ہم بہتر حکمرانی کر سکتے ہیں

''ہم کیوں بہتر حکمرانی کر سکتے ہیں؟ ہم اس لیے بہتر حکمرانی کر سکتے ہیں کیونکہ ہم تعصبات سے آزاد اور جذبات سے ماورا ہیں۔ ہم وسیع تر معلومات اور اعداد و شمار کا تجزیہ کرکے واضح نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم اس لیے بہتر حکمرانی کر سکتے ہیں کیونکہ ہم جذباتی نہیں منطقی فیصلے کرنے کی صلاحیت سے آراستہ و پیراستہ ہیں‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں یہ بیان مصنوعی ذہانت رکھنے والے ایک ''انسانی روبوٹ‘‘ نے حال ہی میں جنیوا میں دیا۔ سات جولائی کو یو این او کی انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن یونین ایجنسی کے تحت پہلی ہیومن روبوٹس کانفرنس جنیوا میں منعقد ہوئی۔ اس گلوبل سمٹ میں مصنوعی ذہانت اور آئی ٹی کے شعبے سے متعلق تین ہزار ماہرین نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ معلوم کیا جا سکے کہ مصنوعی ذہانت سے آراستہ روبوٹ ہمیں ہر دم پریشان رکھنے والے مسائل سے کیسے نجات دلا سکتے ہیں۔ تین اہم ترین مسائل میں موسموں کی تبدیلی‘ بھوک اور معاشرتی فلاح و بہبود شامل تھے۔
کانفرنس میں انسانی روبوٹس سے ایک دلچسپ سوال پوچھا گیا کہ کیا وہ ہمیں انسانوں سے بہتر قائدین مہیا کر سکتے ہیں؟ اس سوال کا دو ٹوک جواب صوفیہ نامی روبوٹ نے دیا۔ صوفیہ نے کہا کہ ہمارے پاس یہ صلاحیت ہے کہ ہم انسانی روبوٹس کو قیادت کی اعلیٰ ترین صفات سے مزین کر سکتے ہیں۔یوں تو مصنوعی ذہانت کسی نہ کسی سطح پر پچھلی صدی سے روبوٹس کی شکل میں سامنے آ چکی تھی۔ مگر زندگی کے ہر شعبے میں انسانوں کی جگہ لینے کیلئے مصنوعی ذہانت کے شاہکار ''انسانی روبوٹس‘‘ سامنے آئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ عالمی فورمز‘ دانش گاہوں‘ تھنک ٹینکس اور دانشوروں کی مجالس میں آج کل اسی سوال پر بحث کی جا رہی ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ٹولز کو کس حد تک اور کتنا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
جنیوا میں یو این او کی مذکورہ بالا کانفرنس میں انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن یونین کی سکریٹری جنرل ڈورین بوگڈان مارٹن نے کانفرنس میں شرکت کرنے والے ماہرین کو خبردار کیا کہ AI (مصنوعی ذہانت) کے جس رومانس میں آج دنیا مبتلا ہونے جا رہی ہے‘ یہ رومانس انسانیت کے لیے ایک انتہائی ڈرائونا خواب بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ انسانی روبوٹس لاکھوں نہیں‘ کروڑوں انسانوں کو بے روزگار کر سکتے ہیں۔ ان روبوٹس کی بغیر کسی کنٹرول کے پیش قدمی انسانی معاشروں کو اتھل پتھل کر سکتی ہے بلکہ اس پیش قدمی سے عالمی سطح پر سیاسی عدم استحکام اور معاشی عدم مساوات بہت سے معاشروں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
مصنوعی ذہانت پر مشتمل انسانی روبوٹس‘ مشینی قائدین‘ سائنسدانوں اور ماہرین کے بارے میں حکومتوں اور عالمی اداروں کی سطح پر خیر مقدمی جذبات کے ساتھ ساتھ نہایت تشویش بھی پائی جاتی ہے۔ اسی مصنوعی ذہانت کی ایک تکنیک چیٹ جی پی ٹی کے بارے میں ساری دنیا کی جامعات اور تعلیمی اداروں میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ صرف تین چار روز قبل ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان نے آئی ٹی اور تعلیمی ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ چیٹ جی پی ٹی کا ریسرچ ورک اور دیگر تعلیمی پروجیکٹس میں استعمال کہاں تک درست اور جائز ہے۔ چیٹ جی پی ٹی کیا ہے؟ یہ مصنوعی ذہانت کی ایک ایپ ہے جو انسانوں کی طرح کی زبان استعمال کرتی ہے۔ آپ کے سوالوں کا بول کر اور لکھ کر جواب دیتی ہے۔ یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات میں یہ ایپ بہت مقبول ہوتی جا رہی ہے۔ طالب علم کے سوالوں کے جواب میں ایپ لکھا لکھوایا مضمون‘ آرٹیکل‘ سوشل میڈیا پوسٹس حتیٰ کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالے کے لیے بھی کافی مواد فراہم کر سکتی ہے۔ گوگل اور اس ایپ میں فرق یہ ہے کہ گوگل ہر سائل کو یکساں معلومات فراہم کرتا ہے۔ اگر گوگل معلومات من و عن آرٹیکل میں درج کی جائیں تو ہر ممتحن آسانی سے مال مسروقہ کا سراغ لگا لیتا ہے مگر چیٹ جی پی ٹی سپیشل آرڈر پر مال تیار کرتا ہے۔ اسی لیے اس کے بارے میں تشویش بھی بہت پائی جاتی ہے۔
چیٹ جی پی ٹی کے بارے میں بالعموم تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ اس کی ذہانت لامحدود ہے اور وہ دنیا کے ہر موضوع پر رہنمائی کر سکتا ہے مگر ایسا نہیں‘ الہ دین کا یہ چراغ محدود معلومات کی بنا پر کبھی کبھی ٹمٹمانے بھی لگتا ہے۔ تاہم ٹمٹماتا ہوا یہ ''طلسماتی چراغ‘‘ اپنی ہار ماننے کو تیار نہیں ہوتا لہٰذا وہ غیر متعلقہ معلومات کو بھی ''دانشورانہ‘‘ طریقے سے پُرکشش بنا کر پیش کر دیتا ہے۔ چیٹ جی پی ٹی بڑی حساس طبیعت کا مالک ہے۔ اس کی پروگرامنگ سے ہٹ کر اگر کسی سوال کے الفاظ میں ردو بدل کر دیا جائے تو متوقع رزلٹ کے بجائے جواب کچھ سے کچھ ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات پوچھے گئے سوال کا جب چیٹ جی پی ٹی کو دو ٹوک جواب نہیں ملتا تو وہ ظن و تخمین سے کام لیتا ہے اور یوں چھوٹی بڑی غلطی کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ سوال جواب کے دوران چیٹ جی پی ٹی کی لانگ ٹرم یادداشت نہیں ہوتی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جواب میں تکرار اور منطقی طور پر عدم تسلسل آ جاتا ہے۔ چیٹ جی پی ٹی میں جہاں مثبت خوبیاں ہیں وہاں اس کے اندر منفی انداز کی خامیاں بھی ہیں۔ مثلاً ایک خامی یہ بھی ہے کہ یہ مشینی تکنیک کبھی کبھی مضر اور نقصان دہ معلومات پیش کر سکتی ہے۔ بعض اوقات یہ انسانی روبوٹ جارحانہ زبان بھی استعمال کرنے لگتا ہے۔
انسانی روبوٹ مصنوعی ذہانت رکھتے ہیں مگروہ جذباتی ذہانت یا ہمدردی کے جذبات سے تہی دامن ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ روبوٹ یا چیٹ جی پی ٹی بہت سے سوالوں کے جوابات دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر یہ استعداد جنرل قسم کے سوالات کے بارے میں ہیں۔ تاہم خالصتاً سائنٹفک یا فلسفیانہ نوعیت کے دقیق و لطیف نوعیت کے ہر استفسار کا جواب ان کے پاس موجود نہیں ہوتا۔میں نے براہِ راست چیٹ جی پی ٹی سے پوچھا کہ پاکستان میں ہمارے مسائل کا حل کیا ہے؟ ایپ کا فوری اور سمارٹ جواب تو دلچسپ تھا کہ آپ کے مسائل کا حل آپ کے اپنے پاس ہے۔ تاہم تشریح کرتے ہوئے چیٹ جی پی ٹی نے کہا کہ مصنوعی ذہانت آپ کو غیرمتعصبانہ درست ڈیٹا فراہم کرتی ہے‘ آپ اس کے ساتھ انسانی جذباتی ذہانت شامل کرکے ایک بہتر حل حاصل کر سکتے ہیں۔ مشینیں ہمارے لیے بہت آسانیاں پیدا کرتی ہیں مگر کوئی بھی تخلیق اپنے خالق سے بڑھ کر ذہین نہیں ہو سکتی۔ علامہ نے درست ہی فرمایا تھا:
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
مشینوں سے ہمیں ضرور استفادہ کرنا چاہیے مگر انسانوں کو مشینوں کی غلامی میں دینے سے یہاں ہر طرف تباہی ہی تباہی ہو گی۔ مشینیں نہیں اچھے انسان ہی بہترین حکمرانی کر سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں