے ہیں جس کے لیے امام عالی مقام نے نہ صرف اپنی جانِ عزیز قربان کی بلکہ اپنے کنبے کے بچوں تک کو کٹوا دیا۔
10محرم 61ہجری کو میدانِ کربلا میں کوفیوں کے لشکرِ جرار سے مخاطب ہوتے ہوئے امام حسینؓ نے ارشاد فرمایا: ''لوگو! تم میں سے جو مجھے جانتا ہے اور جو مجھے نہیں جانتا وہ آگاہ ہو جائے کہ میں آنحضرت محمدﷺ کا نواسہ اور حضرت علیؓ کا بیٹا ہوں۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا میری ماں ہے۔ آنحضرتﷺ نے مجھے اور میرے بھائی حسنؓ کو جوانانِ جنّت کا سردار بتایا تھا۔ میں مدینہ منورہ اور مکۃ المکرمہ میں مصروفِ عبادت تھا جب تم نے میرے پاس مسلسل خطوط بھیجے کہ ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ جب تمہارے بلانے پر میں یہاں آیا تو تم میرے قتل کے درپے ہو گئے ہو‘‘۔ یزید کے لشکر نے خانوادۂ رسول پر ایک رات پہلے ہی سے دریا کا پانی بند کر دیا تھا۔ شکیب جلالی نے اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا تھا:
ساحل تمام اشکِ ندامت سے اَٹ گیا
دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا
امامؓ کے خطاب کے بعد ظالم کوفیوں نے خانوادۂ رسول کے ایک ایک گوہرِ تابدار کو شہید کر دیا۔ حضرت حسینؓ نے آخر میں تنِ تنہا جس جرأت و شجاعت کے ساتھ جامِ شہادت نوش کیا اسے تاریخ میں تاقیامت یاد رکھا جائے گا۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہ سانحہ کیوں پیش آیا؟ حضرت امیر معاویہ نے بہت سے صحابہ کی رائے کے برعکس اپنے بیٹے یزید کی ولی عہدی کا فیصلہ کر لیا۔ مروان بن حکم نے امیر معاویہ کا یہ فرمان مدینہ منورہ میں لوگوں کے سامنے پڑھا تو حضرتِ حسینؓ سمیت بہت سے واجب الاحترام صحابہ نے سخت مخالفت کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ انتخاب مسلمانوں کی بہتری کے لیے نہیں بلکہ بربادی کے لیے کیا گیا ہے۔ اس طرح سے تو خلافتِ اسلامیہ قیصر و کسریٰ کی موروثی سلطنت سے مشابہ ہو جائے گی۔
وہ مقصد کیا تھا جس کے لیے امام عالی مقام نے اتنی بڑی قربانی پیش کی۔ حضرت حسینؓ نے شہادت کی منزل کو کسی تخت و تاج کے لیے منتخب نہیں کیا تھا۔ یزید سے پہلے چالیس سالہ خلافت کی گاڑی غیرموروثی ٹریک پر چل رہی تھی مگر یزید کی تخت نشینی وہ نقطۂ انحراف تھا جب یہ گاڑی خلافت سے ملوکیت کے ٹریک پر ڈال دی گئی۔ اسلامی خلافت انسانوں کو ربِّ ذوالجلال کی غلامی کا پابند بناتی ہے جبکہ بادشاہت کا زمانوں سے یہ دستور رہا ہے کہ وہ ملک اور رعیت کو شاہی خاندان کی ملکیت سمجھتے ہیں۔
آج بھی جن ملکوں میں مطلق العنان بادشاہتیں ہیں وہاں اعلان کیا جائے یا نہ کیا جائے عملاً حاکم وقت کا فرمان ہی قانون و دستور کا درجہ رکھتا ہے۔ جبکہ خلافت میں کوئی خلیفہ یا اس کا نائب اسلامی قانون سے سرِمو انحراف نہیں کر سکتا۔ امام عالی مقام نے دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے یہ سوچ لیا تھا کہ آگے چل کر یہی موروثی بادشاہتیں اسلامی ریاستوں میں جاری ہو جائیں گی۔ پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ پہلے اموی پھر بنو عباس کی بادشاہتیں قائم ہوئیں۔ اسلامی خلافت کی روح شورائیت پر استوار ہے۔ اسی لیے خلیفہ کے تعین کے موقع پر اصحاب الرائے سے مشورہ کیا جاتا تھا۔ خلافت کے عظیم ادارے کو کسی بھی خاندان نے اپنی وراثت نہ سمجھا تھا۔
بادشاہتیں سب سے پہلا وار آزادیٔ اظہارِ رائے پر کرتی ہیں جبکہ خلافت میں مسلم معاشرے کا ہر فرد خلیفۂ وقت پر آزادانہ تنقید کا استحقاق رکھتا تھا اور خلافتِ راشدہ میں مسلمانوں نے ہمیشہ اس حق کو استعمال کیا۔ اسی طرح خلفا کے زمانے میں بیت المال مسلمانوں کی اجتماعی ملکیت سمجھا جاتا تھا۔ آج کل کی بادشاہتیں اور نیم جمہوری حکومتیں قومی خزانے کو عوام کی امانت نہیں بلکہ اپنی ذاتی جائیداد سمجھتی ہیں۔ حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ بیت المال سے تھوڑا سا شہد بغرضِ علاج لینے کے لیے بھی مسلمانوں کو مسجد نبوی میں اکٹھا کیا اور اُن سے اجازت لی۔
خلافت اور ملوکیت کے اس بنیادی فرق کی بنا پر نواسۂ رسول نے اپنی شہادت سے وہ شمع روشن کی جس کی لو ہمیشہ جگمگاتی اور مسلمانوں کو صراط مستقیم دکھاتی رہے گی۔ یہ عظیم شہادت مسلمانوں ہی کے لیے نہیں غیرمسلموں کے لیے بھی چراغِ راہ ہے۔ اسی لیے تو جوش ملیح آبادی نے کہا تھا:
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ
امام عالی مقام کی عظمت اور اُن کی لازوال قربانی کے بارے میں صرف مسلمان مورخین نے گلہائے عقیدت پیش نہیں کیے بلکہ بہت سے غیرمسلم مصنفین و مورخین نے بھی ظلم کے خلاف سینہ سپر ہونے کے حسینی جذبے اور اس کے لیے عملی شہادت پیش کرنے کو بہت سراہا ہے۔ چارلس ڈکنز میرے پسندیدہ ناول نگار ہیں۔ وہ انگریزی ناول نگاروں میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ''امام حسینؓ کی جنگ مال و متاع اور اقتدار کے لیے نہیں تھی۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ بچوں اور خواتین کو ساتھ لے کر کیوں جاتے۔ وہ صرف ایک مقصد کے لیے کربلا گئے اور اُن کی قربانی اسلام کے لیے تھی‘‘۔
محمد مصطفی ﷺ کو ''ہیرو ایز اے پرافٹ‘‘ تسلیم کرنے اور آپ ﷺ کو سب پیغمبروں سے ارفع و اعلیٰ ماننے والے تھامس کارلائل نے کہا تھا کہ واقعہ کربلا نے حق و باطل کے مقابلے میں عددی برتری کی اہمیت کو ختم کر دیا ہے۔ معرکۂ کربلا کا اہم ترین درس یہ ہے کہ امام حسینؓ اور اُن کے رفقا خدا کے سچے پیروکار تھے۔ قلیل ہونے کے باوجود میدانِ کربلا میں امامؓ کی جرأت و بہادری متاثر کرتی ہے‘‘۔ دیکھیے نیلسن منڈیلا نے اس حقیقت پر کیسے مہرِ تصدیق ثبت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امام حسینؓ صرف مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ نہ تھے بلکہ وہ دنیا بھر کے سرفروشوں کے لیے تابندہ و درخشندہ مثال ہیں۔
منڈیلا لکھتے ہیں کہ ''میں نے ستائیس سال جیل میں گزارے ہیں۔ دورانِ اسیری ایک رات میں نے فیصلہ کیا کہ تمام شرائط پر دستخط کر کے رہائی پا لینی چاہیے۔ میری خوش قسمتی کہ مجھے امام حسینؓ اور واقعہ کربلا یاد آ گیا اور میں نے مشروط رہائی کی اپنی سوچ کو جھٹک دیا‘‘۔
بلاشبہ ہر سال یادِ حسین میں آنسو بہانا اور اپنے غم کا اظہار کرنا غمگساروں کے حضرت حسینؓ کے ساتھ تعلقِ خاطر کو ظاہر کرتا ہے۔ مگر امام عالی مقام کے ساتھ حقیقی وابستگی اور سچی محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے جدوجہد کی جائے جس مقصد کے لیے حضرت حسینؓ نے اتنی عظیم قربانی دی۔ وہ مقصد یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کو ماننے والوں پر حکمرانی بھی اللہ اور اس کے رسول کی ہونی چاہیے۔ امام عالی مقام کے اقوالِ زریں میں ہمیں واقعہ شہادت کے پہلو نہایت نمایاں نظر آتے ہیں۔ ان کی قربانی عیش و عشرت کی زندگی اور دنیاوی جاہ و جلال کے لیے نہیں تھی۔ امام حسینؓ دراصل وہ استعارہ اور ستارہ ہیں جو رہتی دنیا تک باطل کے سامنے ڈٹ جانے کی روشن مثال دنیا کے سامنے پیش کرتا رہے گا۔ شہادت حسینؓ کا یہی سب سے اہم پہلو ہے اور یہی سب سے اہم سبق ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں