صدر عارف علوی کی باتیں

گورنر ہائوس لاہور میں جن سینئر صحافیوں نے صدر ڈاکٹر عارف علوی سے ملاقات کی ان میں یہ فقیر بھی شامل تھا۔ عارف علوی وسیع المطالعہ شخصیت ہیں اُن کا استحضارِ علمی بھی خاصا حیران کن ہے۔ وہ اپنے زیرِمطالعہ آنے والی کتابوں سے روانی کے ساتھ حوالے دیتے رہے۔ اُن کی فکرانگیز باتوں سے عیاں تھا کہ وہ دلِ دردمند رکھتے ہیں۔ ملکی حالات کے بارے میں وہ بھی اتنے ہی فکر مند دکھائی دیے جتنے میں اور آپ۔
صدر عارف علوی کی سیاسی باتوں سے زیادہ مجھے اُن کی فکری گفتگو نے بہت انسپائر کیا۔ ان ''فکری باتوں‘‘ کو اخباری سرخیوں میں کوئی نمایاں اہمیت نہ مل سکی ان لیے میں نے سوچا کہ پہلے آپ سے غیرسیاسی باتیں شیئر کی جائیں اور پھر اگر کالم کی وسعت اجازت دے تو صدر صاحب کی سیاسی باتوں پر بھی گفتگو کر لی جائے۔
صدر صاحب نے کہا کہ آج کی دنیا میں پرائیویسی نام کی کوئی چیز نہیں‘ ہر کوئی دوسرے کی ٹوہ میں رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرائیویسی انسان کابنیادی حق ہے۔ صدر صاحب کے خیال میں گوگل اور اس طرح کی دیگر تراکیب کے ذریعے ہر فرد کی معلومات اس کی دسترس سے نکل کر دوسروں کے ہاتھ میں چلی جاتی ہیں۔ انہوں نے صراحتاً کہا کہ یہ صرف افراد کا ہی نہیں اقوام کا بھی یہی معاملہ ہے۔
آج کے دور میں جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے ترقی یافتہ ممالک نہ صرف تیسری دنیا کے بارے میں بلکہ آپس میں بھی ایک دوسرے کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے میں شب و روز تگ و دو کرتے رہتے ہیں۔ صدر صاحب کا یہ کہنا تھا کہ کم از کم ہمیں پاکستان میں ایک دوسرے کی پرائیویسی کا احترام کرنا چاہیے۔
انہوں نے پرائیویسی کے حق کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے خلیفۂ دوم حضرت عمرؓ بن خطاب کے دورِ خلافت میں پیش آنے والے واقعے کی طرف مختصراً اشارہ کیا۔ یہ واقعہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ تاریخِ طبری میں مذکور ہے کہ ایک شب مدینہ میں حضرت عمرؓ ایک جلیل القدر صحابی حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کے ساتھ حفاظتی گشت کے لیے نکلے۔ حضرت عمرؓ نے دور کہیں چراغ جلتا ہوا دیکھا تو وہاں پہنچے۔ انہوں نے سوتے ہوئے چراغ کو جلتا چھوڑنے سے منع کیا تھا کیونکہ اس سے آگ لگنے کا اندیشہ ہوتا تھا۔ وہاں پہنچے تو انہوں نے اندر جھانک کر دیکھا تو کچھ لوگ شراب پی رہے تھے۔ آپ نے ایک شخص کو پہچان لیا۔ اگلے روز آپ نے اسے طلب کیا اور اس پر شراب نوشی کی فردِ جرم سنائی تو اس نے کہا کہ امیر المومنین آپ کو کیسے علم ہوا؟ حضرت عمرؓ نے کہا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اس شخص نے کہا :کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اللہ نے قرآن میں ٹوہ لگانے سے منع کیا ہے؟ یہ سن کر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تو نے سچ کہا اور اسے چھوڑ دیا۔
آج امریکہ میں کئی تھنک ٹینک اور تحقیقی ادارے پرائیویسی کے موضوع پر مضامین و مقالات پیش کر رہے ہیں۔ اس ریسرچ کے مطابق انفرادی‘ معاشرتی‘ سیاسی اور معاشی پرائیویسی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اس حق کو جدید آلات بے رحمی سے کچل رہے ہیں۔ امریکی ماہرین و محققین کا کہنا ہے کہ ہم میں سے کسی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ ڈیٹا ان تیز ترین آلات کے ذریعے دوسروں تک جا رہا ہے۔ اگر اس رجحان کو نئی قانون سازی اور نئے عمرانی معاہدوں کے ذریعے نہ روکا گیا تو نہ صرف ہماری انفرادی زندگی تباہی سے دوچار ہو گی بلکہ سیاست‘ معاشرت اور معیشت کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔
ڈاکٹر عارف علوی کی ڈکشن ہماری تہذیبی روایات اور مذہبی تعلیمات کی عکاس ہے۔ وہ اپنی گفتگو میں جابجا اسلامی تاریخ سے حوالے دیتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا ایک طرح سے غیبت کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ صدر صاحب نے اس قرآنی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب کوئی فاسق شخص آپ کے پاس خبر لائے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں یہ خبر غلط ثابت ہو اور تمہیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہم کسی خبر کی کوئی تحقیق نہیں کرتے۔ اگر وہ ہمارے سیاسی مؤقف کی حمایت میں ہوتی ہے تو ہم اگلے لمحے درجنوں اور کہیں سینکڑوں لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں۔
صدر صاحب دورانِ گفتگو بے تکلفی سے کام لیتے رہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ سیاسی مذاکرات کے لیے ان کی کوششیں بار آور ثابت نہیں ہوئیں۔ صدر عارف علوی نے کہا کہ گھر کے دس پندرہ بندوں کو باہمی رنجشیں دور کرنے پر قائل کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ لوگ دس دس برس پرانی بات یاد رکھتے ہیں۔ وہ ماضی بھلانے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ یہی صورتحال سیاسی جماعتوں کی ہے۔ صدر صاحب نے تسلیم کیا کہ انتخابات کا راستہ نکالنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی۔ان کا کہنا تھاکہ آئین آرمی چیف کی تعیناتی پر کسی مشاورت کی اجازت نہیں دیتا تاہم مشاورت کی لی جائے تو مضائقہ نہیں۔
صدر صاحب کو باور کرایا گیا کہ اگر اس طرح ماورائے آئین کسی نئی رسم کو رواج دیا گیا تو یہ مستقبل میں بے حد پیچیدگیوں کا باعث ہو سکتی ہے نیز اس طرز عمل کی ہر گز حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہیے کہ ''عوامی دبائو‘‘ ڈال کر جب چاہو اور جو چاہو اسے منوا لو۔ اس طرح سے تو آئین بازیچۂ اطفال بن جائے گا۔ صدر صاحب کو اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ اپنے گزشتہ کالم ''کرکٹ سے سیاست تک‘‘ میں عرض کیا تھا کہ جناب عمران خان نے صحافیوں کے ساتھ ایک گفتگو میں تقریباً ایک ہفتہ قبل تسلیم کیا تھا کہ آرمی چیف کی تعیناتی وزیراعظم شہباز شریف کا استحقاق ہے جو بھی آرمی چیف آئے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں۔
اس دوٹوک بیان کے صرف دو روز بعد ہی عمران خان نے وہی پرانی گردان شروع کر دی کہ ''چوروں اور ڈاکوئوں‘‘ کو اتنی بڑی تعیناتی کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ میں صدر عارف علوی کے حوصلے کی داد دیتا ہوں کہ انہوں نے یہ جانتے بوجھتے کہ اُن کا دوست اور لیڈر اپنے مؤقف اور اپنے عوامی بیان کو کسی وقت بھی بدل سکتا ہے پھر بھی سلسلۂ مذاکرات کو آگے بڑھانے کا رسک لیتے رہے ہیں۔ صدر صاحب کی یہ آبزرویشن بھی قابلِ قدر ہے کہ نیب قانون کا سیاسی استعمال غلط تھا۔
میری گزارش یہ ہے کہ جناب صدر حکومتی پارٹیوں کے زعمائے کرام اور اپوزیشن رہنمائوں بالخصوص جناب عمران خان کو یہ باور کرائیں کہ عرب دنیا کا بہت بڑا دانشور طبقہ پاکستان کی جمہوریت اور آزادیٔ تحریر و تقریر کو رشک بھری نظروں سے دیکھتا ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں جمہوریت کی نعمت حاصل ہے۔ مگر یہاں سیاست دان ہر چند برس کے بعد اپنی چپقلش سے جمہوریت کا بوریا بستر گول کروا دیتے ہیں اور ملک میں آمریت کا راستہ ہموار کر دیتے ہیں۔ صدر صاحب تمام سیاست دانوں کو قائل کریں کہ وہ آئینی حدود کے اندر رہیں اور ہر حال میں جمہوریت کو گزندپہنچانے سے گریز کریں۔ایک اور بڑی اہم بات ہے کہ سیاست دانوں کے حامیوں نے اپنے ملک میں ہی نہیں دیارِ غیر میں بھی اپنے مخالف لیڈروں کے خلاف گلی کوچوں‘ پارکوں اور عدالتوں وغیرہ میں چور چور اور ڈاکو ڈاکو کے آوازے کسنے کو اپنا وتیرہ بنا لیا ہے۔ اس غیر مہذب اور غیر شائستہ کلچر سے بیرونی ممالک میں پاکستان کی رسوائی اور جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف طوفانِ بدتمیزی برپا ہے۔ صدر عارف علوی یہ سلسلہ فی الفور رکوائیں اور جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچا لیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں