پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کا مستقبل

جسے انہونی سمجھا جا رہا تھا وہ ہو کر رہی۔ پنجاب اسمبلی کو وزیراعلیٰ پرویز الٰہی توڑنا چاہتے تھے اور نہ اراکینِ اسمبلی ایسا چاہتے تھے۔ پنجاب کی سابق حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) بھی پنجاب اسمبلی کی برخاستگی نہیں چاہتی تھی مگر ''تقدیر‘‘ کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے۔ ہفتے کی شب دستوری تقاضے کے مطابق گورنر پنجاب جناب بلیغ الرحمن کے دستخط نہ کرنے کے باوجود پنجاب اسمبلی از خود ''ٹُٹ گئی تڑک کرکے‘‘۔
اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کی عدم دلچسپی یا حالات کے دھارے میں خود سپردگی بڑی حیران کن تھی۔ پنجاب میں سابق وزیراعلیٰ حمزہ شہباز لندن میں تھے۔ وزیراعظم شہباز شریف آئی سی یو میں پڑی معیشت کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔ اسی حوالے سے وہ غیرملکی دوروں پر تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے سپریم لیڈر میاں نواز شریف بھی لندن میں براجمان تھے۔ چودھری پرویز الٰہی نے جس دِقت اور محنت سے 186ووٹ پورے کیے اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے کوئی ہوم ورک نہیں کیا تھا۔اگر وہ سنجیدگی سے کوشش کرتے تو شاید بازی پلٹ بھی سکتے تھے۔
بہرحال اب سب آنکھیں پنجاب پر لگی ہوئی ہیں۔ اب یہاں دستوری پابندی کے مطابق 90 روز کے اندر اندر پنجاب اسمبلی کا انتخاب کرانا ہوگا۔ پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ پاکستان کی کل 22 کروڑ آبادی میں سے 12کروڑ سے زائد عوام پنجاب میں بستے ہیں۔ پاکستان کے کل رجسٹرڈ ووٹوں میں 58 فیصد پنجاب‘ 21 فیصد سندھ‘ 17 فیصد خیبر پختونخوا اور صرف چارفیصد بلوچستان میں پائے جاتے ہیں۔ 2018ء کے مقابلے میں 2022ء میں ایک کروڑ 60 لاکھ نئے ووٹرز رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ ینگ ووٹرز میں سے ایک کروڑ کا تعلق پنجاب سے ہے۔ ان ووٹرز کی اکثریت سوشل میڈیا ٹرینڈز سے بہت متاثر ہوتی ہے۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ مسلم لیگ (ن) کا پنجاب میں ایک بڑا ووٹ بینک ابھی تک موجود ہے۔ یہ بھی حقیقت اپنی جگہ اظہر من الشمس ہے کہ جب طبلِ انتخاب بجے گا تو نئی صف بندیاں سامنے آئیں گی۔ ماضی میں سینٹرل اور جنوبی پنجاب کی جہانگیر ترین اور علیم خان جیسی بعض اہم شخصیات اب عمران خان کے پیچھے صف بستہ نہیں ہوں گی بلکہ کہیں اور اپنا بسیرا کریں گی یا پھر کسی نئی آشیاں بندی کا آئیڈیا لے کر سامنے آئیں گی۔اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں پی ٹی آئی کی اکثریت دکھائی دے رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے لیے سب سے بڑا چیلنج کہیں اور سے آس امید لگانے والے اپنے امیدواروں اور ووٹروں کی اپنے کیمپ میں واپسی ہے۔ پاکستان کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ مقتدرہ کی مدد و تعاون سے جب کوئی لیڈر اپنی محنت اور کرشماتی شخصیت سے عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کر لیتا ہے اور اُن کے دلوں میں گھر کر لیتا ہے تو پھر اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا آسان نہیں ہوتا۔
اب مسلم لیگ (ن) کے حامیوں نے اپنی ساری امیدیں پارٹی کی نئی سینئر وائس پریذیڈنٹ اور چیف آرگنائزر مریم نواز سے باندھ رکھی ہیں۔ تاہم حالات کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے جہاندیدہ اور گرم و سرد چشیدہ بزرگ تجزیہ کاروں کا کہنا یہ ہے کہ انتخابی مہم کی جب تک میاں نواز شریف خود قیادت نہیں کریں گے اور پنجاب کے شہر شہر اور قریہ قریہ نہیں جائیں گے‘ اس وقت تک انہیں اپنی متاعِ گم گشتہ واپس ملنے کے روشن امکانات دکھائی نہیں دیتے۔ محترمہ مریم نواز صاحبہ کا کہنا یہ ہے کہ وہ اپنی پارٹی کی ہر سطح پر ترتیبِ نو کریں گی۔ پارٹی کی مقامی قیادت میں بھی مناسب تبدیلیاں لائیں گی۔ پارٹی کی سینئر آرگنائزر کا کہنا ہے کہ وہ انتخابی مہم میں جدید ترین تکنیک استعمال کریں گی۔ یقینا اس تکنیک سے اُن کی مراد سوشل میڈیا کا زیادہ سے زیادہ استعمال ہوگا۔ تاہم محترمہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ روایتی ڈور ٹو ڈور انتخابی مہم اپنی جگہ نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ امیدوار جب کسی ووٹر کے گھر بنفسِ نفیس چلا جاتا ہے اور ووٹ کے حصول کے لیے دستِ سوال بڑھاتا ہے تو عموماً پنجاب کی روایات کے مطابق گھر آئے مہمان کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا جاتا۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہیں مگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ پارٹی اپنے امیدواروں اور ووٹروں کے بوسیدہ اور لرزیدہ یقین کو ایک بار پھر یقینِ محکم میں کیسے بدلتی ہے۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کر آئے ہیں یہ کام میاں نواز شریف کے بنفسِ نفیس وطن واپسی کے بغیر انجام نہیں پا سکتا۔
میاں نواز شریف کو یقینا اس بات کا بھی اندازہ ہوگا کہ بندۂ مزدور و مجبور نہیں‘ اس وقت پاکستان کے بندۂ سفید پوش حتیٰ کہ نیم متوسط کلاس سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے بھی اوقات تلخ ہی نہیں تلخ ترین ہیں۔ مناسب و متوازن خوراک تو خواب و خیال ہو چکی ہے۔ اشیائے اکل و شرب کی قیمتیں اتنی بلند ہو گئی ہیں جو ایک ڈیڑھ کروڑ کے بالائی طبقے کو چھوڑ کر باقی سب طبقات کی پہنچ سے اوپر جا چکی ہیں۔ زندگی بچانے والی ادویات کے لیے بھی زرِمبادلہ فراہم نہیں کیا جا رہا۔ مال سے بھرے ہزاروں کنٹینرز کراچی بندرگاہ پر پڑے ہیں۔ میاں نواز شریف نے معیشت کے جس پرانے کھلاڑی کو وزارتِ خزانہ کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے انگلستان سے واپس وطن بھیجا تھا وہ نیب میں اپنے مقدمات ختم کرانے اور اپنی مقبوضہ پراپرٹی کو واگزار کرانے میں تو کامیاب ہو گئے ہیں مگر وہ ڈالر کی اڑان کو روک سکے اور نہ ہی عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالنے والی قیمتوں کو نیچے لا سکے ہیں۔
ادھر پی ٹی آئی کے لیے بھی یہ ایک چیلنج سے کم نہیں کہ انہوں نے پنجاب میں اپنے دورِ حکومت کے دوران ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی جسے اب وہ برقرار رکھ پائیں گے یا نہیں؟ پی ٹی آئی کو ایک سہولت یہ حاصل ہے کہ پارٹی چیئرمین وطن میں رہ کر اور دم توڑتی معیشت سے بے نیاز ہو کر ہر وقت وہ کچھ کہتے اور دہراتے رہتے ہیں جسے عوام سننا پسند کرتے ہیں۔ خان صاحب کی باتیں حقیقت سے کتنی دور ہی کیوں نہ ہوں مگر لوگ اس وقتی تھراپی سے ایک گونا سکون محسوس کرتے ہیں۔میاں نواز شریف کو معلوم ہونا چاہیے کہ سیاست ایک ہمہ وقتی کام ہے‘ جزوقتی نہیں۔ میاں شہباز شریف شب و روز بھاگ دوڑ کرتے دکھائی تو دیتے ہیں مگر لوگ ان کی بات پر کان نہیں دھرتے۔ وزیراعظم کے سامنے متعدد و متفرق جماعتوں کو اکٹھا رکھنا‘ اُن کے مطالبات سننا اور اُن کے تحفظات کو دور کرنا بھی ان کے کاموں میں شامل ہے۔ ملک کو ڈیفالٹ سے بچانا‘ بنیادی اشیا کی قیمتوں کو خوفناک حد تک پہنچنے نہ دینا اور سفارتی محاذ پر متحرک ہونا بھی ایک ہمہ وقتی کام ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) میاں نواز شریف کی قیادت میں جب تک ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ اپنی انتخابی مہم کا آغاز نہیں کرے گی اس وقت تک اس کی کامیابی کے بارے میں کوئی مثبت پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ اگلے چند روز میں مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم کے خدوخال واضح ہو جائیں گے تو پھر پنجاب کی سابق حکمران جماعت کی کامیابی کے بارے میں کوئی حتمی رائے دینا ممکن ہو سکے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں