مکالمہ

تاریخ میں افلاطون کے مکالمات کو بہت شہرت ملی۔ افلاطون سقراط کا سب سے عزیز ترین شاگرد تھا۔ شاگرد نے ان مکالمات میں جہاں سقراط کے ایتھنز کی عدالت میں تاریخی خطاب کو نہایت جاندار انداز میں پیش کیا وہاں اس نے استاد اور شاگرد کا فلسفۂ حیات بھی اگلی نسلوں تک منتقل کیا ہے۔
حال ہی میں ''مکالمہ‘‘ کے نام سے ایک قدرے ضخیم کتاب منظرعام پر آئی ہے۔ پاکستان میں اپنی نوعیت کی یہ ایک منفرد کتاب ہے۔ یہ وہ مکالمہ ہے جو پاکستان کی تاریخ‘ سیاست‘ عدالت اور ثقافت کے بارے میں ملک کے نامور قانون دان‘ دانشور اور سابق مرکزی وزیر قانون ایس ایم ظفر اور معروف صحافی ڈاکٹر وقار ملک کے درمیان تقریباً ربع صدی تک چلتا رہا اور قسط وار ملک کے معروف اخبارات و جرائد کی زینت بنتا رہا۔
ڈاکٹر وقار ملک بظاہر حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے سوال اٹھاتے اور ایس ایم ظفر اہم قومی مسائل‘ بین الاقوامی امور‘ عدلیہ‘ مذہب اور جمہوریت و سیاست کے بارے میں معلومات کے دریا بہا دیتے تھے۔ ظفر صاحب کا اندازِ بیان شائستہ اور شگفتہ ہے‘ جس میں ہلکے پھلکے مزاح کی چاشنی اس کی اثر انگیزی کو دوچند کر دیتی ہے۔ کتاب کے مصنف و مرتب ڈاکٹر وقار ملک نے نژادِ نو کو ایس ایم ظفر صاحب کی ذاتی زندگی‘ شخصیت‘ قانون دانی‘ وکیلانہ آداب‘ عدالتی وقار اور تاریخ و سیاست کے اعتبار سے ان کے مقام سے روشناس کرایا ہے۔
اللہ سید صاحب کی عمر دراز کرے۔ اُن کا بچپن‘ لڑکپن رنگون میں گزرا جہاں اُن کے والد ایک خوشحال تاجر تھے۔ مگر پھر انہیں جنگِ عظیم اوّل شروع ہونے کی بنا پر اپنے گاؤں (چک قاضیاں) نارووال آنا پڑا۔ ایس ایم ظفر کی بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اپنا ماضی نہیں چھپاتے۔
ظفر صاحب نے بی اے امتیازی حیثیت سے گورنمنٹ کالج لاہور سے پاس کیا۔ وہ آگے لاء کالج میں داخلہ لینا چاہتے تھے مگر اُن کے والد نے کہا کہ آپ اعلیٰ تعلیم کا خیال ترک کریں اور بطور کلرک بینک میں کام کریں۔ یہ جملہ سن کر وہ بہت پریشان ہوئے۔ اس موقع پر ظفر صاحب کی والدہ صاحبہ نے آگے بڑھ کر بیٹے کو اپنی چوڑیاں پیش کر دیں جنہیں دل پر بھاری پتھر رکھ کر ظفر صاحب نے فروخت کر دیا اور یوں اپنے خوابوں کو چکنا چور ہونے سے بچا لیا۔ ایس ایم ظفر صاحب نے بعد ازاں اپنی والدہ کے نام پر ''فاطمہ ایجوکیشن سوسائٹی‘‘ بنائی جس کے وظائف سے سینکڑوں طلبہ و طالبات ڈاکٹرز اور انجینئرز بن چکے ہیں اور بن رہے ہیں۔
ڈاکٹر وقار ملک نے ایس ایم ظفر کے والد کشفی صاحب کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ شریعت کے پابند اور صاحبِ حال تھے۔ اُن کا انتقال 11 مارچ 1976ء کو ہوا۔ انہوں نے انتقال سے چند روز قبل اپنے کئی عزیزوں اور عقیدت مندوں کو خط لکھا کہ فلاں تاریخ کو میرا انتقال ہو جائے گا اگر آپ میری نمازِ جنازہ میں شرکت کرنا چاہتے ہیں تو فلاں روز چک قاضیاں نارووال پہنچ جائیں۔ جب بہت سے عزیز و اقارب عین اسی تاریخ کو چک قاضیاں پہنچے تو وہاں کشفی صاحب کا جنازہ تیار تھا۔
ایس ایم ظفر کلائنٹ کو ہمیشہ دیانت دارانہ رائے دیتے۔ کروڑوں کی فیس کا لالچ نہ کرتے اور جبکہ بہت سے دوستوں اور عزیزوں کے مقدمات انہوں نے نہایت محنت سے لڑے اور ایک روپیہ بھی فیس نہ لی۔ اس سلسلے میں کچھ واقعات اس کالم نگار کے ذاتی علم میں بھی ہیں۔
کیا پاکستان ایک جمہوری ملک ہے؟ یہ سوال وقار ملک نے ایس ایم ظفر سے پوچھا اور ساتھ ہی یہ بھی عرض کیا کہ پچھلے دنوں آئیڈیل جمہوری ملکوں کے معروف دانشوروں کی یہ رائے بھی سامنے آئی کہ کسی ملک کو جمہوری تب کہا جائے گا جب وہاں مسلسل دو تین بار آزادانہ براہِ راست انتخابات سے انتقالِ اقتدار عمل میں آیا ہو۔ اس سوال کا جواب ایس ایم ظفر نے یوں دیا: میرے نزدیک جمہوریت وہ طرزِ سیاست ہے جہاں حکومت کو انتخابات کے ذریعے تبدیل کیا جا سکتا ہو نہ کہ جہاں خود حکومت انتخابات کے نتائج کو تبدیل کر دے۔ ظفر صاحب نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ او آئی سی کے چھپن‘ ستاون ممالک میں سے صرف ایک ملک ترکی مسلسل آزادانہ انتخابات کی شرط پر پورا اترتا ہے۔ عدالتوں کے اختیارات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے جناب ایس ایم ظفر نے کہا کہ 1958ء کے مارشل لا ء کا زمانہ تھا۔ جسٹس شبیر احمد ایک مقدمہ سن رہے تھے جس میں ایک افسر کے خلاف الزام یہ تھا کہ انہوں نے ایک اہم سول افسرکی اہلیہ کو بھگا لیا ہے۔ اس مقدمے میں اس وقت کے پنجاب کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل اللہ داد کو طلب کرنا بھی ضروری سمجھا گیا۔ کیونکہ واقعات میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ متعلقہ خاتون گورنر ہائوس بھی آ کر ٹھہری تھی۔جسٹس شبیر احمد نے ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو حکم دیا کہ وہ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو خط لکھے کہ وہ اگلی تاریخ کو عدالت میں پیش ہوں۔ یہ سن کر وکیلِ صفائی نے کہا: مائی لارڈ! خط کے جواب میں مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر آنے سے انکار بھی کر سکتا ہے۔ جسٹس شبیر احمد نے کہا کہ وہ شخص جو بڑے صوبے کا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر متعین ہوا اسے یقینا معلوم ہو گا کہ عدلیہ کا جج جب کسی کو عدالت میں بلائے تو اس کے کیا معنی ہیں۔ جسٹس شبیر احمد کی بات درست ثابت ہوئی اور اگلی پیشی پر مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر عدالت میں حاضر تھا۔
تاریخ و سیاست‘ سماج و ثقافت‘ مذہب و سائنس‘ قومی و بین الاقوامی امور اور قانون و انصاف وغیرہ کے بارے میں 672 صفحات کی یہ کتاب ایک گنجینہ ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے پہلے بھی میں ایس ایم ظفر کی قانون دانی اور دانشوری کا قائل تھا۔ اُن سے کئی ایک بالمشافہ ملاقاتیں بھی ہوئیں‘ مگر اس کتاب کے مطالعے کے بعد ان کی شخصیت کی دلکشی اور رعنائی اور اُن کی ژرف نگاہی نے مجھے اپنا اسیر بنا لیا ہے۔ میں نے کتاب کی ورق گردانی کا آغاز یہ سوچ کر کیا تھا کہ اس پر سرسری نگاہ ڈال کر تبصرے کے اخلاقی فرض اور ادائیگیٔ قرض سے سبکدوش ہو جاؤں گا مگر یہاں تو کتاب کا ہر صفحہ مجھے سیّد صاحب کا گرویدہ بناتا چلا گیا۔ میر تقی میر نے بجا فرمایا تھا:
سرسری تم جہاں سے گزرے
ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا
ڈاکٹر شہباز گل
ڈاکٹر شہباز گل سابق وزیراعظم عمران خان کے چیف آف سٹاف تھے۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد اور لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی سے ہوتے ہوئے وہ امریکہ جا پہنچے جہاں وہ ایک بڑی امریکی یونیورسٹی کے بزنس ایڈمنسٹریشن کے شعبے میں تدریسی فرائض انجام دینے لگے۔ پھر اچانک انہیں عمران خان کی کشش واپس پاکستان کھینچ لائی۔ ڈاکٹر شہباز گل یکایک دانش گاہوں اور کتب خانوں سے سیاسی اکھاڑوں میں اتر آئے جس کا انہیں کوئی تجربہ نہ تھا۔ شنید یہ ہے کہ گل صاحب یونیورسٹیوں کے زمانے میں ایک دھیمے مزاج کی شخصیت تھے۔ کوچۂ سیاست میں آ کر انہوں نے جو لب و لہجہ اختیار کیا وہ اُن کے دیرینہ خیرخواہوں کے لیے بالکل نامانوس تھا۔ گل صاحب نے کیا کہا‘ انہوں نے کیا کیا اور اُن کے ساتھ حوالات اور جیل میں کیا سلوک ہوا‘ اس کا فیصلہ تو عدالتوں نے کرنا ہے‘ البتہ یہ وقت گل صاحب کو اُن کی غلطیاں یاد دلانے کا نہیں ان کے بارے میں کلماتِ خیر کہنے کا ہے۔ ہماری اللہ سے دعا ہے کہ وہ انہیں اس مشکل اور اذیت سے جلد نجات دے۔ آمین۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں