جنابِ وزیراعلیٰ‘آپ کس طرف چل پڑے ہیں

نگران وزیراعلیٰ جناب محسن نقوی کا تعلق اگرچہ میڈیا سے ہے مگر ہماری اُن سے کوئی ذاتی ملاقات نہیں۔ شاید اس کا سبب یہ ہے کہ میڈیا ہماری پہلی نہیں دوسری محبت ہے جبکہ درس و تدریس ہماری پہلی محبت تھی۔ 13اکتوبر کے اخبارات میں ایک تصویر دیکھ کر دل غمناک اور آنکھیں نمناک ہو گئیں۔ اس تصویر میں مرد و خواتین اساتذہ پر لاٹھی چارج کرتے ہوئے اور دھکے دیتے ہوئے پنجاب پولیس کے جوان انہیں گاڑی میں ٹھونس رہے ہیں۔تصویر میں ایک معزز خاتون ٹیچر بس کے دروازے پر حیران و پریشان کھڑی وکٹری کا نشان بنا رہی ہے۔ اساتذہ کے ساتھ اس توہین آمیز سلوک کی تصاویر دنیا کے میڈیا پر جہاں جہاں دکھائی یا شائع کی جائیں گی وہاں وہاں ہماری رہی سہی عزّت بھی ملیا میٹ ہو جائے گی۔ گزشتہ دو تین روز کی خبریں کھنگالنے اور متعلقہ حلقوں سے معلومات حاصل کرنے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ پنجاب کے سارے سرکاری ملازمین بالعموم اور معلمین و معلمات کہ جن میں سرکاری سکولوں اور کالجوں کے اساتذہ شامل ہیں بالخصوص کیوں احتجاج کر رہے ہیں۔ اساتذہ کے احتجاج کا سب سے پہلا مطالبہ یہ ہے کہ سرکاری سکولوں کو پرائیویٹائز نہ کیا جائے۔
اساتذہ سمیت پنجاب کے سرکاری ملازمین کے دو مطالبات ہیں اور وہ ہیں کہ نگران حکومت کسی بھی سرکاری ملازم کی مدت ملازمت کے خاتمے پر چھٹیوں کی سہولت سے استفادہ نہ کرنے کی صورت میں جو یکمشت معاوضہ ملتا تھا اس کے خاتمے کا فیصلہ واپس لے۔ دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ پنشن کے قواعد و ضوابط میں حکومت پنجاب جو تبدیلیاں کرنا چاہتی ہے اُن کو روک دیا جائے۔ نگران حکومت نے ان مطالبات پر ملازمین کی تنظیموں سے مذاکرات کرنے اور اچانک نازل ہونے والے حکم شاہی کی مصلحت سمجھانے کی بجائے 12اکتوبر کو 230کی تعداد میں احتجاج کرنے والے اساتذہ کو سلام ٹیچرز ڈے کے ٹھیک ایک ہفتے کے بعد لاہور میں لاٹھی چارج اور گرفتاری کی صورت میں سلامی دی۔اسی طرح ایک برس قبل سلام ٹیچرز ڈے کے صرف ایک روز بعد 6اکتوبر 2022ء کو پشاور میں خیبرپختونخوا اسمبلی کے باہر پولیس نے ہزاروں پرائمری سکول اساتذہ پر بہیمانہ تشدد اور لاٹھی چارج کر کے انہیں سلامی دی تھی۔ثابت ہوا کہ پاکستان کے کسی صوبے کا وزیراعلیٰ چاہے صاحب دل دانشور ہی کیوں نہ ہو مسندِ شاہی پر متمکن ہو کر اس کا زاویۂ نگاہ بدل جاتا ہے اور وہ پولیس کلچر کا اسیر ہو جاتا ہے۔ثقہ اخبارات کی خبروں کے مطابق پنجاب کی نگران حکومت مختلف اضلاع میں ایک ہزار سے زائد بہترین عمارتوں اور کھیل کے میدانوں والے سرکاری سکولوں کو ایک این جی او کے حوالے کرنا چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے 10اکتوبر کو مسلم ہینڈز پاکستان کے چیئرمین سید لخت حسنین کے ساتھ ایک میمورنڈم آف انڈر سٹینڈنگ پر دستخط کئے۔ دہائیوں کے معروف و ممتاز سرکاری اداروں کو مسلم ہینڈز کو ہینڈ اوور کرنے کا فرمان جاری فرما دیا۔
بحیثیت نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی صاحب کے بارے میں میرا خوشگوار تصور تھا۔ جس طرح سے وہ ہسپتالوں کے دورے فرما رہے تھے‘ سکولوں کو وزٹ کر رہے تھے‘ سڑکوں اور فلائی اوورز کے تعمیراتی منصوبوں کی بروقت تکمیل پر توجہ دے رہے تھے ا س سے اُن کے بارے میں ایک مثبت تاثر ابھر رہا تھا۔ مگر مقام حیرت ہے کہ وزیراعلیٰ کو اچانک پُرسکون پانی میں پتھر پھینک کر ہلچل مچانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔غریب پرور بلکہ بہت سی جگہوں پر ''امیر پرور‘‘ سرکاری سکولوں کے بارے میں انہوں نے کیونکر یہ گمان کر لیا کہ وہاں اچھی پڑھائی نہیں ہو رہی۔
میرا تعلق سرگودھا سے ہے وہاں جس سرکاری ادارے گورنمنٹ ہائی سکول نمبر ون سے میں نے میٹرک کیا تھا وہ آج بھی ایک ممتاز ادارے کی شہرت رکھتا ہے۔ اسی طرح یونیورسٹی آف سرگودھا سے متصل گورنمنٹ کمپری ہینسو گرلز ہائی سکول اور سٹیڈیم روڈ پر واقع گورنمنٹ جامع بوائز ہائی سکول ڈویژن بھر کے اعلیٰ ادارے شمار ہوتے ہیں۔ ان کے اردگرد آٹھ دس مختلف برانڈز کے سکول ہیں مگر سرگودھا کے نسبتاًخوشحال علاقے کے لوگ اپنے بچوں کو ان سرکاری اداروں میں بھیجنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔آج بھی اکثر ضلعی مقامات ‘ تحصیلوں اور قصبوں میں سرکاری سکولز اپنی قدیم شاندار روایات کے امین ہیں۔یہاں سے ہی تعلیم حاصل کر کے غریب بچے میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں تک پہنچتے ہیں اور سول سروس کے امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ اس وقت پنجاب بھر کے سرکاری سکولوں کے اساتذہ جیلوں میں ہیں یا سڑکوں پر ہیں۔ اگر خدانخواستہ بلڈوز کر کے سرکاری سکولوں کی ایک بڑی تعداد کو این جی اوز کے حوالے کر دیا جاتا ہے اور این جی اوز چار پانچ ہزار سے لے کر بارہ پندرہ ہزار تک ماہانہ فیسیں وصول کرتیں ہیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ پنجاب میں غریبوں پر تعلیم کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں۔ اس وقت تو سرکاری سکولوں میں بچے تقریباً مفت پڑھ رہے ہیں۔ اگر انہیں فیس دینا پڑی تو کروڑوں غریب بچے سکول چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔اگر کسی این جی او کو خدمت ِخلق کا اتنا ہی خیال ہے تو پھر وہ پاکستان کے اُن پونے تین کروڑ بچوں کو زیور ِتعلیم سے آراستہ کرنے کا بیڑا اٹھا لے جنہوں نے آج تک سکول کا منہ نہیں دیکھا۔
اساتذہ سمیت پنجاب کے سرکاری ملازمین کادوسرا مسئلہ یہ ہے کہ پہلے ہر سرکاری ملازم کو سالانہ بارہ چھٹیاں نہ لینے یا کم لینے کی صورت میں مدتِ ملازمت کے خاتمے پر حساب کتاب لگا کر اُن کا معاوضہ ملتا تھا۔ حکومت نے یہ معاوضہ بند کردیا ہے۔ سرکاری ملازمین کا مطالبہ ہے کہ حکومت یہ نوٹیفکیشن واپس لے ۔ اس کے علاوہ حکومتِ پنجاب نے پنشن کے قواعد و ضوابط میں بھی بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کر دی ہیں جس کا بہت بڑا نقصان پنجاب کے سرکاری ملازمین کو پہنچے گا۔ ہر سرکاری ملازم کو بوقت ریٹائرمنٹ کئی لاکھ کا نقصان اٹھانے پڑے گا۔ غرضیکہ مہنگائی کے ہاتھوں ستائے ہوئے سرکاری ملازم کو پنشن کی صورت میں ملنے والا ریلیف اب بہت کم رہ جائے گا۔اسی ریلیف سے تو ریٹائر ہونے والوں نے زندگی بھر کے رُکے ہوئے کاموں مثلاً بچوں کی شادیاں اورچھوٹی موٹی چھت کا سوچ رکھا ہوتا ہے۔ اگر سفید پوشوں کی اس طرح کمائی لٹ جائے گی تو ساغر صدیقی کے الفاظ میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ؎
جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس دور کے سلطاں سے کوئی بھول ہوئی ہے
وزیراعلیٰ اپنی مٹھی میں بند سرکاری ملازمین سے جبری وصولیاں کرنے کی بجائے ان تاجروں سے ٹیکس کیوں نہیں لیتے جو کروڑوں ماہانہ کماتے ہیں اورسرکاری خزانے میں ہزاروں بھی جمع نہیں کراتے۔ نقوی صاحب کو یاد دلا دوں کہ معلم کون ہوتا ہے؟ معلم ہمیں حرف شناسی سکھاتا ہے‘ وہ مشتِ خاک کو گوہر تابدار بناتا ہے۔ مختصراً معلم وہ ہے جو خود کسی مقصد کا دیوانہ ہوتا ہے اور دوسروں میں بھی ایسی ہی دیوانگی بھر دیتا ہے۔واجب الاحترام معلمین سے پنجاب کی اعلیٰ تعلیم یافتہ حکومت کا ایسا سلوک ان کے مجموعی خوشگوار تاثر کے منافی ہے۔ جناب وزیراعلیٰ‘ آپ کس راستے کی طرف چل پڑے ہیں۔ اس طرح کے نامطلوب و نامرغوب فیصلوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر کیوں اٹھانا چاہتے ہیں جو بحیثیت نگران آپ کی ذمہ داریوں میں شامل نہیں۔ ہماری نگران وزیراعلیٰ سے درخواست ہو گی کہ وہ اساتذہ کی فی الفور رہائی کو یقینی بنائیں اور اُن کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کریں اورسرکاری سکولوں کوپرائیویٹائز کرنے سے اجتناب فرمائیں۔اس کے بجائے وہ سرکاری سکولوں میں اصلاحی و فلاحی پروگرام پر توجہ مرکوز کریں۔نیز اساتذہ و دیگر ملازمین کی پنشن اور اُن کے حقوق میں کٹوتیاں نہ فرمائیں۔ پنجاب کے اساتذہ اور ملازمین کو وزیراعلیٰ سے فیض ہی فیض کی توقع ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں