کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے

میاں نواز شریف واپس وطن آ گئے ہیں۔ انہوں نے اپنے بھائی سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا اور اپنے خطاب میں مزاحمتی بیانیے سے مکمل اجتناب کیا‘ تاہم بظاہر انہوں نے کچھ نہ کہا مگر بہت کچھ کہہ بھی گئے۔ اگرچہ شعر و شاعری میاں شہباز شریف کا شعبہ ہے مگر شبِ رفتہ مینارِ پاکستان پر عوام کے جمِ غفیر سے خطاب کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے بھی حسبِ حال کئی اشعار پڑھے۔ پہلے ہی شعر میں میاں صاحب نے شکایتِ زمانہ تو نہ کی مگر حالِ دل کی بڑی واضح عکاسی کر دی۔
کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں
وہ میری طرف دیکھیں تو میں سلام کروں
یہ شعر شکیل بدایونی کا ہے۔ ایک شاعر دوست نے بتایا کہ یہ اشعار یوں بھی مذکور ہیں:
سکونِ دل کے لیے کچھ تو اہتمام کروں
ذرا نظر جو ملے تو انہیں سلام کروں
مجھے تو ہوش نہیں آپ مشورہ دیجئے
کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں
فسانۂ دل کے لیے یقینا میاں صاحب نے وسیع تر ''مشورہ‘‘ کیا ہوگا۔ حاضری کے اعتبار سے یہ ایک بہت بڑا جلسہ تھا۔ عموماً سیاسی قائدین اپنے سامنے عوام کا سمندر دیکھ کر ڈی ٹریک ہو جاتے ہیں اور وہ کچھ کہہ جاتے ہیں جو نہیں کہنا ہوتا کیونکہ کمان سے نکلا ہوا تیر واپس نہیں آ سکتا۔ میاں صاحب کو اس حقیقت کا ادراک تھا۔ اس لیے انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں نے کوئی ایسی بات نہیں کی جو سمجھتا ہوں کہ نہیں کرنی چاہیے۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد نے کہا کہ میں انتقام لینے نہیں‘ ملک کی خدمت کرنے آیا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی اداروں‘ سیاسی جماعتوں‘ سیاستدانوں اور ریاستی ستونوں کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ آئین پر عمل درآمد ہو سکے۔ انہوں نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو پتا ہے نا کہ دھرنے کون کروا رہا تھا۔ میاں نواز شریف نے اس بنیادی مرض کو دور کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا جس کی بنا پر ملک بار بار حادثے کا شکار ہو جاتا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد نے 2013ء سے 2017ء تک اپنی وزارتِ عظمیٰ کا دور سامعین کو یاد دلایا اور اس زمانے کی ترقی کی کھینچی جب موٹروے کے بیشتر منصوبے زیر تعمیر تھے‘ جب روٹی چار روپے کی اور چینی 50روپے کلو تھی‘ جب پٹرول 60 روپے لٹر تھا‘ جب کم ریٹس پر چوبیس گھنٹے بجلی موجود تھی اور غربت و بے روزگاری نہیں تھی۔ انہوں نے پُرجوش طریقے سے کہا کہ وہ پرانا سنہری زمانہ واپس لائیں گے۔انہوں نے ایک جہاندیدہ اور گرم وسرد چشیدہ حکمران اور ایک ماہر سیاسی طبیب کی حیثیت سے پاکستانی سیاست کے بیشتر امراض کی درست تشخیص کی ہے مگر انہوں نے ان امراض کا کوئی علاج تجویز نہیں کیا۔ مثلاً انہوں نے یہ اعلان تو کیا کہ ان کے دل میں انتقام کی کوئی خواہش نہیں مگر انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں عفو و درگزر کی کسی پالیسی کا تذکرہ بھی نہیں کیا۔ اسی طرح انہوں نے معیشت کے حوالے سے بہت سی نیک خواہشات اور خوش کن تمناؤں کا ذکر تو کیا مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ معاشی ابتری سے خوش حالی کی طرف واپسی کا سفر کیونکر طے ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے یہ سلوگن دیا گیا تھا کہ میاں نواز شریف 21اکتوبر کو مینارِ پاکستان پر جان لیوا معاشی مشکلات سے نکلنے کا منصوبہ پیش کریں گے‘ مگر ایسا کوئی منصوبہ وہاں سننے میں نہیں آیا۔میاں نواز شریف نے اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں پر ڈھائی جانے والی قیامت کا ذکر کیا اور عالمی قوتوں پر زور دیا کہ وہ اہلِ فلسطین کو اُن کا حق دیں اور اس مسئلے کو حل کریں۔ میاں صاحب کو یقینا اندازہ ہوگا کہ مغربی قوتوں کی طرف بھیجی جانے والی ہر پکار صد الصحرا ثابت ہو رہی ہے۔ عالمِ اسلام کے مسلمان پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیلی مظالم کا خاتمہ کروانے کیلئے کیا اعلان کرتا ہے ۔ قائد مسلم لیگ (ن) نے مسئلہ کشمیر کو وقار کیساتھ حل کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی۔
ہمارے خیال میں اس وقت میاں نواز شریف کو تین بہت بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔ ان کیلئے سب سے بڑا چیلنج تو یہ ہے کہ اپنی پارٹی کو کئی سال پہلے کی پوزیشن پر کیسے واپس لانا ہے۔ ہمیں پارٹی کے اندرونی معاملات کے بارے میں تو تفصیلات معلوم نہیں مگر منظر عام پر آنے والی خبروں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پہلے پارٹی سے پوٹھوہار بیلٹ کے سینئر سیاست دان اور کئی دہائیوں سے میاں نواز شریف کے قریب ترین سیاسی ساتھی چودھری نثار نالاں و ناراض تھے مگر اب مسلم لیگ (ن) کے اندر بعض سنجیدہ سیاست دانوں کی ایک قطار بوجوہ برگشتہ ہے۔ اپنی جماعت سے برس ہا برس پرانی وابستگی رکھنے والی نمایاں شخصیات میں خیبرپختونخوا کے ظفر اقبال جھگڑا‘ مہتاب عباسی‘ پنجاب کے شاہد خاقان عباسی اور سندھ کے مفتاح اسماعیل وغیرہ شامل ہیں۔میاں صاحب کو یقینا ادراک ہوگا کہ پرانے ساتھی کسی سیاسی پارٹی کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ نیز اندرونی اتحاد سیاسی پارٹی کی بہت بڑی قوت ہوتا ہے۔ ہمارے قیامِ اسلام آباد کے دوران جناب ظفر اقبال جھگڑا صاحب سے اکثر ہماری ملاقاتیں رہتی تھیں۔ وہ دل و جان سے اپنی پارٹی پر فدا تھے اور گفتگو میں زبردست سیاسی سوجھ بوجھ کا ثبوت دیا کرتے تھے۔ شاعر نے تو کہا تھا کہ
تجھ سے بچھڑ کے صحبتِ گل میں ملا قرار
اس میں بھی کچھ تو ہے تری بوباس کی طرح
چودھری نثار صاحب کے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ جو بھی اختلاقات ہوں گے مگر انہوں نے ''تُو نہیں تو اور سہی‘‘ والا رویہ اختیار نہیں کیا اور تعلقات کی کلاسیکل روایات کے مطابق علیحدگی کے بعد کسی اور پارٹی میں شمولیت کی کسی پیشکش کو قبول نہیں کیا۔ میاں نواز شریف کو اپنے پرانے ساتھیوں کی پارٹی میں واپسی کیلئے سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے۔ ان قائدین کی واپسی سے پارٹی مضبوط ہوگی۔
میاں نواز شریف کیلئے دوسرا چیلنج یہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ریاستی ادارے‘ سیاسی جماعتیں‘ سیاستدان اور ریاست کے دیگر ستون مل جل کر کام کریں۔ ''مل جل کر کام کرنے‘‘ کے بارے میں ان کے پاس دوسری جماعتوں کو سیاست و انتخاب میں یکساں مواقع دینے کے بارے میں کسی فراخدلانہ پالیسی کا کوئی پلان نہیں؟ ریاستی و سیاسی اداروں کے اپنے اپنے دائرہ کار میں سرگرم عمل رہنے اور آئین کی بالادستی کیلئے مل جل کر کام کرنے کی خواہش بڑی وقیع ہے مگر اس پر عمل درآمد کیسے ہوگا؟ جلسے میں میاں صاحب نے لوگوں کو نصیحت کی کہ آئندہ کسی کو ملک سے کھلواڑ کی اجازت نہ دینا۔ یقینا عوام کو بھی اپنی آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں‘ تاہم بنیادی طور پر یہ سیاست دانوں کی ذمہ داری ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ عاشقی کی طرح سیاست بھی ایک صبر طلب کام ہے۔ لہٰذا انہیں تمنائے بیتاب کو اگلے انتخابات تک اپنے سینے میں تھام کر رکھنا چاہیے۔ اس کیلئے بھی میاں نواز شریف کو کوئی عملی پروگرام دینا ہوگا۔
میاں نواز شریف کیلئے تیسرا چیلنج معاشی ہے۔ ان سے لوگوں نے خوشحالی کی بڑی امیدیں وابستہ کر لی ہیں۔ اس کے بارے میں تاحال مسلم لیگ (ن) کے قائد کی طرف سے کوئی روڈمیپ سامنے نہیں آیا۔ میاں نواز شریف کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ کب اس اسمِ اعظم کی نقاب کشائی کریں گے جس کے ورد سے ملک ایک ہی طرح کے دائرے کے چکر سے آزاد ہوگا اور جمہوری وانتخابی گاڑی شاہراہِ دستور پر رواں دواں ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں