پاکستان میں ٹیچرز ڈے

5اکتوبر ساری دنیا میں ٹیچرز ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس روز مجھے پاکستان اور بیرونِ پاکستان سے اپنے کئی طلبہ و طالبات کے پیغاماتِ عقیدت موصول ہوئے۔ ایک استاد کے لیے وہ لمحات نہایت مسرت انگیز ہوتے ہیں جب برسوں بعد اس کے شاگرد اپنے استاد کو شکرگزاری کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ میرے جو اساتذہ حیات ہیں‘ وہی میرے لیے سرمایۂ حیات ہیں۔ میں نے اپنے استاد گرامی ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کو پہلے ٹیچرز ڈے کا میسج ارسال کیا اور پھر کال کرکے انہیں سلامِ عقیدت و محبت پیش کیا۔
سرشاری کے ان لمحات میں مجھے پولیس کا ایک اعلیٰ افسر یاد آیا کہ جس نے چند سال قبل ٹیچرز ڈے کے موقع پر باوردی پولیس بینڈ کے ساتھ بھابھڑا بازار میں مقیم اپنے ایک پرائمری سکول ٹیچر کو اس شان سے سلامی دی کہ دنیا اَش اَش کر اٹھی۔ بہت عرصے تک یہ ویڈیو صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں گردش کرتی رہی۔ استاد کی عزّت و توقیر کے حوالے سے اس ویڈیو کو بہت سراہا گیا۔
6اکتوبر کی شام کو ٹیلی وژن سکرین پر نظر پڑی تو مسرّت و شادمانی کے لمحات و جذبات گہرے رنج و غم میں بدل گئے۔ یہاں بھی خیبرپختونخوا اسمبلی کے باہر ہزاروں پرائمری اساتذہ کو پشاور پولیس کی طرف سے ''سلامی‘‘ دی جا رہی تھی۔ ذرا ملاحظہ کیجیے کہ سلامی کیسے دی جا رہی تھی۔ پولیس کے جوان پُرامن دھرنا دینے والے اساتذہ پر بہیمانہ و وحشیانہ تشدد کر رہے تھے۔ اُن پر بدترین لاٹھی چارج کیا جا رہا تھا۔ اندھا دھند آنسو گیس کی شیلنگ کی جا رہی تھی۔ تڑاتڑ ہوائی فائرنگ ہو رہی تھی۔ جان بچاتے بھاگتے ہوئے اساتذہ کا یہ ''شیر جوان‘‘ یوں تعاقب کر رہے تھے جیسے شکاری جنگلی جانوروں کا پیچھا کرتے ہیں۔
معلّم کون ہوتا ہے؟ معلم ہمیں حرف شناسی سکھاتا ہے‘ وہ مشتِ خاک کو گوہرِ تابدار بناتا ہے‘ معلم وہ ہوتا ہے جو شاگردوں کے اندر کی روشنی کو باہر لاتا ہے‘ جو لوگوں کو بلندیوں کی راہیں دکھاتا ہے جو دلوں کو سوز و ساز اور ذوق و شوق کی حرارت سے بھر دیتا ہے۔ مختصراً معلم وہ ہوتا ہے جو خود کسی مقصد کا دیوانہ ہوتا ہے اور دوسروں میں بھی ویسی ہی خوبصورت دیوانگی پیدا کر دیتا ہے۔ مجھے پرائمری سکول بھیرہ کے ماسٹر نذیر مرحوم و مغفور اکثر یاد آتے ہیں۔ پانچویں جماعت میں وہ ہمارے استاد بھی تھے‘ سکول کے ہیڈ ماسٹر بھی اور اب سمجھ میں آتا ہے کہ وہ سکول کے کلرک بھی تھے۔وہی کمرہ ہمارا کلاس روم بھی تھا اور اُن کا آفس بھی۔ ہم ٹاٹوں پر قطار اندر قطار بیٹھتے تھے۔ اگرچہ سکول میں کو ایجوکیشن نہ تھی مگر پانچویں کلاس میں عابدہ اور ساجدہ نام کی دو طالبات ہماری ہم جماعت تھیں۔ ماسٹر نذیر گرمیوں میں سفید براق شلوار کُرتا زیبِ تن کرتے اور سردیوں میں نہایت عمدہ قسم کی شیروانی پہنتے تھے۔ گرمی سردی میں وہ سر پر قراقلی ٹوپی رکھتے جو اُن کی شخصیت کو اور بھی باوقار بنا دیتی۔ اُن کا لباس ہی نہیں اخلاق و کردار بھی نہایت اجلا تھا۔ وہ بچوں کے لیے آئیڈیل کی حیثیت رکھتے تھے۔
6 اکتوبر کو میں نے پولیس کے ہاتھوں پشاور میں اساتذہ کو پٹتے اور سڑک پر اوندھے منہ گرتے دیکھا۔ پولیس بسوں میں اساتذہ کو جانوروں کی طرح ٹھونس رہی تھی۔ یہ کربناک مناظر دیکھے تو میں نے سوچا کہ آج خیبر پختونخوا کے ہزاروں پھول سے بچوں کے دِلوں پر کیا قیامت گزری ہو گی جن کے ''آئیڈیلز‘‘ کی یوں سرِعام تذلیل ہو رہی تھی۔ ہم نے صدر آل پرائمری ٹیچرز ایسوسی ایشن عزیز اللہ خان سے پولیس تشدد کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے براہِ راست معلومات کے مطابق جو کچھ بتایا وہ ٹیلی وژن کی چند جھلکیوں سے بہت بڑھ کر ہولناک تھا۔ انہوں نے بتایا کہ خیبر پختونخوا کی تاریخ میں ایسا وحشیانہ تشدد پہلے کبھی نہیں ہوا۔ اس دھرنے میں صوبہ خیبر پختونخوا کے طول و عرض سے تیس‘ پینتیس ہزار ٹیچرز شامل ہوئے۔ عزیز اللہ خان کا کہنا تھا کہ ایک طرف وزیر تعلیم مجھ سمیت میری ٹیم کے ساتھ اپنے دفتر میں مذاکرات کر رہے تھے اور دوسری طرف پولیس نے پُرامن اساتذہ کو سڑکوں پر مار مار کر ادھ مُوا کر دیا۔ آنسو گیس کی موسلا دھار بارش کی گئی۔ ہوائی فائرنگ نہایت خطرناک انداز میں کی گئی۔ پولیس نے بکتربند گاڑی اساتذہ کی سپیکر والی گاڑی پر چڑھا دی۔
میں نے عزیز اللہ خان سے پوچھا کہ آپ کے وہ کون سے ''خوفناک‘‘ مطالبات تھے جنہیں سن کر صوبائی حکومت دہشت زدہ ہو کر تشدد پر اُتر آئی۔ خان صاحب نے بتایا کہ ہمارے مطالبات خوفناک نہیں بلکہ مبنی بر حقیقت و انصاف ہیں۔ ان مطالبات سے کئی بار صوبائی وزرا اور افسران زبانی طور پر اتفاق کر چکے ہیں مگر عملاً ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔ 2018ء سے پہلے پرائمری سکول ٹیچرز کے لیے ایف اے‘ ایف ایس سی تک قابلیت درکار ہوتی تھی۔ ان اساتذہ کو بنیادی سکیل‘ بی پی ایس 12 دیا جاتا تھا۔ 2018ء میں قوانین میں تبدیلی لائی گئی اور پرائمری اساتذہ کے لیے کم از کم قابلیت بی اے‘ بی ایس سی قرار دی گئی۔ اساتذہ کا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ اب ہمیں ایف اے کا سکیل 12نہیں بی اے کا سکیل 15 دیا جائے۔
اساتذہ کا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ 5 سالہ سروس سنیارٹی کے مطابق انہیں گریڈ 16 دیا جائے۔ سنیارٹی کا یہی طریق کار تقریباً ہر صوبے میں موجود ہے سوائے خیبر پختونخوا کے۔ تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ پرائمری سکول کے سربراہ کو ہیڈ ٹیچر کے بجائے ہیڈ ماسٹر کا نام دیا جائے اور اسے تدریس کے علاوہ ساری انتظامی و کلرکانہ خدمات کے عوض 40 روپے ماہانہ الائونس کے بجائے کم از کم معاوضہ 2500 روپے دیا جائے۔ ٹیچرز کا یہ مطالبہ بھی نہایت معقول ہے کہ سنیارٹی کی بنیاد پر گریڈ 15 سے 16 اور پھر 16 سے 17 تک ترقی کا پروسیجر آسان بنایا جائے۔ اساتذہ کرام کو اس بات پر بھی سخت تشویل ہے کہ ہوش ربا مہنگائی کے اس دور میں پنشن میں اضافے کے بجائے کمی کی جا رہی ہے۔ کے پی حکومت کو اساتذہ کرام پر پولیس کے بدترین تشدد پر معافی مانگنی چاہیے۔ حکومت کو اساتذہ کرام کے جائز مطالبات فی الفور تسلیم کرکے نوٹیفکیشن جاری کر دینا چاہیے تاکہ اساتذہ کرام اپنے اپنے تعلیمی اداروں میں واپس جا کر اطمینان و سکون کے ساتھ بچوں کی تعلیم و تربیت کا فریضہ بطریقِ احسن انجام دے سکیں۔
جناب عمران خان اکثر و بیشتر یو کے اور مغرب کو جاننے‘ سمجھنے اور وہاں کے تدریسی و انتظامی اداروں کی حسن کارکردگی کی تعریفوں کے پل باندھتے رہتے ہیں۔ خان صاحب قوم کو جواب دیں کہ کیا وہاں بھی نونہالانِ قوم کے معماروں کے خلاف ایسی ہی درندگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے؟ خیبر پختونخوا حکومت نے پشاور میں اساتذہ کے خلاف وحشیانہ کارروائی کا ٹریلر چلوا کر کیا اسلام آباد کے حکمرانوں کو اشارہ دیا ہے کہ دھرنوں سے نپٹنے کا طریقہ صرف اور صرف تشدد ہے۔ ہمارے نزدیک تشدد جہاں بھی ہو قابلِ مذمت ہے۔ خیبرپختونخوا کے حکمران پشاور میں اساتذہ کو دی جانے والی ''پولیس سلامی‘‘ پر رنجیدۂ خاطر اور شرمسار ہوں یا نہ ہوں مگر میں بحیثیت پاکستانی غمزدہ اور سرنگوں ہوں۔ بقول آغا حسن امانت:
کس طرح امانتؔ نہ ہوں میں غم سے دل گیر
آنکھوں میں پھرا کرتی ہے اُستاد کی صورت
میں دل گرفتہ ہوں اور میری آنکھوں میں خیبر پختونخوا کے مظلوم اساتذہ کی تصویریں پھر رہی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں