دوستوں کو یاد رکھیے

لوگ دیوانِ حافظ سے فال نکالتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں کچھ حساب کتاب لگانا پڑتا ہے مگر بعض اوقات آپ کسی کتاب کے اوراق الٹ پلٹ رہے ہوتے ہیں تو اچانک آپ کو گوہر ِمقصود مل جاتا ہے یا کوئی بڑی حیران کن بات سامنے آ جاتی ہے۔
میں گزشتہ روز ایک کتاب پر سرسری نظر ڈال رہا تھا کہ اچانک ایک بات نے مجھے چونکا دیا۔ پڑھ کر معلوم ہوا کہ حقِ دوستی جیتے جی ہی نہیں مرنے کے بعد بھی نبھانا پڑتا ہے۔ فاضل مصنف نے اس کی جو تفصیل بتائی ہے اس کا تو بعد میں تذکرہ کرتا ہوں۔ تاہم دوستی کا حق ادا کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ بیدل کا خوبصورت فارسی شعر نوکِ زباں پر آ گیا ہے۔
بہ دل گفتم کدامین شیوہ دشوار است در عالم
نفس در خون تپید و گفت پاس آشنائی ہا
میں نے دل سے پوچھا کہ کون سا کام انجام دینا بہت دشوار ہے۔ میرا دل لہو سے بھر گیا اور اس نے کہا کہ دوستی کا حق ادا کرنا سب سے مشکل کام ہے۔ یہ فقیر اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اسے زندگی میں نہایت مخلص دوست ملے۔ سرگودھا سکول کے زمانے کے تین دوست سید فاروق گیلانی‘ حافظ محمد سعید اور ڈاکٹر سجاد حسین تھے۔ فاروق ہم سب میں سب سے زیادہ صاحبِ مطالعہ تھے‘ وہ ایڈیشنل سیکرٹری فنانس کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ حافظ محمد سعید اردو شعر و ادب کی ہر کتاب خریدتے۔ اسے دلجمعی سے پڑھتے اور ہمارے ساتھ شیئر بھی کرتے۔ وہ شورش کاشمیری کے رنگ میں لکھتے اور بہت خوب لکھتے۔ حافظ صاحب بعدازاں سرگودھا شہر کے بہت بڑے تاجر بن گئے۔ ہمارے تیسرے دوست ڈاکٹر سجاد حسین نے لاہور میں ایک ممتاز یورالوجسٹ کی حیثیت بہت شہرت حاصل کی۔ وہ میو ہسپتال‘ لاہور جنرل ہسپتال اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں اعلیٰ ترین مناصب پر فائز رہے۔ ان تینوں دوستوں نے اگلے جہان جانے میں بہت جلدی کی اور ملک الموت سے کچھ مزید مہلت کے لیے کوئی تقاضا نہ کیا۔ ان بے تکلف دوستوں کے دوسری دنیا میں جانے کے بعد ہمارا جو حال ہے اسے میاں محمد بخش نے یوں بیان کیا تھا:
یاراں باجھ محمد بخشا کون کرے غمخواری
اوپر سکول کے زمانے کے دوستوں کا تذکرہ کیا ہے‘ بعدازاں زندگی کے ہر مرحلے پر نہایت مخلص دوست ملتے رہے۔ یہ دوست آج کی نامور شخصیات ہیں اور اپنی ناموری کے باوجود اسی اخلاص کے ساتھ حق دوستی نبھا رہے ہیں۔ یہ حضرات ناصح نہیں بلکہ غمگسار و غمخوار ہیں۔ زندگی کی خوش کن محفلیں دوستوں کے ہی وجود سے شاد اور آباد ہیں جس کتاب کا میں نے آغاز میں تذکرہ کیا تھا وہ ڈاکٹر صفدر محمود کی کتاب ''بصیرت‘‘ ہے۔ ڈاکٹر صاحب میرے نہایت واجب الاحترام سینئر دوست تھے اور میرے ساتھ بڑی شفقت و محبت سے پیش آتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم جامع صفات شخصیت تھے۔ وہ ایک نیک نام اعلیٰ سرکاری افسر بھی تھے‘ محقق بھی تھے‘ مؤرخ بھی تھے‘ برِصغیر پاک و ہند کی سیاسی تاریخ پر اُن کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور وہ ایک مجاہد کالم نگار بھی تھے۔ وہ پاکستان اور بانیٔ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کے خلاف تیغ برّاں تھے۔ کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ وہ ایک ایسے صوفی تھے کہ جو بقول مرشد اقبال:
اگرچہ سر نہ تراشد قلندری داند
کتاب ''بصیرت‘‘ میں شامل ان کے ایک مضمون کا عنوان ہے:
شام پئی بن شام محمد تے گھر جاندی نے ڈرنا
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں: ''نیک اعمال والوں کے لیے یہ محض سفر ہے۔ ایک دنیا سے دوسری دنیا منتقلی ہے‘ اس جہان سے دوسرے جہان میں۔ اس خیال کے آتے ہی مجھے ایک ممتاز کارڈیالوجسٹ اور غیرممالک سے سند یافتہ ڈاکٹر صاحب یاد آئے۔ جن کا ظاہر ایک ڈاکٹر اور باطن ایک صوفی کا ہے۔ یہ شخص شب بیدا اور عابد و زاہد ہے۔ وہ گزشتہ 25 برس سے قرآن مجید کے مطالعے میں غرق ہیں۔ قرآن حکیم کے حوالے سے اُن کی تین انگریزی کتابیں امریکہ میں چھپی ہیں۔ میری خوش قسمتی کہ وہ مجھ سے ملنے تشریف لائے۔ انہوں نے مجھے اپنے چند ایک روحانی تجربات سنائے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ پی آئی اے کا ایک پائلٹ میرا دوست تھا۔ کئی برس قبل اس کا انتقال ہو گیا۔ میں اس کے لیے کچھ عرصہ روزانہ دعا کرتا مگر پھر یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ ایک روز میں ہسپتال میں اپنے دفتر میں تنہا بیٹھا تھا تو اچانک دروازہ کھلا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میرا پائلٹ دوست جو دس برس پہلے اس دنیائے فانی سے کوچ کر گیا تھا‘ اندر داخل ہوا۔ وہ میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا:
'' یار تم نے میرے لیے دعا کرنی کیوں چھوڑ دی‘‘
میں نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کیسے علم ہوا۔ اس نے جواب دیا ''دوست‘ جن کے لیے دعا ہوتی ہے اُن کا نام لے کر وہاں باقاعدہ اعلان کیا جاتا ہے‘‘ میں نے کہا کہ ان شاء اللہ پہلے کی مانند تمہارے لیے ہمیشہ دعا کروں گا۔
ڈاکٹر صفدر محمود کی کتاب میں یہ واقعہ پڑھ کر مجھ پر کپکپی طاری ہو گئی۔ میں نے اسے اپنے لیے ایک غیبی اشارہ سمجھا۔ تقریباً ایک سال قبل ڈاکٹر صاحب کے اس دارِ فانی سے رخصت ہونے کے بعد میں دوسرے مرحومین کے علاوہ اُن کے لیے بھی کافی عرصہ دعا کرتا رہا۔ پھر میں ڈاکٹر صاحب کا نام لینا بھول گیا۔ میں نے فوری طور پر ایک بار پھر ڈاکٹر صفدر محمود کے لیے تلاوت کے بعد دعا کرنا شروع کر دی۔ اسی طرح دوسری نگری کے جن باسیوں کو میں بھول گیا اُن کے لیے بھی دعا کا اہتمام جاری ہو گیا۔
دوستی ایک یونیورسل جذبہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دوستی کی اعلیٰ روایات صرف مشرق میں ہیں‘ مغرب ان اقدار سے محروم ہے۔ ایسا ہرگز نہیں۔ قدیم مغرب میں ہی نہیں آج کی جدید مادی مغربی دنیا میں بھی دوستی کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ البرٹ کامس نے دوستی کی کیا خوبصورت تعریف کی ہے کہ: ''دوستی ایک ہی روح ہے جو دو جسموں میں آباد ہوتی ہے‘‘۔ فریڈرک نطشے نے کیا لطیف بات لکھی ہے:
Love is blind, but friendship closes its eyes
یعنی محبت اندھی ہوتی ہے۔ اس لیے وہ محبوب کے عیوب کو دیکھ ہی نہیں پاتی جبکہ دوست اپنے دوست کے عیوب کو دیکھتا تو ہے مگر چشم پوشی سے کام لیتا ہے اور عیب جوئی نہیں کرتا۔چند سال پہلے میں امریکہ کے خوبصورت شہر پٹس برگ کی ایک بک شاپ میں کتابیں دیکھ رہا تھا کہ اچانک میری نظر ایک کتاب پر ٹھہر گئی۔ کتاب کے ٹائٹل کا ترجمہ یوں تھا: ''زندگی بھر کے دوست: دوستی کی اہمیت پر ممتاز رائٹرز کی لازوال تحریریں‘‘۔ اس کتاب میں باربرا جے ہال لکھتی ہیں: مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ ہم پہلی بار کب ملے تھے البتہ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم ہمیشہ سے ایک دوسرے کی زندگی کا حصہ تھے۔ ہمیں معلوم ہے کہ دوستی وہ جگہ ہے جہاں ہم خوشی کی خبروں‘ بوجھل دل کے غموں‘ امیدوں‘ خوابوں اور مستقبل کے منصوبوں کو بلاجھجک شیئر کر سکتے ہیں۔ڈاکٹر صفدر محمود نے یہ لطیف نکتہ بیان کیا ہے کہ موت بس اس دنیا سے اُس دنیا میں جا کر آباد ہونے کا نام ہے۔ اُن کے صوفی دوست نے یہ پتے کی بات بھی بتائی ہے کہ دوسری دنیا کے باسیوں کو دوستوں کی طرف سے دعا کا بہت انتظار رہتا ہے۔ ہمیں اُس دنیا میں جا کر آباد ہونے والے اپنے پیاروں اور دوستوں کو یاد رکھنا چاہیے اور تسلسل کے ساتھ انہیں ہدیۂ دعا بھیجتے رہنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں