میرے رہنما… میرے ہم نوا

ایک بار سابق سینیٹر طارق چودھری نے دوستوں کی ایک مجلس میں کہا تھا کہ ہم اس لحاظ سے بہت خوش نصیب ہیں کہ اپنے بچوں کو فخریہ بتا سکیں گے کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے بڑے لوگوں کو دیکھا ہے۔ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی کتاب ''میرے رہنما... میرے ہم نوا‘‘ سے معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے بہت سے بڑے لوگوں کو بچشمِ خود دیکھا ہے اور اُن سے فیض یاب ہوئے ہیں۔ فاضل مصنف نے اپنی کتاب میں بڑے لوگوں کی حقیقی عظمت کے پُرنور پہلوؤں کو قارئین تک نہایت خوبصورتی کے ساتھ پہنچایا ہے۔
فرید پراچہ اس وقت نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان ہیں۔ موصوف ایک متنوع شخصیت کے مالک اور دین و دنیا دونوں طرح کے زیورِ تعلیم سے آراستہ ہیں۔ فرید پراچہ 1973ء میں جمعیت کی طرف سے پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر رہے پھر 1990ء میں جماعت اسلامی کی نمائندگی کرتے ہوئے صوبائی اسمبلی اور 2002ء میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ فاضل مصنف بیک وقت صاحبِ علم خطیب‘ مسلمہ و متوازن دانشور‘ مدبر سیاستدان اور نہایت دلکش اسلوب کے مالک ادیب ہیں۔ قارئین کے لیے یقینا یہ بات خوش گوار حیرت کا باعث ہو گی کہ ایک ہمہ وقت سیاستدان ہوتے ہوئے انہوں نے شرق و غرب کے تقریباًسات دلچسپ سفرنامے تحریر کیے ہیں اور کئی فکری و نظری کتابیں بھی تخلیق کی ہیں۔ زیر نظر کتاب ''میرے رہنما... میرے ہم نوا‘‘ میں مصنف نے سو کے لگ بھگ ممتاز شخصیات سے اپنی حسین یادوں کا مرقع خوبصورت انداز ِ تحریر میں مرتب کیا ہے۔
اکابرِ جماعت جن میں بانیٔ جماعت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ میاں طفیل محمد‘ قاضی حسین احمد‘ پروفیسر خورشید احمد‘ سید منور حسن‘ سید اسعد گیلانی‘ پروفیسر غلام اعظم اور مطیع الرحمن نظامی شہید اور موجودہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق تک دیگر اہم شخصیات سے مصنف کی ملاقاتیں اور یادداشتیں اس کتاب کی زینت ہیں۔ جماعت سے باہر کی شخصیات میں محترمہ بینظیر بھٹو‘ نوابزادہ نصراللہ خان‘ میاں نواز شریف‘ میاں شہباز شریف‘ مولانا فضل الرحمن‘ منظور وٹو اور درجنوں دیگر سیاسی قائدین کے ساتھ مفید و دلچسپ ملاقاتوں کا تذکرہ بھی کتاب میں نگینوں کی طرح جڑا ہوا ہے۔
مصنف نے لکھا ہے کہ مولانا مودودی نوجوانوں سے بہت شفقت فرماتے تھے‘ اُن کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے تھے اور جہاں کہیں نوجوانوں سے آدابِ زندگی ملحوظ خاطر رکھنے میں کوتاہی سرزد ہوتی وہاں نہایت عمدہ طریقے سے اُن کی سرزنش بھی فرماتے تھے۔ مصنف لکھتے ہیں نوجوانوں سے مولانا کی محبت کا یہ عالم تھا کہ جب بنگلہ دیش نامنظور تحریک چلی اور نوجوانوں نے مصلحتوں کا دامن تار تار کرتے ہوئے اس تحریک میں قربانیوں کی تاریخ رقم کی تو انہی دنوں معلوم ہوا کہ ہمارے کچھ ساتھیوں کو شاہی قلعہ لے جایا گیا ہے۔ شاہی قلعہ ''قلعۂ استبداد‘‘ تھا۔ چنانچہ جب کسی سمت سے ہمیں اپنے ساتھیوں کے بارے میں معلوم نہ ہو سکا تو ہم کچھ ساتھی مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اپنے معمولات کے مطابق مولانا اس وقت اپنی سٹڈی سے گھر کے اندر تشریف لے جا چکے تھے۔ انہوں نے شفقت فرمائی اور ہمیں اپنی آرام گاہ میں ہی بلا لیا۔ کمرے کی مدھم روشنی میں مولانا کا چہرہ عبادت گاہوں کے میناروں پر چمکنے والے چاند کی طرح پُرعظمت اور بابرکت دکھائی دے رہا تھا۔ مولانا نے ہمارے اضطراب کو سنا‘ ہمیں تسلی دی اور بڑے اعتماد کے ساتھ فرمایا ''اگر حکومت نے آپ کے ساتھیوں پر تشدد کا سلسلہ بند نہ کیا اور وثوق سے معلوم ہو گیا کہ آپ کے ساتھیوں کو شاہی قلعے لے جایا گیا ہے تو پھر آپ کو اجازت ہے اُن کے خلاف بھرپور جلوس نکالیں اور اس جلوس کی قیادت میں خود کروں گا‘‘۔ بعد میں یہ خبر غلط ثابت ہوئی۔
ڈاکٹر فرید پراچہ نے مولانا مودودی کے حوالے سے کتاب میں یادداشتوں کے علاوہ کئی تاثراتی مضامین بھی شامل کیے ہیں۔ مصنف کے خیال میں مولانا مودودی کی شخصیت کا کمال یہ ہے کہ جب وہ نوجوان تھے تو انہوں نے اپنے وقت کے بزرگ رہنماؤں کو متاثر کیا اور ان سے خراجِ تحسین وصول کیا۔ مولانا کی فکر ی تحریر کی داد و تحسین کرنے والوں میں علامہ اقبالؒ، مولانا محمد علی جوہر اور جمعیت علمائے ہند کے عالی مرتبت علمائے کرام بھی شامل تھے۔ گویا علامہ اقبالؒ کی دعا کے مطابق یہ جوان پیروں کا اُستاد بن گیا۔ پھر معمر مولانا مودودی نے بزرگوں سے بڑھ کر نوجوانوں کے دلوں کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں نے ایک دینی پیشوا کو اپنا مرکز ِعقیدت کیسے بنا لیا؟ اس سوال کا جواب بھی فرید پراچہ نے اپنی کتاب کے چند صفحات میں دیا ہے۔ مولانا مودودی نے اپنی پچاس ساٹھ سالہ علمی و عملی زندگی میں بلامبالغہ کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا‘ ان کی زندگیوں میں انقلاب برپا کیا اور یہ کارِخیر اسی تواتر بلکہ مزید تیزی کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ اسلامی دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ہو جہاں فکرِ مودودی نے اپنا رنگ نہ جمایا ہو۔ پاکستان میں جماعت اسلامی کے قارئین کی اس کہکشاں کی طرف نظر دوڑائیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ سب مولانا مودودی کا فیضانِ نظر ہے۔ فرید پراچہ کے مطابق مولانا کی سب سے بڑی خوبی اُن کے انقلابی نظریات اور قول و فعل کی ہم آہنگی ہے۔ مولانا کی دوسری صفت اُن کی ثابت قدمی تھی۔ انہوں نے تختۂ دار پر بھی کلمۂ حق بلند کیا تھا۔ مولانا کی تیسری صفت یہ ہے کہ انہوں نے اسلام کے بارے میں معذرت خواہانہ نہیں جرأت مندانہ داعیانہ طرزِ عمل اختیار کیا۔ اسی لیے مشرق و مغرب سے اٹھنے والی ساری اسلامی تحریکیں مولانا مودودی کو اپنا امام تسلیم کرتی ہیں۔
مولانا مودودی کے قریبی ساتھی اور برسوں جماعت اسلامی کے امیر رہنے والے میاں طفیل محمد کی درویشانہ زندگی کے بارے میں مصنف نے ایسے واقعات کا ذکر کیا ہے کہ جن کے بارے یقین ہی نہیں آتا کہ وہ اس دور کے رہنے والے تھے۔ تبھی تو مصنف نے ان کے بارے لکھا ہے کہ ''وہ ہمارے زمانے میں رہے‘ لیکن وہ ہمارے زمانے کے نہیں تھے۔ یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب رہنے والے تھے‘‘۔ میاں صاحب کی سادگی‘ درویشی‘ خدا ترسی اور جرأت مندی کے جو واقعات فاضل مصنف نے تحریر کیے ہیں وہ پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ فرید پراچہ نے جن اکابر کا ذکر کیا ہے اُن میں سے اکثر کے ساتھ میری بھی نیازمندی ہے۔ 1970ء کی دہائی میں میاں طفیل محمد رابطہ عالمِ اسلامی کی کانفرنس میں شرکت کے لیے تشریف لائے تو مجھے اُن کے مرافق کی حیثیت سے کئی روز تک اُن کے ساتھ رہنے اور اُن کی درویشی و عبادت گزاری کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ زعمائے کانفرنس کو ایک روز خانہ کعبہ کے اندر لے جایا گیا۔ میاں طفیل محمد کے طفیل اس عاصی کو بھی خانہ کعبہ کے اندر اذنِ بار یابی نصیب ہوا۔
فرید پراچہ کی اس کتاب میں زعمائے جماعت کے علاوہ قائدِ حریت سید علی گیلانی‘ علمائے کرام و مشائخِ عظام‘ علمی و صحافتی شخصیات‘ احباب و رفقا اور ذاتی معاونین تک کا ذکر ہے۔ کتاب میں عوامی جمہوریہ چین کے صدر عزت مآب ہوجن تاؤ‘ اسلامی ایران کی ممتاز شخصیات‘ کینیڈین رکنِ پارلیمنٹ مسز کیرولین پرش اور قومی و سیاسی شخصیات بالخصوص محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان‘ ڈاکٹر محمد امجد ثاقب‘ خواجہ محمد رفیق شہید اور حافظ حسین احمد سے ملاقاتوں کا تاریخی تذکرہ بھی کتاب میں موجود ہے۔ یہ فرید پراچہ کے پُرکشش قلم کا اعجاز ہے کہ قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ مصنف کی انگلی پکڑ کر بنفسِ نفیس اُن شخصیات سے شرفِ ملاقات حاصل کر رہا ہے جن کا ''میرے رہنما... میرے ہم نوا‘‘ میں تذکرہ کیا گیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں