محبت کی دکانیں

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ ہم مل بیٹھ کر اپنے مسائل حل کرتے۔ ہم نے پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کاٹنے کی کوشش کی۔ ہم نے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے سنگ بستہ دلوں پر دستک دینے کی سعی کی۔ ہم نے نفرت کی چنگاریوں کو شبنمی کلمات سے بجھانے کا بیڑہ اٹھایا مگر کامیابی نہ ملی۔ گزشتہ ہفتے ان چنگاریوں نے ہولناک اور خوفناک شعلوں کی شکل اختیار کر لی اور وہ کچھ جلا کر بھسم کر ڈالا جس کا کبھی تصور بھی نہ کیا جا سکتا تھا۔ آج آس کی جگہ یاس‘ محبت کی جگہ نفرت‘ اعتدال پسندی کی جگہ انتہا پسندی‘ قربت کی جگہ دوری اور وصل کی جگہ فراق نے لے لی ہے۔ ہر شعبے میں لوگ آپس میں کٹے اور پھٹے ہوئے ہیں۔
ہر طرف مایوسی ہی مایوسی ہے۔ قارئین و ناظرین ہم سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہونے والا ہے؟ ہم کدھر جا رہے ہیں؟ موجودہ کشمکش کا انجام کیا ہوگا؟ سچ پوچھیں تو ہمارے پاس بھی ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں۔ ہم سردست وطنِ عزیز میں چھائی ہوئی بے یقینی کی دھند کے بارے میں یہ نہیں بتا سکتے کہ اس سے کب چھٹکارا نصیب ہوگا۔ اس لیے ہم اس کشتی کو خدا کے سہارے چھوڑتے ہیں اور پڑوسی ملک بھارت چلتے ہیں جہاں نفرت کی منڈیاں بند اور محبت کی دکانیں کھلنے والی ہیں۔
بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کو کرناٹک اسمبلی کے انتخابات میں کانگریس کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسمبلی کی 224نشستوں میں سے کانگریس نے 136نشستیں جیت کر میدان مار لیا ہے۔ بی جے پی کو 65جبکہ جنتا دَل سیکولرپارٹی کو 19 نشستیں ملیں۔ کرناٹک میں حکومت سازی کے لیے 113نشستیں درکار ہوتی ہیں۔ اس لیے یہاں کانگریس کی حکومت کا بننا یقینی ہے۔ سپیکر سمیت بی جے پی کے چودہ ریاستی وزرا جیت نہیں سکے۔ مسلم طالبات کے حجاب پر پابندی لگانے والے وزیر تعلیم بی سی ناگیش کو بھی بدترین شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے سات دن تک ریاست میں اپنی پارٹی کی نمایاں جیت کے لیے انتخابی مہم چلائی۔ 19ریلیاں نکالیں اور کئی جلسوں سے خطاب کیا۔ کانگرس کے رہنما راہول گاندھی نے اپنی پارٹی کی زبردست فتح پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب کرناٹک میں نفرت کی منڈیاں بند اور محبت کی دکانیں کھل گئی ہیں۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ غالباً فروری 2022ء میں یہاں مسلمان طالبات کے حجاب پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ یہ واقعہ کرناٹک کے شہر منڈیا میں ایک مسلم طالبہ مسکان خان کے ساتھ پیش آیا تھا۔ جب یہ طالبہ اپنے حجاب میں کالج پہنچی تو پی ای ایس کالج کے کچھ اوباش لڑکوں نے اسے گھیر لیا۔ برقع پہننے کی وجہ سے اسے اندر جانے سے روک دیا گیا۔ بھگوا شرپسند ہندو طلبہ اس کی طرف دوڑ پڑے جو جے شری رام کے نعرے لگا رہے تھے اور مسکان کے حجاب کا مذاق اڑا رہے تھے۔ اس بہادر دخترِ اسلام نے نہایت جرأت مندی اور بہادری کا ثبوت دیا۔
اس نے ہندوؤں کے نعروں کے جواب میں تن تنہا اللہ اکبر‘ اللہ اکبر کے نعرے لگائے اور کہا: خبردار کوئی میرے قریب نہ آئے۔ اس بہادر مسلمان لڑکی کی یہ جرأت مندانہ وڈیو اُن دنوں ساری دنیا میں ٹاپ ٹرینڈ بن گئی تھی۔ اب اسی ریاست میں انتہا پسند بی جے پی کو ہزیمت اور بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ جیسا بوؤ گے‘ ویسا کاٹو گے۔
ہندوستان اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جانے کا سلسلہ تھمنے کے بجائے ہر گزرتے پل کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ بھارت اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے۔ بھارت کی ایک ارب چالیس کروڑ سے زائد آبادی میں ہندوؤں کے بعد سب سے بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے۔ یہ نام نہاد جمہوریت بھارت کی سب سے بڑی اقلیت اور مقبوضہ کشمیر کی سب سے بڑی اکثریت مسلمانوں کو جینے کا حق دینے کو تیار نہیں۔
مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ گزشتہ 75برس سے حل طلب چلا آ رہا ہے۔ تقسیم ہند کے کچھ عرصہ بعد وادیٔ کشمیر کے مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے کہ ہم اپنا الحاق پاکستان کے ساتھ کریں گے۔ مقبوضہ کشمیر کا راجہ ہتھیار ڈالنے والا تھا تو سلامتی کونسل نے سیز فائر کی اپیل کی اور وادیٔ کشمیر میں بھارت سے استصوابِ رائے کی یقین دہانی حاصل کرکے متحارب فریقین‘ بھارت اور پاکستان کے درمیان سیز فائر کروا دیا۔ وہ دن اور آج کا دن سلامتی کونسل اپنا وعدہ پورا نہیں کر سکی۔
گزشتہ دنوں پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری شنگھائی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت گئے تو انہوں نے وہاں مقبوضہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرانے کا مطالبہ کیا۔ اس موقع پر ''اعلیٰ تعلیم یافتہ‘‘ بھارتی وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر نے بین الاقوامی حقائق کا منہ چڑاتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر ہی نہیں آزاد کشمیر بھی ہمارا اٹوٹ انگ ہے۔
دنیا کی ایک چوتھائی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ان کے پاس بہترین مالی وسائل بھی ہیں مگر اتنی بڑی آبادی سے وابستہ اُن کے مسلمان بہن بھائیوں کے ساتھ ذلت آمیز سلوک کیا جا رہا ہے۔ فلسطینی مسلمانوں پر گزشتہ ستر بہتر برس سے غاصب اسرائیل ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ آئے روز اسرائیلی بمبار طیارے غزہ کے شہریوں پر بم برساتے ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ رمضان المبارک کے دوران یہودی سکیورٹی فورسز نے مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ میں نماز و تراویح ادا کرنے سے روکنے کے لیے بے تحاشا طاقت کا استعمال کیا۔
تازہ ترین صورت حال کے مطابق گزشتہ منگل کے روز ایک مرتبہ پھر اسرائیلی افواج اور فلسطین کی اسلامی جہاد نامی تنظیم کے درمیان راکٹوں کا تبادلہ ہوا۔ اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کے الجہاد گروپ کے تین چوٹی کے رہنماؤں کو شہید کردیا۔ غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیل کے ان چند روزہ ہوائی حملوں کے نتیجے میں 33فلسطینی شہید ہوئے۔ ان شہداء میں بچے بھی شامل ہیں۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مظلوم مسلمان ہندوستان کے ہوں یا مقبوضہ کشمیر کے‘ فلسطین کے ہوں یا برما (میانمار) کے یا دنیا کے کسی اور خطے کے‘ انہیں یہ تحفظ حاصل نہیں کہ وہ ایک ایسی مسلم کمیونٹی کا حصہ ہیں جن کی تعداد دنیا کی کل آبادی کا ایک چوتھائی ہے۔ او آئی سی بھی اب ایک ڈھیلی ڈھالی تنظیم کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ او آئی سی ساری دنیا کے مسلمانوں کے جائز حقوق کے محافظ کا کردار ادا کرتی اور دنیا کو بتا دیتی کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی مانند ہے جس کے ایک عضو کو کوئی تکلیف ہو تو سارا جسم اس درد کو محسوس کرتا اور تڑپتا ہے۔ اب دیکھئے راہول گاندھی کی بات کس حد تک سچ ثابت ہوتی ہے کہ بھارت میں محبت کی دکانیں کھل رہی ہیں۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو تاکہ وہاں کے مسلمان امن و سلامتی کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں محبت کی دکانیں بند اور نفرت کی منڈیاں آباد ہو رہی ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں