ڈوبتے ہوؤں کی بے کسی

کئی روز سے سمندر میں بھٹکتی‘ ہچکولے کھاتی کشتی بالآخر یونان کے ایک ساحل سے تھوڑی دور گہرے پانیوں میں خراب ہو کر رُک گئی۔ مچھلیاں پکڑنے والی اس ٹرالر کشتی میں سات‘ آٹھ سو مسافروں کو ٹھونس دیا گیا تھا۔ یہ ایسے مسافر تھے کہ جنہیں معلوم نہ تھا کہ اُن کی منزل کیا ہے۔ البتہ اتنا تو وہ جانتے تھے کہ سمندر کی بے حد و حساب گہرائی تو اُن کا مسکن نہیں۔ بدقسمت کشتی کے مسافر کئی روز سے بھوکے پیاسے تھے۔ اُن کے چاروں طرف پانی ہی پانی تھا۔ مگر اس کا ایک قطرہ بھی پیا نہیں جا سکتا تھا۔
یونان کے ساحل پر خراب کشتی مسلسل سات گھنٹے سے ایک ہی جگہ پر کھڑی تھی۔ پانی اور خوراک سے محروم مسافروں کو ہر لحظہ موت اپنی طرف بڑھتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ ایسے میں مسافروں نے سمندر میں گشت کرتے یونانی کوسٹ گارڈز کو دیکھا تو اُن کے چہروں پر چھائی ہوئی یاس چند لمحوں کیلئے آس میں بدل گئی۔ انہوں نے ساحلی محافظوں کو بآواز بلند مدد کیلئے پکارا‘ مدد کیلئے ہر زبان میں آوازیں دیں۔ وہ ہاتھ ہلا رہے تھے‘ اشاروں سے اُن کی منت سماجت کر رہے تھے مگر سنگدل یونانی کوسٹ گارڈز ٹس سے مس نہ ہوئے۔ پہلے تو انہوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے بدقسمت کشتی کے مسافروں کی کوئی مدد نہ کی۔ جب یونان کے اندر اور دنیا بھر میں ہونے والے احتجاجوں میں اُن پر شدید تنقید ہوئی تو انہوں نے اپنا مؤقف بدل لیا اور کہا کہ کشتی والوں نے کہا کہ ہمیں مدد کی ضرورت نہیں۔
ذرا اس بے کسی کا اندازہ لگائیے کہ کشتی ڈوب رہی ہو‘ ساحل کا کنارا دور نہ ہو‘ سمندری جہازوں اور مسافروں کو بچانے والے گارڈ بھی سامنے موجود ہوں مگر مدد کیلئے آنے کو کوئی تیار نہ ہو۔ ایسے ہی مواقع کیلئے ڈاکٹر خورشید رضوی نے کہا تھا:
ہاں‘ ڈوبتے ہوؤں کی بڑھانے کو بے کسی
حدِّ نظر پر کوئی کنارا بھی چاہیے
خوشحالی اور بہتر مستقبل کی تلاش میں اجنبی زمینوں کی طرف سفر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ہم خود کئی دہائیوں تک اوورسیز پاکستانی رہے ہیں۔ سعودی عرب اور امارات میں ورک ویزا پر جانے کا ایک محفوظ طریقہ ہے۔ جو پاکستانی عمرے یا وزٹ ویزے پر جاتے ہیں اور پھر ویزے کی مدت گزرنے کے بعد چوری چھپے کم اجرتوں پر پرائیویٹ کمپنیوں میں کام کرتے ہیں تو بالآخر پکڑے جاتے ہیں اور ڈی پورٹ کر دیے جاتے ہیں‘ مگر اس میں جان کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔
بدقسمت کشتی میں سوار تقریباً آٹھ سو مسافروں میں سے تین سو سے زائد پاکستانی تھے‘ بہت سے افغانی‘ مصری اور شامی بھی تھے۔ کچھ خواتین اور بچے بھی تھے۔ ہم بعد از مرگ واویلا کرنے والی قوم ہیں‘ پیش بندی اور احتیاطی تدابیر اختیار کر کے ہم ''مرگ‘‘ کو روکنے یا ٹالنے کی کوشش نہیں کرتے لہٰذا جانتے بوجھتے ہم کنویں میں نہیں سمندر میں بھی چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ اس لیے یونانی ساحلوں پر واقع ہونے والی ٹریجڈی نہ پہلی ہے اور نہ ہی آخری۔ اس سے پہلے بھی ٹریجڈیز ہوتی رہی ہیں اور مستقبل میں بھی ہوتی رہیں گی۔ (اللہ نہ کرے)
اٹلی یا کسی اور مغربی ملک جانے کا دھندا جو گزشتہ کئی برس سے جاری ہے‘ مکمل طور پر غیر قانونی ہے۔ اس کام میں صرف ایجنٹ ہی نہیں کئی اعلیٰ افسران بھی شامل ہیں۔ گرفتار ہونے والے ایک پاکستانی سمگلر نے انکشاف کیا ہے کہ تحقیق کرنے والے اداروں کے بھی کئی افسران کشتی حادثے میں ملوث ہیں۔ کئی ملکوں پر پھیلا ہوا سمگلروں کا نیٹ ورک ہے۔ یہ کئی روٹس استعمال کرتا ہے۔ تین پاکستانی بھائی نیٹ ورک کی پاکستانی برانچ چلاتے ہیں۔ پہلے ایجنٹ کا کام ویزا لگوا کر مسافر کو دبئی اور وہاں سے لیبیا پہنچانا ہے۔
وہاں سے مصری کارندوں کا کام شروع ہوتا ہے۔ جو لیبیا سے مسافروں کو غیرقانونی طور پر اٹلی کی کسی بندرگاہ تک پہنچاتے ہیں۔ بندرگاہ سے ملک میں داخل کروانے کا وہاں پر نیٹ ورک قائم ہے۔ یورپ میں یہ بات مشہور ہے کہ اٹلی کے باشندے دونمبر کاموں میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ جہاں تک ہمارے مصری بھائیوں کا تعلق ہے تو ہمیں سعودی عرب میں انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ وہ بالکل ہماری طرح کے کام کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ مصریوں میں نہایت محنتی‘ دیانت دار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی ہیں اور ہاتھ کی صفائی دکھانے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔
گزشتہ برسوں میں ملک چھوڑنے والوں کے ساتھ ہونے والے حادثات و سانحات کو تو چھوڑیے صرف رواں سال کے دوران یونانی ساحل کے قریب ہونے والے سانحہ جیسا افسوسناک واقعہ فروری 2023ء میں غیر قانونی طریقے سے اٹلی جانے والی ایک کشتی کو اطالوی ریجن کیلیبریا میں بھی پیش آیا۔ کشتی میں 60مسافر سوار تھے جن میں سے 20پاکستانی تھے۔ غرق ہونے والی کشتی کے مہاجروں میں سے کوئی ایک بھی زندہ نہیں بچا۔ اس حادثے یعنی فروری کے صرف دو ماہ بعد ایسا ہی حادثہ لیبیا کے ساحلوں کے قرب و جوار میں پیش آیا اس حادثے میں مہاجروں کو اطالوی ساحلوں کے طرف لے جانے والی دو غیرقانونی کشتیاں آپس میں ٹکرا گئیں اور دونوں میں سوار پاکستانیوں کی اچھی خاصی تعداد لقمۂ اجل بن گئی‘ جبکہ 14جون کو ایک اور المناک حادثہ یونانی شہر پیلاس کے قریب پیش آ گیا۔ شامی ضرب المثل ہے کہ یہ آخری صدمہ ہو جو آپ کو برداشت کرنا پڑا۔ ہماری دعا بھی یہی ہے کہ اللہ کرے اس نوعیت کا یہ آخری صدمہ ہو۔
یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ لوگ پُرخطر غیر قانونی سفر پر اپنے جگر گوشوں کو ہنسی خوشی کیوں روانہ کر دیتے ہیں؟ اس نقل مکانی کی دو وجوہات ہیں پہلی یہ کہ یہاں پاکستان میں ملازمتیں ملتی ہیں اور نہ ہی کاروباری مواقع میسر ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جب گجرات‘ گوجرانوالہ‘ سیالکوٹ‘ کوٹلی یا دوسرے شہروں کے باسی اپنے اڑوس پڑوس میں سمندر پار دولت کی ریل پیل دیکھتے ہیں تو وہ بھی ہر طرح کا رسک اور خطرہ مول لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔
افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے حکمران گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنے دورِ حکمرانی کا زیادہ تر عرصہ اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑتے ہوئے گزار دیتے ہیں۔ انہیں ملکی مسائل کا کماحقہٗ ادراک ہوتا ہے اور نہ ہی اُن کے حل کی مؤثر حکمت عملی پر اُن کی دسترس ہوتی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ تیز رفتاری سے بڑھتی ہوئی آبادی پاکستان کی ہے۔ تین کروڑ کے قریب بچوں کیلئے تعلیم ہے نہ روزگار اور نہ ہی ضروری خوراک۔یورپ کی طرف خطرات مول لے کر بھاگ بھاگ کر جانے والے نوجوان ہنرمند ہوتے ہیں اور نہ ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ۔ وہاں جا کر اُن بیچاروں کو چھپ چھپ کر مزدوری کرنا پڑتی ہے یا چھوٹی موٹی دکانداری۔
آئی ٹی آج کے دور میں وہ الہ دین کا چراغ ہے جس کی صرف ایک سالہ ٹریننگ سے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے گھروں میں بیٹھ کر لاکھوں روپے ماہانہ کما سکتے ہیں۔ انہیں غیرقانونی ڈوبتی ہوئی کشتیوں میں موت کے خطرات کے بغیر اپنے گھروں میں خوشحالی مل سکتی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ ہمارے حکمرانوں کو اپنے پاکستان میں زیادہ سے زیادہ معاشی مواقع پیدا کرنے کی توفیق دے۔ اللہ کرے ڈوبتے ہوؤں کی بے کسی کا یہ سانحہ آخری سانحہ ثابت ہو‘ آمین

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں