سعودی عرب میں آنے والی تبدیلی

لگ بھگ ستر برس کے استاذ خالد المعینا سعودی عرب کی ایک نہایت ممتاز اور واجب الاحترام شخصیت ہیں۔ وہ سعودی زندگی کے مختلف شعبوں میں سرگرم عمل ہیں۔ عالمی سطح پر بھی استاذ المعینا ایک ممتاز صحافی کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ شاہی خاندان سے لے کر سعودی عرب کے علمی حلقوں تک ہر جگہ اُن کا احترام پایا جاتا ہے۔
خالد المعینا نے آغازِ شباب میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے جرنلزم کی ڈگری اعزاز کے ساتھ حاصل کی۔ اسی لیے وہ بے تکلف اردوبولتے اور پاکستان سے بڑی محبت کرتے ہیں۔ وہ کئی برس تک سعودی عرب کے سب سے بڑے انگریزی اخبار عرب نیوز کے ایڈیٹر انچیف رہے۔ معینا صاحب سے ہمارا تعلق خاطر تین چار دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔
عرب نیوز کے ڈپٹی ایڈیٹر سراج وہاب اور عزیزم عامر خورشید کے توسط سے انہیں میری جدہ آمد کی خبر ملی تو اگلے ہی روز انہوں نے ہمیں برنچ پر مدعو کیا۔ وہ بہت گرم جوشی اور محبت سے پیش آئے۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ گزشتہ چار پانچ برس میں سعودی عرب میں کیا تبدیلی آئی ہے؟ میرے سوال کے جواب میں میزبان نے بلاتمہید کہا :الحمد للہ، اللہ کے فضل اور پرنس محمد بن سلمان کے اقدامات سے اب ہم ایک نارمل سوسائٹی ہیں۔ ''اخلاقی پولیس‘‘سے بشمول خواتین‘ سب کو آزادی مل چکی ہے۔ سعودی عرب کے موٹر ویز پر مکمل امن و امان ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اُن کی بیٹی تن تنہا شب کے گیارہ بجے طائف سے جدہ تک، پونے دو سو کلومیٹر کا سفر اکیلے طے کرتی ہے اور کوئی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا۔ بقول معینا صاحب سعودی عرب میں 95 فیصد کرپشن ختم ہو چکی ہے۔ ہم نے سعودی عرب کے پندرہ روزہ قیام میں ایئرپورٹوں سے لے کر ہوٹلوں تک اور شاپنگ مالوں سے لے کر عام دکانوں تک سعودی خواتین کو کام کرتے دیکھا۔ صرف چھ سات برس پہلے تک اس کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اگرچہ حکومت کی طرف سے خواتین کے روایتی عبایہ کی لازمی پابندی ہٹا لی گئی ہے؛ تاہم سعودی خواتین بالعموم روایتی حجاب استعمال کرتی ہیں۔
پہلے سعودی عرب میں سینما کا کوئی تصور نہ تھا مگر چار برس میں سعودی وزارتِ ثقافت کی اجازت سے ملک کے اکثر شہروں میں سینما کھل چکے ہیں۔ اس وقت تک وہاں مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں 56 سینما ہالز اور 518سکرینز قائم کر دی گئی ہیں۔
جن چیزوں کا پہلے سعودی عرب میں کوئی تصور نہیں تھا اب وہ روزمرّہ زندگی کا حصہ بنتی جا رہی ہیں۔ طائف بدوی روایات کا حامل ایک شہر سمجھا جاتا تھا کہ جہاں جدید کافی شاپس کا کوئی تصور نہ تھا۔ ہم بھی سعودی اور پاکستانی دوستوں کے ساتھ گپ شپ کے لیے بدوی انداز کے قہوہ خانوں میں جایا کرتے تھے۔ اب سفر طائف کے دوران میرے کچھ نوجوان دوستوں نے شہر میں رونما ہونے والی نئی کافی شاپس کا تذکرہ کیا اور وقت کی قلت کے باوجود وہ مجھے شب کے گیارہ بارہ بجے ''لوّلائونج‘‘ نامی ایک جدید کافی شاپ میں لے گئے۔
جب ہم اوپر پہنچے تو ایک سنہرے بالوں والی سکارف اور عبایہ سے بے نیاز لڑکی نے خوش آمدید کہا اور کافی کا آرڈر لیا۔ میرے لیے طائف میں یہ منظر خاصا حیران کن تھا۔ میرا خیال تھا کہ اس کا تعلق کسی اور ملک سے ہو گا مگر پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ سعودی عرب ہی کی شہری ہے۔ کچھ باخبر لوگوں سے میں نے پوچھا کہ کیا سعودی عرب میں کوئی کسینو ہے؟ عربی میں اسے کازینو کہتے ہیں۔ اس سوال کا کوئی دوٹوک جواب نہ مل سکا؛ تاہم مختلف جوابوں سے میں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ابھی تک یہاں کوئی باقاعدہ کسینو قائم نہیں ہوا۔ جدہ 2016ء سے کسینو کے قیام پر کام ہو رہا ہے۔ شنید ہے کہ 2023ء تک ایک کسینو ریاض یا جدہ میں قائم کر دیا جائے گا۔ جدہ کے بعض اعلیٰ درجے کے ہوٹلوں میں بغیر شرط کے محض کھیل کے انداز میں کسینو کی بعض گیمز کا اہتمام کیا گیا ہے۔ سعودی عرب کے وژن 2030ء اور نیوم سٹی کے بارے میں پھر کبھی تفصیل سے لکھوں گا۔
جناب خالد المعینا کے برنچ میں نہایت مفید گفتگو ہوئی۔ معینا صاحب دل کی بات سنسر کیے بغیر زبان پر لے آتے ہیں۔ عزیز القدر عامر خورشید ایک کنسلٹنٹ کمپنی کے سی ای او اور نہایت صاحبِ مطالعہ نوجوان ہیں۔ عرب نیوز کے ڈپٹی ایڈیٹر سراج وہاب کی عالمی منظر نامے اور اسلامی دنیا پر گہری نظر ہے۔ میں بھی حسب ِاستطاعت سوالات کرتا رہا، یوں یہ نشست بہت خیال افروز رہی۔
خالد المعینا کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ ''ابراہیمی معاہدات‘‘ کے بارے میں پہلے یہ تاثر تھا کہ سعودی عرب بھی اس کا حصّہ بن جائے گا؛ تاہم سعودی عوام ان معاہدات کو پسند نہیں کرتے۔ اب یہی موقف حکومت کا بھی لگتا ہے کہ جب تک اسرائیل بااختیار فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار نہیں کرتا اس وقت تک اس کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات قائم نہیں ہو سکتے۔
میں نے خالد المعینا کو یاد دلایا کہ برسوں قبل سعودی عرب کے ایک اور انگریزی اخبار سعودی گزٹ میں ایک بلند پرواز والد نے لکھا تھا کہ میں وہ دن دیکھ رہا ہوں کہ جب میں ریاض سے فلائٹ کے ذریعے جدہ پہنچوں گا جہاں میری بیٹی میرا استقبال کرے گی اور گاڑی خود ڈرائیو کر کے مجھے مکۃ المکرمہ لے جائے گی جہاں میں بلدیاتی انتخاب میں اپنا ووٹ کاسٹ کروں گا۔ میرا سوال یہ تھا کہ اس خیالی آرٹیکل کا پہلا حصہ تو حقیقت بن چکا ہے دوسرے حصے کی تکمیل کب ہو گی؟ معینا صاحب نے مختصر جواب دیا :ابھی نہیں۔ سعودیہ‘ یمن جنگ کے بارے میں بھی بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اسے ختم ہو جانا چاہیے اور معاملات دوطرفہ مذاکرات سے حل کیے جائیں۔
میرے عزیز انجینئر محمد عثمان سعودی عرب کی ڈیری پراڈکٹس کی سب سے بڑی کمپنی المراعی میں ملازم ہیں۔ انہوں نے بڑی فکرانگیز باتیں کیں۔ المراعی کے پاس شاید دنیا کا سب سے بڑا ڈیری فارم سعودی عرب کے شہر الخرج میں موجود ہے۔ اس فارم میں اڑھائی لاکھ ڈچ گائیں ہیں۔ دودھ‘ دہی اور لسی وغیرہ میں المراعی کا نام عرب دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ عثمان صاحب نے بتایا کہ ان گائیوں کے لیے چارہ امریکہ کی ریاست ایریزونا سے آتا ہے۔ پاکستانی انجینئر نے اپنی ایک اعلیٰ درجے کی میٹنگ میں یہ تجویز پیش کی کہ اتنی دور سے چارہ منگوانے پر کمپنی زیادہ رقم خرچ کرتی ہے۔ اس کے بجائے اگر وہ پاکستان سے یہ چارہ درآمد کرے تو اس کے اخراجات میں کافی کمی ہو سکتی ہے۔ کمپنی کے ڈائریکٹرز نے عثمان صاحب کی تجویز پر غور و خوض کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
اس وقت سارے عالم اسلام کو اپنے مذہبی و سماجی رویوں میں شدت کی نہیں اعتدال پسندی کی ضرورت ہے۔ تقریباً ایک ہفتہ قبل تہران میں ایک 22 سالہ لڑکی کو سکارف مطلوبہ انداز میں سر پر نہ لینے کی پاداش میں ایران کی ''اخلاقی پولیس‘‘ نے گرفتار کر لیا۔ تین روز کے بعد اس نوجوان بچی کی لاش ملی۔ مذہبی پولیس کے اس ظلم صریح کے خلاف ایران کے مختلف شہروں میں شدید نوعیت کے احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے جن میں اب تک 30 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔مسلم ممالک اسلامی احکامات و اقدار کی طرف اخلاقی پولیس کے ذریعے نہیں وعظ و نصیحت اور حکمت و ملائمت سے راغب کرنے کا طریقِ کار اپنائیں۔ ہم سعودی عرب کے یومِ وطنی پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں