نرالی ایئر لائن

کوئی کب تک عظمتِ رفتہ کے سہارے زندہ رہ سکتا ہے۔ کوئی کب تک سبز ہلالی پرچم والی قومی ایئرلائن کے نام پر اپنے ہم وطن مسافروں کا استحصال جاری رکھ سکتا ہے اور کوئی کب تک اپنے مسافروں کی توہین و تذلیل کر سکتا ہے؟ ایسا آج کی پروفیشنل مسابقت کی دنیا میں ممکن نہیں مگر ہماری قومی ایئر لائن ''ناممکن‘‘ کو ممکن بنائے ہوئے ہے۔
کل تک کی بے نام ایئرلائنوں نے پروفیشنل ازم کو اپنایا۔ انہوں نے مسافروں کو زیادہ سے زیادہ راحت پہنچانے کو اپنا شیوہ بنایا اور آج وہ ایئرلائنیں دنیا کی چند پہلی ہوائی کمپنیوں میں شمار ہوتی ہیں۔ ادھر ہماری قومی ایئر لائن نے مسافروں کو زیادہ سے زیادہ اذیت پہنچانے کا شیوہ اختیار کر رکھا ہے۔ میری اور میری بیگم کی جدہ سے لاہور واپسی کی سیٹ 9 ستمبر کو کنفرم تھی۔ مجھے دو تین روز پہلے اپنے ایک عزیزکے ذریعے معلوم ہوا کہ پی آئی اے نے یہ پرواز کینسل کردی ہے اور اب آپ کی سیٹ 8 یا 10 ستمبر کے لیے بک کی جا سکتی ہے۔ میں نے کہا کہ 10 ستمبر کے لیے بک کروا دیں۔ ان صاحب نے سیٹ کنفرم کروا کے مجھے اس کا واٹس ایپ بھیج دیا۔ اس تبدیلی سے مجھے ایک نہیں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا جن کا میں بعد میں ذکر کروں گا؛ تاہم جب میں 10 ستمبر کی پرواز کے لیے جدہ ایئرپورٹ پر پہنچا تو وہاں حشر کا سماں تھا۔ ہم نے آگے بڑھ کرمذکورہ ایئر لائن کے کائونٹر پر سعودی خاتون کلرک کو ٹکٹ دیے تو اُس نے کہا کہ آپ کی کنفرم سیٹ ہماری سکرین پر موجود نہیں‘ اس لیے آپ کو انتظار کرنا پڑے گا۔ جب میں نے انہیں اپنی بپتا سنائی تو معلوم ہوا کہ ایک میں نہیں یہاں درجنوں مسافر ایسے ہیں کہ جن کی کنفرم سیٹیں کینسل کردی گئی ہیں اور کوئی اُن کا پرسانِ حال نہیں۔ بہت دیر کے بعد ایئر لائن کے ایک صاحب نمودار ہوئے‘ میں نے ان کا نام پوچھا تو انہوں نے اللہ بخش بتایا۔ اللہ انہیں بخشے۔ اتنی دیر میں مسافروں کا جم غفیر اُن کے گرد جمع ہوچکا تھا۔ ان مسافروں نے کہا کہ ہم یہاں آہ و فغاں بھی بلند نہیں کر سکتے کہ سعودی عرب کے قوانین اجازت نہیں دیتے مگر آپ ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیوں کر رہے ہیں؟ وہ صاحب پہلے بھنّائے‘ پھر سٹپٹائے اور آخر میں گھبرائے۔ پھر انہوں نے اپنی بے بسی کا اعلان کر دیا۔ اُن کا میسج یہ تھا کہ مسافر جانے‘ خدا جانے۔ میں نے یہ منظر دیکھا تو اپنی ''عربی دانی‘‘ کا استعمال کرتے ہوئے ایک کائونٹر پر سعودی مدیر کو اپنا حالِ دل سنایا۔ اسے ہم پر کچھ ترس آگیا اور اس نے ہمیں اکانومی کلاس کے بورڈنگ پاس جاری کردیے۔ پریشان حال درماندہ زائرین میں سے ہر شخص کا قصۂ درد دوسرے مسافر سے زیادہ کربناک تھا۔ ایک نوجوان جوڑا اپنی تین سالہ معذور بچی کے لیے ایک ٹکٹ کی رقم ڈیڑھ لاکھ کے قریب ادا کرکے لاہور سے جدہ آیا اب واپسی پر کائونٹر والے معذور بچی کا سٹرالر سامان میں لینے سے انکاری تھے۔ دو اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین بتا رہی تھیں کہ پی آئی اے نے اُن کی جدہ سے واپسی کی سیٹیں تین بار کینسل کیں۔ اکثر پاکستانی مسافر کنفرم سیٹ اور پرواز کے اچانک کینسل ہونے کی صورت میں جدہ ایئرپورٹ کے باہر کھلے آسمان تلے پڑے رہتے ہیں اور کوئی اُن کا والی وارث نہیں ہوتا۔ میں نے ایئرپورٹ کے باہر مدیر سے بات کی تو اُس نے مجھے بتایا کہ ایسا صرف آج نہیں‘ پی آئی اے کے لیے یہ روزمرہ کی بات ہے۔
میں ایک ''عادی مسافر‘‘ ہوں۔ دنیا کی کئی ایئرلائنوں سے سفر کے مواقع ملے مگر یقین کیجئے دنیا کی کوئی اور ایئرلائن اپنے مسافروں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرتی۔ ہم نے کئی بار قومی ایئر لائن کے ہاتھوں چرکے کھائے اور دل میں ٹھان لی کہ اب اس ''مسافر‘‘ پر کوئی قومی استحصالی حربہ کامیاب نہ ہونے دوں گا مگر ہر باریہ '' مومن‘‘ اسی سوراخ سے پھر ڈسا جاتا ہے۔ آج میں اپنا قصۂ درد قدرے تفصیل کے ساتھ بیان کر رہا ہوں۔لاہور سے مدینہ منورہ کے لیے میری سیٹ 27 اگست کو کنفرم تھی۔ میں نے اپنے بیٹے بلال کی امریکہ سے براستہ استنبول فلائٹ کے شیڈول کے مطابق نشست بک کروائی تھی۔ اسے یکطرفہ طور پر کینسل کرکے 28 اگست کی سیٹ کنفرم کردی گئی۔ پروگرام کی اس تبدیلی سے ہمیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جب ہم لاہور ایئرپورٹ پہنچے تو میں نے بزنس کلاس کے کائونٹر پر تشریف فرماایئر لائن کے نمائندہ سے کہا کہ مجھے سیٹ نمبرون دے دیجئے کہ یہ ہمارا استحقاق ہے۔ انہوں نے اگلی سیٹوں کے تین ہزار روپے زائد وصول کیے اور اس کی کوئی رسید بھی نہ دی۔اب ذرا کیبن کے اندر کے حالات سنیے۔ میں نے فضائی میزبان سے کہا کہ میری سیٹ کے اوپر موجود لائٹ نہیں جل رہی۔ انہوں نے کہا کہ یہ شمع اکیلے نہیں جلے گی‘ اپنے ساتھ سب پروانوں کو جلائے گی‘ لہٰذا کیبن میں موجود سارے قمقمے روشن کر دیے گئے۔ واپسی پر بھی یہی صورت حال درپیش تھی۔ جہاز کے واش روم کی حالت تو ناقابلِ بیان ہے۔
دنیا کی کسی اور ایئرلائن پر اگر سیٹ یا فلائٹ منسوخ ہونے کی کوئی صورت پیدا ہوتی ہے تو ہوائی کمپنی سو سو طرح سے معذرت کرتی ہے مگر ہر سال اربوں روپے کا خسارہ قومی خزانے پر لادنے والی قومی ایئر لائن ایسے کسی تکلف کی روادار نہیں۔ 2020ء میں ہماری قومی ایئر لائن کا سالانہ نقصان تقریباً ساڑھے 34 ارب روپے تھا۔ 2021ء میں یہ خسارہ بڑھ کر 50 ارب روپے ہوگیا۔ مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر پی آئی اے کے اتنے بڑے خسارے کے بارے میں تجزیاتی مضامین اور رپورٹیں منظرعام پر آتی رہتی ہیں۔ اس خسارے سے نجات پانے کی پروفیشنل سکیمیں اور ترکیبیں بھی پیش کی جاتی ہیں مگر آپس میں دست و گریباں سیاست دانوں اور حکمرانوں کو ان ''غیراہم‘‘ باتوں اور کاموں کی طرف توجہ دینے کی ہرگز فرصت نہیں۔
پی آئی اے ''عظمتِ رفتہ‘‘ کا فخریہ اعلان کرتی رہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ 7 مارچ 1960ء کو وہ ایشیا کی پہلی ایئرلائن تھی جس نے جیٹ ایئر کرافٹس استعمال کرنا شروع کر دیے تھے۔ 1964ء میں وہ پہلی ایئرلائن تھی جسے غیرکمیونسٹ دنیا میں سے چین تک پروازوں کی اجازت دی گئی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 1985ء میں ہماری قومی ایئر لائن نے ایمیریٹس ایئرلائن کو فنی و فضائی تربیت دی۔ 2005ء میں اس کو مسلسل 22 گھنٹے اور 22 منٹ طویل پرواز کا اعزاز بھی ملا۔مگر پدرم سلطان بود کہنے والی ایئرلائن آج بدحالی اور پستی کی انتہائوں کو چھو رہی ہے۔ یورپ سمیت دنیا کے اکثر ممالک اور ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی جیسے ادارے نے اسے اپنے سروں پر منڈلانے سے ممنوع قرار دے رکھا ہے۔ کوئی اگر اصلاح کرنا چاہے تو قومی ایئر لائن کی درماندگی کو ایک بار پھر سربلندی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے‘ مگر کوئی اصلاحِ احوال کرنا ہی نہیں چاہتا۔ قومی ایئر لائن کو کلی طور پر نہیں تو جزوی طور پر تو فی الفور نجی ہاتھوں میں دے دینا چاہیے۔
10 ستمبر 2022ء کوقومی ایئر لائن کی پروازکے ذریعے جدہ سے لاہور آنے والے میرے بشمول بہت سے حاضر صارفین ہرجانہ وصول کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ نرالی اور لاڈلی ایئرلائن کو راہِ راست پر لانا اب ناگزیر ہوگیا ہے۔ قومی ایئر لائن کے '' کارناموں‘‘ کی داستان طویل ہے۔ تین سال قبل میری سسٹر‘ میرے بہنوئی اور اُن کی بہن کو جدہ سے لاہور پرواز میں بزنس کلاس کی کنفرم سیٹوں کے بورڈنگ پاس جاری کروا کر انہیں جہاز کی طرف جانے والی بس میں سوار کرا دیا گیا‘ تھوڑی دیر کے بعد اُنہیں بسوں سے اتار لیا گیا اور لاہور کے رہائشیوں سے کہا گیا کہ اب آپ دوسرے روز اسلام آباد کی پرواز میں جائیں گے۔قومی ایئر لائن کے حکام بتائیں کہ کیا ایوی ایشن کی تاریخ میں کوئی ایئرلائن ایسی حرکت کرنے کا تصور بھی کر سکتی ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں