عمران خان‘ عروج و زوال

منتخب وزرائے اعظم خواجہ ناظم الدین سے لے کر عمران خان تک‘ ریاست اور سیاست کے درمیان مسلسل کشاکش چلی آ رہی ہے۔ حتمی فیصلہ تو وقت اور مورخ ہی کرے گا کہ اس میں سیاست دانوں کا قصور زیادہ ہے یا دیگر حلقوں کا؟ البتہ خان صاحب کی داستانِ زوال میں ان کا اپنا ہی عمل دخل سب سے زیادہ ہے بعض تجزیہ کار تو میاں نواز شریف کی 2018ء کے انتخابات سے عین پہلے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کی پاداش میں نااہلیت اور عمران خان کی توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف کی فروخت سے حاصل کردہ رقم الیکشن کمیشن میں درج نہ کرانے کی پاداش میں سیشن عدالت کی طرف سے دی گئی نااہلیت کے درمیان گہری مماثلت و مشابہت تلاش کر رہے ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کا زوال وقتی ہے یا حتمی‘ اس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے مگر اس زوال کے کئی اسباب ہیں۔ پہلے بھی ایک بار ذکر کر چکا ہوں کہ جناب احسن رشید مرحوم کی دعوت پر خان صاحب سے پہلی ملاقات غالباً 2003ء میں جدہ میں ہوئی۔ اس ملاقات کا میرے ذہن میں خوشگوار تاثر تھا۔ ان سے دوسری تفصیلی ملاقات 2005ء یا 2006ء میں اسلام آباد میں پارلیمنٹ لاجز میں ہوئی۔ جب وہ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے اکلوتے ممبر تھے۔ اس ملاقات میں خان صاحب کی سنجیدگی‘ پاکستان کے بنیادی مسائل کے لیے ان کی فکرمندی اور نماز کی پابندی نے مجھے بہت متاثر کیا تھا پھر ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں مگر 2010ء کے بعد خان صاحب نے بلندیوں کا سفر اختیار کیا تو پھر وہ ہماری پہنچ سے ماورا ہو گئے اور بقول غالب ؎
راہ میں ہم ملیں کہاں‘ بزم میں وہ بلائے کیوں
پراجیکٹ عمران خان کسی کا وضع کردہ ہی کیوں نہ ہو مگر اس میں یقینا خان صاحب کی بھی سو فیصد رضا مندی شامل ہوگی۔ اس وقت یہ بحث اہم نہیں کہ خان صاحب برسراقتدار کیسے آئے۔ ہم اس تفصیل کو بھی نظر انداز کرتے ہیں کہ خان صاحب کی تخت نشینی میں ان کی مقبولیت کا کتنا حصہ اور دوسروں کی دلچسپی کا کتنا دخل تھا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان کا دورِ اقتدار کیسا تھا؟ عمران خان برطانیہ کی جمہوریت نوازی‘ قانون کی حکمرانی‘ پارلیمانی روایات کی سربلندی کا بہت تذکرہ کیا کرتے تھے‘ اس لیے ان سے خوشگوار اُمیدیں وابستہ کرنے والوں کو یقین تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی برطانوی جمہوری روایات پر کاربند رہیں گے مگر ہوا اس کے برعکس۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنے سیاسی و پارلیمانی مخالفین سے یوں سلوک کیا جیسے وہ ان کے ذاتی دشمن ہوں۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں حزبِ مخالف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے قائدین کو ہر سچے جھوٹے عذر کا سہارا لے کر جیل کی کال کوٹھڑیوں میں ڈالا۔ اسی طرح عمران خان نے ملک کے اندر اور ملک سے باہر ملکی کرپشن کا بہت چرچا کیا مگر ان کا اپنا دامن بھی اس آلودگی سے پاک نہ رہا۔
عمران خان کے زوال کا سب سے بڑا سبب وہ خود تھے۔ ہٹ دھرمی اور انا پسندی‘ جمہوریت کی نفی سمجھی جاتی ہے۔ جمہوریت میں پہلے اپنی پارٹی کی سطح پر صلاح مشورہ ہوتا ہے‘ پھر کابینہ میں اجتماعی غورو فکر ہوتا ہے اور آخر میں پارلیمنٹ میں حکومتی و غیر حکومتی تمام ارکان اپنی اپنی رائے دیتے ہیں۔ خان صاحب نے کسی بھی سطح پر آزادانہ صلاح مشورے کے کلچر کو نہ صرف اختیار نہیں کیا بلکہ ہر معاملے میں اپنی من مانی کو فوقیت دی۔ سابق وزیر دفاع پرویز خٹک نے بھی ہفتے کے روز کہا کہ خان صاحب نے ضد اور ہٹ دھرمی سے کام لیا ایسے کاموں کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔
عمران خان سیاسی معاملات کے حل کے لیے سیاسی حکمت عملی اختیار کرتے تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی تو اسے ایک جمہوری عمل کا حصہ سمجھنے کے بجائے انہوں نے اسے اپنی اَنا پر حملہ تصور کیا۔ انہوں نے ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری کے ذریعے یہ کہا کہ میرے خلاف سائفر کے ذریعے بیرونی سازش ہوئی ہے۔ لہٰذا اپوزیشن یہ قرارداد پیش ہی نہیں کر سکتی۔ بعد میں عدالتِ عظمیٰ نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غلط قرار دے دیا۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عمران خان کو پارلیمانی روایات کے مطابق حزبِ اختلاف کے بینچوں پر بیٹھنا اور تعمیری تنقید پر مبنی بھرپور کردار اداکرنا چاہیے تھا مگر خان صاحب نے 'جو میں نہیں تو کوئی اور بھی نہیں‘ کا رویہ اختیار کیا۔ اس کے بعد انہوں نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا خودکش حملہ بھی کرلیا۔
شنید ہے اس اثنا میں انہیں کچھ شخصیات نے باور کرایا کہ ریاستی اداروں میں آپ کی بڑی حمایت ہے اس لیے آپ اس سپورٹ سے بہت فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہ تو مکمل تحقیق سے ہی واضح ہوگا کہ نومئی کے واقعات میں تحریک انصاف کے قائدین و کارکنان کا کتنا عمل دخل تھا مگر ان واقعات اور خان صاحب کی طرف سے سانحہ نومئی کی بروقت اور بھرپور مذمت نہ کرنے کا پی ٹی آئی کو سخت نقصان ہوا۔
ایک اور چیز بھی ہے جسے آسمانی انصاف یا مکافاتِ عمل کہا جاتا ہے۔ بظاہر خان صاحب کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وہ ایک دیندار آدمی ہیں مگر اقتدار کے نصف النہار پر انہیں یادِ خدا رہی اور نہ خوفِ خدا رہا۔ انہوں نے واشنگٹن میں جولائی 2019ء کو پاکستانیوں کے بہت بڑے اجتماع میں کہا کہ مجھے معلوم ہوا کہ جیل میں نواز شریف کو ایئرکنڈیشنر اور ٹی وی کی سہولت حاصل ہے۔ میں پاکستان واپس جاتے ہی اس کا اے سی اترواؤں گا تاکہ اسے معلوم ہو کہ جیل کیسی ہوتی ہے۔ ہم ہرگز نہ چاہیں گے کہ عمران خان کو قانون کے مطابق جیل میں وہ سہولتیں نہ دی جائیں جو ان کا جمہوری و آئینی حق ہے۔ سنا ہے اٹک جیل میں انہیں بی کلاس دی گئی ہے۔
شنید ہے کہ نو اگست کو قومی اسمبلی توڑنے کی سمری صدرِ پاکستان کو ارسال کر دی جائے گی۔ اگر صدرِ مملکت عارف علوی فوری طور پر وزیراعظم کی درخواست کو پذیرائی بخشیں گے تو 8نومبر 2023ء کے آس پاس عام انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا صدارتی استحقاق برقرار رہے گا اور اگر سمری وصول کرنے کے بعد وہ اس کے از خود ٹوٹنے کے لیے 48گھنٹے کا انتظار کرتے ہیں تو پھر الیکشن کی تاریخ کا اعلان چیف الیکشن کمشنر کریں گے۔
اس دوران ایک اور پیش رفت بھی ہوئی ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل نے نئی مردم شماری کی متفقہ منظوری دے دی ہے۔ اگرچہ آبادی میں اتنا بڑا اضافہ اپنی جگہ پر بہت تشویشناک ہے‘اس اضافے کے بعد اب پاکستان کی آبادی 24کروڑ 10لاکھ ہو گئی ہے۔ تاہم نئی مردم شماری کے مطابق انتخابی حلقہ بندیوں کے لیے کم از کم چھ ماہ کا عرصہ درکار ہوگا۔ گویا انتخابات کا نومبر میں انعقاد مشکل ہوگا۔ اب یہ انتخابات 2024ء کے موسم بہار تک مؤخر ہو سکتے ہیں۔ ہم اس کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں لگا سکتے کہ مثبت نتائج کے لیے امیدِ بہار رکھنے والوں کی امید بر آئے گی یا نہیں۔
ہماری سیاسی تاریخ میں سیاست دانوں کے عروج و زوال کی داستان بڑی دلچسپ بھی ہے اور افسوسناک بھی مگر ہم اس داستان سے سبق سیکھنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ سیاست دان ہر بار اُسی کوئے ملامت کو جاتے ہیں جس کا انجام سب کو پہلے سے معلوم ہوتا ہے۔ اللہ ہمیں اور ہمارے سیاست دانوں کو ہوش کے ناخن لینے کی توفیق دے۔ آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں