جناب سراج الحق کی مفاہمتی ملاقاتیں

تقریباً دو ہفتے قبل انہی صفحات پر میرا کالم ''قومی مفاہمت کا راستہ‘‘ شائع ہوا تو اس پر اندرون و بیرونِ ملک سے کئی قارئین نے تبصرہ کیا۔ قارئین کی ایک بڑی تعداد نے رائے دی کہ یہ کالم نگار امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق سے رابطہ قائم کرکے اُن سے درخواست کرے کہ وہ وزیراعظم شہباز شریف اور تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان کوقائل کریں کہ سیاست دانوں کو باہمی گفت و شنید اور بات چیت سے کوئی ایسا پائیدار درمیانی راستہ نکالنا چاہیے کہ جس سے ڈیڈ لاک کا خاتمہ ہو اور اس تاثر کا ازالہ ہو کہ جمہوریت کی گاڑی ٹریک سے اتری کہ اتری۔
میں نے اپنے قارئین کی خواہش محترم سراج الحق تک پہنچائی اور عرض کیا کہ وہ مفاہمتی ملاقاتیں کریں اور فریقین کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے آمادہ کریں۔ اگرچہ فوری طور پر سراج الحق صاحب کے اس تجویز کے بارے میں کچھ تحفظات تھے مگر انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ اہلِ درد کی خواہش پر مشاورت فرمائیں گے۔ 15اپریل بروز ہفتہ میڈیا سے معلوم ہوا کہ جناب سراج الحق‘ نائب امیر جماعت اسلامی جناب لیاقت بلوچ اور محترم امیر العظیم سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی کے ہمراہ پہلے وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف اور پھر چیئرمین تحریک انصاف عمران خان سے ملے۔
ان ملاقاتوں کے بارے میں میڈیا پر جو مختصر خبریں آئیں‘ ان میں تشنگی تھی۔ میں نے مناسب یہی سمجھا کہ ملاقات کرنے والوں سے براہِ راست معلوم کیا جائے کہ جانبین کا مذاکرات کے حوالے سے کیا مؤقف تھا۔ میں نے ہفتہ کے روز ہی جناب سراج الحق صاحب سے فون پر بات کی۔ سراج الحق صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ہم نے آپ کی تجویز کے مطابق سیاسی قائدین سے ملاقاتوں کا آغاز کر دیا ہے‘ محترم میاں شہباز شریف نے تپاک سے ہمارا خیرمقدم کیا اور سیاستدانوں کے باہمی مذاکرات کے بارے میں ہماری تجویز سے خوش دلی کے ساتھ اتفاق کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگرچہ حکومتی اتحاد میں بعض قائدین خان صاحب کے ساتھ ملاقات کرنے کے حق میں نہیں مگر مجموعی طور پر ہم موجودہ پیچیدہ صورتحال کا ایک ہی حل سمجھتے ہیں اور وہ ہے افہام و تفہیم اور ہارٹ ٹو ہارٹ بات چیت۔
سراج الحق صاحب نے جناب عمران خان سے ملاقات کا احوال بھی بتایا کہ خان صاحب بھی گرمجوشی سے ملے اور انہوں نے ہماری آمد پر شکریہ ادا کیا۔ محترم سراج الحق صاحب نے خان صاحب سے کہا کہ نوے دنوں کے بجائے اب تو ویسے ہی انتخابات کے انعقاد میں 120دن ہو جائیں گے؛ تاہم اس نکتے کو اچھی طرح سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ انتخابات صاف اور شفاف ہونے چاہئیں اور جب اُن کے نتائج سامنے آئیں تو ہر کوئی انہیں دل و جان سے تسلیم کر لے۔ خان صاحب نے سراج الحق صاحب کے نکتے کے ساتھ اتفاق کیا۔ جناب سراج الحق نے یہ رائے بھی دی کہ اگر تمام انتخابات ایک ہی روز نہیں ہوتے تو پھر طرح طرح کی پیچیدگیاں اور بدگمانیاں سر اٹھائیں گی اور ہارنے والی پارٹیاں نتائج کو تسلیم نہیں کریں گی۔ اگر پہلے سے مستقل صوبائی حکومتیں قائم ہوں گی تو پھر دھاندلی ہو یا نہ ہو مگر ان جماعتوں کو انتخابات کی شفافیت پر انگلی اٹھانے کا بہانہ مل جائے گا جن کی پنجاب اور کے پی میں حکومتیں نہیں ہوں گی۔ جناب عمران خان نے حکومت کے اپوزیشن کُش رویے کے بارے میں اپنی شکایات کے باوجود سیاسی جماعتوں کے مذاکرات کے سلسلے میں اصولی طور پر اتفاق کیا۔
جناب عمران خان اس وقت عوامی مقبولیت کی معراج پر ہیں؛ تاہم اگر خان صاحب حکمت و دانش کے سا تھ اس عوامی مقبولیت کو انتخابات کے ذریعے کیش نہ کرا سکے اور دوبارہ اپنی وفاقی و صوبائی حکومتیں قائم نہ کروا سکے تو پھر اس مقبولیت کا کیا فائدہ۔ اگر خدانخواستہ اناؤں کے باہمی ٹکراؤ کے نتیجے میں ملک میں کوئی ناخوشگوار صورت حال جنم لے لیتی ہے اور جلد یا بدیر انتخاب کا دروازہ ہی بند ہو جاتا ہے تو پھر خان صاحب سمیت سب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
ہفتے کے روز ہی سابق گورنر پنجاب جناب چودھری محمد سرور نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ خان صاحب یقینا ایک بہت بڑے لیڈر ہیں مگر وہ کسی سے مشورہ نہیں کرتے۔ چودھری صاحب کے بقول قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کے ممبران کی اکثریت مستعفی نہیں ہونا چاہتی تھی مگر خان صاحب نے کسی کی ایک نہ سنی اور اپنے ممبران سے با اصرار استعفے دلوائے۔ اسی طرح چودھری پرویز الٰہی کے مطابق پنجاب اسمبلی کے 95فیصد ممبرانِ اسمبلی نہیں توڑنا چاہتے تھے مگر خان صاحب کے سامنے کسی پی ٹی آئی رکنِ اسمبلی کی کوئی پیش نہ چلی اور خان صاحب نے اسمبلی توڑ دی۔ سیاسی جماعتوں میں مشاورت کے عمل پر وسیع النظری اور دور اندیشی پیدا ہوتی ہے۔ انفرادی دانش اجتماعی دانش کے مقابلے میں یقینا محدود ہوتی ہے۔ہفتہ کے روز ہی ایک پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمن نے عمران خان کے ساتھ مذاکرات کو بعید از قیاس قرار دیا۔ حکومتی ذرائع سے بھی ایسی ہی خبریں سامنے آئی ہیں کہ میاں شہباز شریف اور جناب آصف علی زرداری سیاسی ڈائیلاگ کے حق میں ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمن اس کے مخالف ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو ہم جانتے ہیں‘ وہ تو منطق و استدلال کے ساتھ گفتگو کرتے تھے۔ مولانا کی سابقہ سیاسی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ وہ سیاسی معاملات کے بارے میں ہمیشہ لچکدار طرزِ عمل اختیار کرتے رہے ہیں۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اب مولانا صاحب مذاکرات کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟
قرآن پاک کی سورۃ الحجرات کی آیت نمبر9 اور 10کا مفہوم یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو دیگر مسلمانوں کیلئے حکم یہ ہے کہ اُن کے مابین عدل و انصاف کے ساتھ صلح کرا دی جائے۔ جناب سراج الحق نے حکمِ ربانی کی پیروی بھی کی اور ملک کو کسی بھیانک انجام سے بچانے کے لیے دو بڑی پارٹیوں کے درمیان گفت و شنید کے لیے سازگار فضا پیدا کرنے کے خوشگوار عمل کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر نے صلح اور مفاہمت کے عملِ خیر میں جو سبقت حاصل کی ہے‘ اسے آگے بڑھنا چاہیے۔ جماعت اسلامی پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی سے گزارش کرے کہ وہ اگلے دو ہفتوں کے لیے سیز فائر سے کام لیں۔ حکومت پی ٹی آئی کے قائدین کے خلاف مقدمات قائم کرنے کا سلسلہ روک دے۔ کراچی میں ایک سابق وزیر اور سابق رکنِ قومی اسمبلی کو جس اہانت آمیز طریقے سے دھکے دے کر گاڑی میں پھینکا گیا‘ یہ رویہ قابلِ مذمت ہے۔ اگر مذاکرات کرنے ہیں تو حکومت کو یہ سلسلہ بند کرنا ہوگا۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں‘ چاہے وہ حکومت میں ہوں یا حکومت سے باہر‘ انتخابات بیک وقت ہی کرانے کے حق میں ہیں۔ اگر جناب عمران خان اپنے قائدین کے ساتھ آزادانہ مشاورت کریں گے تو انہیں معلوم ہوگا کہ اُن کی جماعت کے اکثر قائدین و ذمہ داران الگ الگ نہیں‘ ایک ساتھ ہی سارے انتخابات کے حق میں ہیں۔ پی ڈی ایم‘ اے این پی‘ جماعت اسلامی‘ پاکستان مسلم لیگ (ق) وغیرہ سبھی الگ الگ الیکشن کو ملکی سالمیت کے لیے انتہائی نقصان دہ سمجھتی ہیں۔ انتخابات الگ الگ ہوتے رہیں گے تو ملک کے اندر سیاسی چپقلش امن و امان کی تباہی‘ معیشت کی بربادی اور سیاسی افراتفری کی آگ پھیلتی رہے گی اور خاکم بدہن بہت کچھ جلا کر بھسم کرتی رہے گی۔ بیرونِ ملک ہمارا امیج پہلے ہی ایک پسماندہ ملک کا ہے‘ ہمیں اپنا امیج ایک ایٹمی قوت کے شایانِ شان بنانا ہوگا۔ ہم نے نائب امیر جماعت اسلامی جناب لیاقت بلوچ سے ان ملاقاتوں کے بارے میں اُن کے تاثرات معلوم کیے تو انہوں نے بھی دونوں ملاقاتوں کو نہایت مثبت قرار دیا۔ ہماری رائے یہ ہوگی کہ جناب سراج الحق اصلاحِ احوال کے سلسلے میں اس پیش رفت کو آگے بڑھائیں اور عید کے بعد منصورہ میں آل پارٹیز کانفرنس بلائیں جس میں وزیراعظم شہباز شریف اور جناب عمران خان کی شرکت یقینی ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں