خدا گواہ ہے

صدرِ پاکستان جناب ڈاکٹر عارف علوی ایک وسیع المطالعہ اور قادر الکلام شخصیت کی شہرت رکھتے ہیں۔ حلقۂ یاراں ہو یا سیاست کا میدان یا ٹی وی انٹرویو کا محاذ ہو‘ وہ خوب بولتے ہیں اور حسبِ موقع اردو انگریزی میں عمدہ ٹویٹ اور میسیج بھی ارسال کر لیتے ہیں مگر اتوار کے روز انہوں نے دو بلز کے حوالے سے جو ٹویٹ کیا ہے‘ اس کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ المعنی فی بطن الشاعر۔
یا بقول مرزا غالب ؎
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا
ان دنوں ملک میں کنفیوژن ہی کنفیوژن ہے۔ لفظوں کے جنگل میں حقیقی خبریں بھٹک رہی ہیں۔ آج کل سب سے بڑا ابہام تو یہ ہے کہ عام انتخابات کب ہوں گے‘ ہوں گے بھی یا نہیں‘ فروری میں ہوں گے یا کسی اور مہینے کا امکان ہے‘ کیا نگرانوں کا کوئی طویل پلان ہے نیز اُن کو لانے والوں کے کیا ارادے ہیں؟ اس موقع پر صدرِ پاکستان دل کی بات کو نوکِ زباں پر لائے ہیں تو اس انداز سے کہ پہلے سے موجود ابہام میں اور اضافہ ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر عارف علوی کو بات کرنی کبھی مشکل ایسی تو نہ تھی جتنی اتوار کے ٹویٹ سے محسوس ہو رہی ہے۔ اس ٹویٹ میں اظہار کم اور ابہام زیادہ جھلک رہا ہے۔ بقول ناصر کاظمی ؎
اظہار کچھ ہوا بھی تو ابہام رہ گئے
آرمی ایکٹ ترمیمی بل اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل کے بارے میں صدر عارف علوی نے اتوار کے روز ٹویٹ کے ذریعے یہ کہا کہ انہوں نے ان دونوں بلز پر دستخط نہیں کیے تھے۔
قارئین کو یاد دلا دوں کہ دونوں ترمیمی قوانین ہیں کیا؟ گزشتہ قومی اسمبلی نے اپنی مدت ختم ہونے سے پہلے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری دی۔ سینیٹ میں جب آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل پیش کیا گیا تو اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومتی اتحادیوں نے بھی تحفظات کا اظہار کیا۔ مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر سینیٹر نے یہاں تک کہا کہ کل یہ ایکٹ ہمارے گلے کا پھندا بھی بن سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر جناب رضا ربانی نے بل کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ جماعت اسلامی کے شعلہ بیاں سینیٹر مشتاق احمد خان بھی اس بل کے خلاف خوب گرجے برسے۔ بعد ازاں سینیٹ میں دونوں ترمیمی بلز کی بعض متنازع شقیں حذف کر دی گئیں۔
ترامیم کے بعد آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل کے مطابق کوئی شخص‘ جو جان بوجھ کر امنِ عامہ کا مسئلہ پیدا کرتا ہے‘ ریاست کے خلاف کام کرتا ہے اور اس کی کارروائیوں سے براہِ راست یا بالواسطہ دشمن کو فائدہ پہنچتا ہے تو وہ قابلِ مواخذہ ہوگا۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ملزم کا مقدمہ خصوصی عدالت سنے گی جو 30روز کے اندر فیصلہ کرنے کی پابند ہو گی۔ جرائم کی نوعیت کے مطابق ملزم کو تین سال تک سزا اور دس لاکھ تک جرمانہ ہو سکے گا۔اسی طرح آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے مطابق کوئی بھی فوجی اہلکار یا افسر استعفے یا برطرفی کے دو سال بعد تک سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لے سکے گا جبکہ حساس ڈیوٹی پر تعینات فوجی افسران ملازمت ختم ہونے کے پانچ برس بعد تک سیاست میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ آرمی ایکٹ سیکشن 26اے میں ایک نئے نکتے کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے تحت سرکاری حیثیت میں حاصل شدہ معلومات کو جو شخص افشا کرے گا‘ اسے پانچ سال قید بامشقت تک کی سزا ہو سکے گی۔
ان دونوں بلز کے بارے میں یہ سمجھا جا رہا تھا کہ اُن پر یا تو صدرِ پاکستان نے دستخط ثبت کر دیے ہیں یا انہوں نے اعتراضات لگا کر انہیں پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیا تھا۔ بہرحال دونوں صورتوں میں وہ بلز سے ایکٹ بن چکے ہیں مگر اتوار کے روز صدرِ پاکستان نے یہ ٹویٹ کر کے پاکستان کے عوام و خواص کو ہی نہیں‘ ساری دنیا کو حیران کر دیا کہ انہوں نے ان بلز پر دستخط ہی نہیں کیے تھے۔ عارف علوی صاحب نے کہا کہ میں نے اپنے عملے کو یہ ہدایت کی تھی کہ وہ ان بلز کو واپس بھیج دے۔ بعد ازاں میں نے اپنے عملے سے کئی بار تصدیق بھی کی کہ کیا وہ بل واپس بھیج چکے ہیں تو انہوں نے مجھے یقین دہانی کرائی کہ میرے احکامات کی تعمیل ہو چکی ہے مگر آج یہ معلوم کرکے مجھے افسوس ہوا کہ میرے عملے نے میری مرضی کی خلاف ورزی اور میری حکم عدولی کی ہے۔ اگر صورتحال ایسی ہی ہے جیسے ریاستِ پاکستان کا سب سے بڑا سربراہ بیان کر رہا ہے تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔
میں نے ایوانِ صدر کے ایک سابق مستند ذریعے سے معلوم کیا تو انہوں نے بتایا کہ صدر کے پاس پارلیمنٹ کی طرف سے جو بل آتا ہے‘ اس پر وہ دس روز کے اندر یا تو دستخط کر دیتے ہیں یا پھر بل پر اعتراضات و سفارشات تحریر کرکے اسے واپس کر دیتے ہیں۔ صدر صاحب کے پاس پارلیمنٹ سے منظور شدہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل دو اگست کو آیا تھا۔ اسے منظور یا مسترد کر کے دونوں صورتوں میں صدر صاحب کو 12اگست تک واپس بھیج دینا چاہیے تھا۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ والا بل صدر صاحب کے پاس آٹھ اگست کو پہنچا تھا جسے 18اگست تک منظوری کے دستخط یا مسترد کرکے اسے واپس بھیج دیا جانا چاہیے تھا۔ اب صدر صاحب کا ٹویٹ میں فرمان یہ ہے کہ اُن کے عملے نے انہیں تاریکی میں رکھا۔
آئین کے آرٹیکل 75(1)کے مطابق صدرِ پاکستان کے پاس پارلیمنٹ کے منظور کردہ بلز کے بارے میں دو ہی آپشنز ہیں۔ پہلی تو یہ کہ وہ اسے اپنے دستخط ثبت فرما کر قبول کر لیں یا اسے اپنے اعتراضات کے ساتھ نظرثانی کے لیے پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیں۔ صدر صاحب نے اپنے اتوار کے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ انہیں دونوں بلز کے مندرجات سے اتفاق نہ تھا‘ اس لیے انہوں نے اپنے عملے کو یہ بلز واپس بھیجنے کی ہدایت کی تھی مگر انہیں اب معلوم ہوا کہ اُن کے احکامات کی خلاف ورزی ہوئی۔ اب یہ بلز ایکٹ آف پارلیمنٹ بن چکے ہیں‘ اس لیے وہ ان لوگوں سے معافی کے طلب گار ہیں جو لوگ ان قوانین کی زد میں آئیں گے۔
جناب صدر جیسا فرما رہے ہیں اگر فی الواقع ایسا ہی ہوا تو انہیں اپنے عملے کے خلاف شدید برہمی اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اُن کے خلاف شدید ترین ایکشن کے احکامات جاری کرنے چاہئے تھے اور اعلان کرنا چاہیے تھا کہ آئین میں طے شدہ پروسیجر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کوئی بل ایکٹ آف پارلیمنٹ کیسے بن سکتا ہے؟ اگر صدرِ مملکت نے طے شدہ آئینی پروسیجر پر عملدرآمد کرتے ہوئے دونوں بلز کے بارے میں اپنی سفارشات پارلیمنٹ کو نظرثانی کے لیے بروقت ارسال کی تھیں تو پھر فائلوں سے واضح ہو جائے گا۔ اگر صدر صاحب نے پروسیجر کو فالو نہیں کیا اور بلز کو اپنے لیٹر کے ساتھ واپس نہیں بھجوایا تو پھر اس خلاف ورزی کی ذمہ داری اُن کے کندھوں پر آن پڑے گی۔ صدر صاحب یہ بھی واضح کریں کہ کیا عملے نے ان کی طرف سے منظوری کے لیٹر پر جعلی دستخط کیے تھے؟
ایوانِ صدر میں ایک لا ڈپارٹمنٹ موجود ہے۔ اس شعبے کا سربراہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کا کوئی ریٹائرڈ جج یا اسی معیار کا کوئی اور قانون دان ہوتا ہے۔ شعبۂ قانون کا سربراہ اسی طرح کے معاملات میں صدر کو تحریری مشورہ دیتا ہے۔ یقینا یہ تحریر بھی ایوانِ صدر میں موجود ہو گی۔ چونکہ صدرِ پاکستان نے خدا کو گواہ بنا کر یہ تحریر کیا ہے کہ انہوں نے ان بلز پر منظوری کے دستخط ثبت نہیں کیے ہیں‘ اگر یہ بات درست ہے تو پھر جنابِ صدر خدا کو گواہ بنا کر قوم کے ساتھ وہ لیٹر بھی شیئر کر دیں جو انہوں نے بلز کو مسترد کرتے ہوئے اپنے اعتراضات و سفارشات کے ساتھ واپس پارلیمنٹ کو بھیجا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں