یومِ آزادی پر ملنے والے پیغامات

پاکستان کی گولڈن جوبلی پر مجھے کئی پیغامات موصول ہوئے۔ آزادی کی اصل قدر و قیمت اُن سے پوچھیے کہ جو آج اکیسویں صدی میں بھی غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اہلِ فلسطین کا وطن اپنا‘ زمین اپنی اور فضائیں اپنی ہیں مگر انہیں اسرائیل نے غلام بنا رکھا ہے۔ اسرائیل جب چاہتا ہے فضائوں سے فلسطینیوں پر بم برساتا اور ٹینکوں سے ان کی آبادیوں پر گولہ باری کرتا ہے۔ ہمارے فلسطینی بھائی پاکستان کی طرف رشک بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔
یومِ آزادی پر موصول ہونے والے سب پیغامات کا تذکرہ تو یہاں ممکن نہیں صرف دو خیال افروز پیغامات پر بات کرتے ہیں۔ پروفیسر زبیر بن عمر صدیقی نہایت صاحبِ علم اور اہلِ درد پاکستانی ہیں۔ تیسری چوتھی ہجرت کے بعد اب مستقلاً امریکہ میں آباد ہو گئے ہیں۔ آزادی کی صبح اُن کا یہ میسج ملا '' آزادی مبارک ہو‘ مگر تم آزادی کی قدر و قیمت کیا جانو!‘‘ انہوں نے اپنے ایک بزرگ کی یہ مختصر تحریر ارسال کی ہے:
''ہم مہاجرین کیمپ میں تھے۔ آواز آئی سکھوں نے حملہ کر دیا ہے۔ وہ مردوں کو مار دیا کرتے تھے جبکہ عورتوں اور بچوں کو اپنے ہمراہ لے جاتے تھے۔ میرے والد ایک لیڈر صفت آدمی تھے۔ انہوں نے نعرہ لگایا کہ ہم کیمپوں سے باہر نکل کر مقابلہ کریں گے۔ اپنی تمام عورتوں کو بچوں کے ہمراہ راوی کے کنارے پر کھڑے ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت تک یہاں سے نہیں ہلنا جب تک کہ یہاں دوبارہ اللہ اکبر کا نعرہ نہیں گونجتا‘ لیکن اگر ایسا نہ ہوا اور اللہ اکبر کے بجائے 'واہے گرو‘ کا نعرہ بلند ہوا تو بچوں کے ساتھ ہی اس بہتے دریا میں کود جانا۔ انہوں نے جرأتِ ایمانی سے وقتی طور پر سکھوں کا حملہ پسپا کر دیا مگر پھر وہ کٹتے مرتے کسی نہ کسی طرح پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہو گئے‘‘۔
پروفیسر صاحب نے یہ صائب مشورہ بھی دیا ہے کہ پاکستان بننے میں جو عظیم قربانیاں دی گئیں ان کی دل خراش حقیقی داستانوں کا ایک نصاب مرتب ہونا چاہیے۔ یہ نصاب نہ صرف تعلیمی اداروں میں لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے بلکہ تمام سیاست دانوں کے لیے بھی اس کا مطالعہ لازم قرار دیا جائے۔
حصولِ پاکستان کے لیے دی گئی قربانیوں کی سینکڑوں لرزہ خیز کہانیاں ایسی ہیں کہ جنہیں سن کر جگر پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔ ان کہانیوں میں ایک کہانی بابا میر دین کی ہے۔ بابا میر دین نے 85 برس کی عمر میں یہ کہانی چار پانچ برس پہلے سنائی تھی۔ انہیں ایک ایک تفصیل یاد تھی: ''میرا خاندان برصغیر کی تقسیم سے پہلے ضلع امرتسر کے گائوں نارائین گڑھ کا رہائشی تھا۔ تقسیم کے وقت میری عمر چودہ برس تھی۔ 3 اگست 1947ء کا دن تھا جب میرے والد صاحب کو ٹانگرہ سٹیشن پر سکھوں نے حملہ کر کے شہید کر دیا تھا۔ 15 اگست 1947ء کو پورے گائوں کے مسلمان سکھوں کے ڈر سے اپنی زندگیوں کو بچانے کی کوشش میں بے سروسامانی کے عالم میں گھر بار چھوڑ کر پاکستان کی طرف روانہ ہوئے۔ ابھی دو کلومیٹر کا سفر طے کیا تھا کہ سکھوں کے ایک جتھے نے ہمارے قافلے پر بندوقوں اور تلواروں سے حملہ کر دیا۔ اس حملے میں ہمارے گائوں کے 85 مسلمانوں کو موقع پر شہید کر دیا گیا جن میں میرے خاندان کے گیارہ افراد شامل تھے اور سکھ قافلے کی 28 عورتوں کو زندہ اٹھا کر لے گئے۔ قافلے میںشریک کچھ عورتوں نے اپنے شیرخوار بچوں کے ساتھ کنوئیں میں چھلانگیں لگا دیں اور موت کو گلے لگا لیا۔ جان بچانے کی خاطر میں اپنی ننھی بہن کو اٹھا کر موقع سے بھاگ نکلا اور قریب گنے کی فصل میں چھپ گیا۔ وہاں تین مسلمانوں نے پہلے ہی پناہ لے رکھی تھی۔ میری ننھی بہن مسلسل روئے جا رہی تھی۔ کھیت میں پناہ لینے والے مسلمانوں نے گلا دبا کر میری بہن کی چیخیں ہمیشہ کے لیے بند کرنے کی کوشش کی۔ ان کا خیال تھا کہ سکھ یہ آوازیں سن کر ہماری طرف پلٹ آئیں گے۔ مجھے اپنی بہن سے بے پناہ محبت تھی‘ لہٰذا میں اسے اٹھا کر واپس اپنے گائوں نارائین گڑھ کی طرف بھاگ پڑا۔ سکھ ہمارے گائوں کے بہت سے لوگوں کو پہلے ہی تہ تیغ کر چکے تھے۔ میرے خاندان کے بچ جانے والے بہت سے افراد زخموں کی شدت سے کراہ رہے تھے۔ میرے دادا زخمی حالت میں مسجد میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھے فرطِ محبت سے گلے لگایا اور کہا کہ تم دیگر خاندان والوں کے ساتھ فوراً یہاں سے بھاگ جائو اور مجھے یہاں چھوڑ دو۔ اللہ کو ہمارا خاندان بچانا مقصود تھا اس لیے ایک سکھ اِلہ سنگھ نے ہماری عورتوں کے تمام زیورات اور ساز و سامان کے بدلے ہمیں خلچیاں مہاجر کیمپ تک پہنچایا۔ وہاں پناہ لیے ہوئے ہر خاندان کی ایسی ہی المناک داستان تھی۔ دو روز تک ہم نے کیمپ میں درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کیا۔ تیسرے روز ہم ملٹری کے ٹرک کے ذریعے والٹن کیمپ لاہور پہنچے‘‘۔
لندن ٹائمز کے نامہ نگار آئن مورسن کی ذاتی مشاہدات پر مبنی اگست 1947ء کے دوران بھیجی گئی رپورٹیں نہایت المناک واقعات پر مشتمل ہیں۔ پہلی رپورٹ میں وہ لکھتا ہے کہ سکھ امرتسر اور اس کے گرد و نواح میں ہر روز بے دردی سے سینکڑوں مسلمانوں کو تہ تیغ اور ہزاروں کو بزور شمشیر مغرب کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ آئن مورسن کی دوسری رپورٹ کے مطابق 15 اگست 1947ء کو سکھوں نے ہندوستان کے یومِ آزادی کے موقع پر مسلمان عورتوں کا جلوس جس طرح نکالا‘ اُن پر وحشیانہ تشدد کیا اور ان کی آبرو ریزی کی اس کے بارے میں رپورٹر کے الفاظ کو دہرانے کا مجھ میں حوصلہ ہے اور نہ آپ کو سننے کا یارا۔
تقسیمِ ہند کے موقع پر مسلمانوں پر ڈھائے گئے مظالم میں تقریباً 10 لاکھ سے زائد مردوں‘ عورتوں‘ بچوں اور بوڑھوں کو شہید کیا گیا‘ لاکھوں کو زخمی کیا گیا۔ ڈیڑھ لاکھ کے قریب جوان مسلمان لڑکیاں اور عورتیں اغوا کر لی گئیں۔ یہ تھی وہ ناقابلِ بیان قیمت جو آزادی اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیے ادا کی گئی‘ مگر ہم قدر ناشناس لوگ ہیں۔ یومِ آزادی کے موقع پر محترمہ صباحت رفیق صاحبہ کا ایک دعائیہ پیغام ملا۔ انہوں نے دعا کی ہے کہ اللہ پاکستان پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نچھاور کرے‘ ہمیں امن و سلامتی اور خوشحالی کی نعمتوں سے سرفراز فرمائے۔ انہوں نے یہ بھی دعا کی کہ اللہ ہماری قوم کو حکمت کی دولت سے مالا مال کرے تاکہ ہم نیابتِ الٰہی کے فریضہ کو کماحقہُ ادا کر سکیں۔
یقینا ایک قوم کے لیے حکمت ایک بنیادی ضرورت کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لفظ کا مفہوم ادا کرنے کے لیے اردو میں ''دانش‘‘ اور انگریزی میں ''وزڈم‘‘ کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں مگر ''حکمت‘‘ کے لفظ میں جہانِ معانی آباد ہیں۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ومن یوت الحکمہ فقد اوتی خیراً کثیرا۔ جسے حکمت دی گئی اسے خیرِ کثیر عطا کیا گیا۔ ہمارے لیڈروں نے خود کو اس ''خیرِ کثیر‘‘ کا اہل ثابت نہیں کیا۔
اگر ہمارے قائدین کے اندر حکمت ہوتی تو پاکستان پے در پے حادثات و سانحات سے دوچار نہ ہوتا۔ آج بھی ہمارے قائدین محمد علی جناح کے فرمودات کو بھول کر رات دن ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کر رہے ہیں اور ایوانوں کو بے وقار کرکے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں۔ ہمارے حکمران اور سیاستدان غربت سے دم توڑتے ہوئے عوام کو بھول چکے ہیں۔ آزادی کے اس موقع پر ہم ربِّ کریم سے دعاگو ہیں کہ وہ ہمارے لیڈروں کو حکمت یعنی خیرِ کثیر عطا کرے۔ آمین۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں