طوفان الاقصیٰ کا پیغام

ہفتہ کے روز حماس کے جانبازوں نے زمینی‘ فضائی اور بحری راستوں سے اسرائیل پر حملہ کرکے ساری دنیا کو حیران کر دیا اور اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے تصور کو پاش پاش کر دیا ہے۔ حماس کے مسلح گروپ القسّام کے کمانڈر محمد الضیف نے ایک پیغام میں دنیا کو مطلع کیا کہ ہم نے اسرائیل پر حملہ نہیں کیا بلکہ غزہ پر اسرائیلی بمباری اور مسجدِ اقصیٰ پر صہیونی حملوں کا جواب دیا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیلی فوجیں آئے روز غزہ اور دوسرے کئی فلسطینی شہروں پر بلااشتعال گولہ باری کرتی رہی ہیں اور مظلوم فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارتی رہی ہیں۔ اسی طرح فلسطین میں دریائے اُردن کے مغربی کنارے پر اسرائیل بزورِ شمشیر صہیونی بستیاں تعمیر کر رہا ہے اور فلسطینیوں کو ان کی ملکیتی زمینوں اور مکانوں سے بے دخل کر رہا ہے۔
آپریشن ''طوفان الاقصیٰ‘‘ کے اسرائیل پر پہلے ہی حملے میں غزہ سے پانچ ہزار راکٹ فائر کیے گئے۔ اس کے ساتھ ہی بیک وقت آناً فاناً فلسطینی مجاہدین موٹر سائیکلوں‘ کشتیوں اور پیراگلائیڈنگ کے ذریعے اسرائیل میں داخل ہو گئے۔ پیر تک حماس اور صہیونی فوجیوں کے درمیان لڑائی میں اسرائیلی فوجیوں سمیت 700صیہونی ہلاک اور 500کے قریب فلسطینی شہید ہو چکے تھے جن میں معصوم بچے بھی شامل ہیں جبکہ دونوں طرف کے زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ فلسطینی میزائلوں کا ہدف تو اسرائیل کے بڑے بڑے شہر تھے لیکن بری و بحری کارروائی تو غزہ کے علاقے میں کی گئی۔ غزہ کی پٹی کے اردگرد 25سے 30کلومیٹر تک کا علاقہ غلافِ غزہ کہلاتا ہے جہاں یہودی آبادکاروں کے پانچ بڑے شہر آباد ہیں۔ ہفتہ کے روز فلسطینی مجاہدین نے غلافِ غزہ میں واقع 20دفاعی تنصیبات کو اپنا نشانہ بنایا تھا۔ اسرائیلی سر پکڑ کر بیٹھے ہیں کہ مخبروں‘ انٹیلی جنس ایجنٹوں اور غزہ کے سرحدی علاقوں میں رات دن گشت کرتے ہوئے فوجیوں کی موجودگی کے باوجود القسّام بریگیڈ اتنا بڑا حملہ کرنے میں کیسے کامیاب ہو گیا۔
اب ذرا عالمی امن کے دعویداروں کا رویہ ملاحظہ کیجئے۔ اپنے دفاع کے لیے اپنے محدود ذرائع یعنی ٹینک کے مقابلے میں غلیل بدست فلسطینیوں نے اپنی جرأت و ذہانت اور جنگی حکمت عملی سے حملہ کیا ہے تو امریکی صدر جوبائیڈن اور برطانوی و بھارتی وزرائے اعظم نے اس کی مذمت کی‘ مگر جب گزشتہ کئی دہائیوں سے بالعموم اور 2023ء میں بالخصوص اسرائیل ریاستی دہشت گردی سے کام لیتے ہوئے فلسطینیوں پر جہازوں سے بمباری اور ٹینکوں سے گولہ باری کرتا رہا تو کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ اگرچہ عرب اور اسلامی دنیا کی طرف اسرائیلی جارحیت کی مذمت اور فلسطینیوں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا سوائے ایران سے اور کہیں سے کوئی بیان نہیں آیا‘ تاہم سعودی عرب اور قطر نے حماس کے حملے کو اسرائیلی کارروائیوں کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ غزہ کے فلسطینی علاقے میں اسلام پسند جماعت صاف شفاف انتخابات کے ذریعے یہاں کی حکمران ہے۔ حماس کی بنیاد شیخ احمد یاسین نے 1987ء میں رکھی تھی۔ اس جماعت کے قائدین و کارکنان کے بارے میں سعودی عرب میں میرے فلسطینی دوست بڑی حیران کن باتیں بتایا کرتے تھے۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ حماس کا خدمتِ خلق کا شعبہ خوراک‘ تعلیم‘ علاج معالجے اور روزگار کے لیے عوام کی بے پناہ خدمت کرتا ہے۔ مدد لوگوں کے گھروں کی دہلیز تک پہنچتی ہے اور یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ مدد کرنے والا کون ہے۔ حماس کی دیانت و امانت پر آج تک کسی مخالف نے بھی انگلی نہیں اٹھائی۔
حماس کے اسرائیل پر جوابی حملے اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے اعلانِ جنگ پر سعودی عرب‘ مصر اور ترکیہ وغیرہ نے طرفین سے مزید جنگی کارروائیاں روکنے اور مزید خون بہانے سے اجتناب کی اپیل کی ہے جبکہ دنیا کی سب سے بڑی سپرپاور نے آگ کے شعلے بھڑکانے سے رُکنے کے بجائے اسرائیل کو تھپکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم تمہارے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے ہیں۔ تازہ خبروں کے مطابق امریکی بحری بیڑا بھی اسرائیل کی طرف چل پڑا ہے۔ اگر روس یوکرین پر حملہ کرے تو یہ جارحیت ہے اور اگر اسرائیل برسوں سے غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں پر آتش و آہن کی خوفناک بارش برسائے تو یہ اس کا جارحانہ حق ہے۔
حماس کے اس حملے کے تین محرکات نظر آتے ہیں۔ پہلا محرک یہ ہے کہ اسرائیل کی مسجد اقصیٰ میں مسلسل اشتعال انگیزی اور فلسطینیوں پر شب و روز ڈھائے جانے والے مظالم کا جواب دیا جائے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا طلسم توڑا جائے اور دنیا کو بتایا جائے کہ فلسطینیوں کی قوتِ مزاحمت و مدافعت کم نہیں ہوئی بلکہ اس میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ حماس کے حملے کا تیسرا مگر سب سے اہم سبب یہ ہے کہ ان عرب بھائیوں کو باور کرایا جائے کہ جو فلسطینیوں کو اسرائیلی جارحیت کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اس غاصب صہیونی ریاست کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ دوستانہ روابط استوار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اس موقع پر ا سلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت پاکستان کی طرف سے کوئی جاندار بیان سامنے نہیں آیا۔ قارئین کو ایک دو بار پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ اہلِ فلسطین ارضِ پاکستان اور یہاں کے عوام کے ساتھ بہت محبت کرتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے ساتھ بہت سی امیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں۔ جب 1998ء میں پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تو مسجد اقصیٰ کے خطیب نے بڑے پُرجوش انداز میں اپنے خطبۂ جمعہ میں کہاتھا کہ ''ھذہٖ لیست قوۃ الباکستان ولکن ھی قوّۃ الاسلام‘‘۔ کہ یہ صرف پاکستان کی نہیں بلکہ عالمِ اسلام کی قوت ہے۔ پاکستانی سینیٹ کا فی الفور اجلاس طلب کیا جائے اور اہلِ فلسطین سے بھرپور یکجہتی کا اعلان کیا جائے۔
پاکستان سفارتی ذرائع استعمال کرتے ہوئے اسلامی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس بلائے۔ اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی آبادی ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہے۔ اس اجلاس میں مشترکہ اور متفقہ موقف اختیار کیا جائے کہ اسرائیل اپنے ہی کیے ہوئے اوسلو جیسے کسی معاہدے پر عملدرآمد نہیں کرتا۔ یہ معاہدہ صدر بل کلنٹن کے زمانے میں ستمبر 1993ء میں اسرائیلی وزیراعظم و صدر اور یاسر عرفات کے درمیان طے پایا تھا۔ اس معاہدے کے تحت پی ایل او نے اہلِ فلسطین کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور اسرائیل نے فلسطینیوں کی ریاست کا ایک گول مول وعدۂ فردا کیا تھا کہ جو آج تک وفا نہیں ہوا۔
اس وقت اسرائیل میں چھ سیاسی پارٹیوں کی کولیشن حکومت ہے۔ ان میں لیکویڈ پارٹی‘ متحدہ صہیونی پارٹی‘ شاس اور مذہبی صہیونی پارٹی نمایاں ہیں۔ ساری حکومتی پارٹیاں انتہا پسند اور فاشسٹ ہیں۔ وہ فلسطینیوں کو ان کی اپنی سرزمین پر جینے کا حق دینے کو بھی تیار نہیں۔ اوسلو معاہدے کی ناکامی کے بعد 2002ء میں سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ نے ''لینڈ فار پیس‘‘ کا فارمولا پیش کیا تھا۔ اس فارمولے کو امریکہ نے بھی پسند کیا تھا مگر اسرائیل نے اسے تسلیم نہیں کیا۔ اسرائیل کو یہ خیال دل سے نکال دینا چاہیے کہ جارحیت سے وہ فلسطینیوں کو دبا لے گا اور خطے میں امن قائم کر لے گا۔ قدرت نے اس وقت جواں سال سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو ایک تاریخی کردار ادا کرنے کا موقع دیا ہے۔ سعودی ولی عہد او آئی سی کے اجلاس میں متفقہ طور پر اعلان کریں کہ جب تک اسرائیل 2002ء والے سعودی فارمولے کے مطابق 1967ء سے پہلے کے علاقوں پر فلسطینیوں کی بااختیار ریاست کا فارمولا تسلیم نہیں کرتا اس وقت تک ہم اسرائیل کے ساتھ کسی طرح کے تعلقات قائم نہیں کریں گے۔
ارضِ فلسطین پر ایک خودمختار فلسطینی حکومت ہی مسجد اقصیٰ کی پکار ہے اور یہی طوفان الاقصیٰ کا پیغام ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں