ھبہ ابو ندیٰ

عالم ِعرب کی شہرت یافتہ 32سالہ فلسطینی ناول نگار اور شاعرہ کا تعلق خان یونس جنوبی غزہ سے تھا۔ 20اکتوبر کو اسرائیلی بمبار طیاروں نے اس نسبتاً پُرامن رہائشی علاقے پر شدید بمباری کی جس میں دلوں پر دستک دینے والی شاعرہ کی زندگی کا چراغ بھی گُل ہو گیا۔ اپنی شہادت سے چند روز قبل اعلیٰ تعلیم یافتہ ھبہ نے اپنی آخری پوسٹ میں ایک نظم اور کچھ نثر پارے رقم کیے تھے میں اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا تھا۔پہلے نظم ملاحظہ کیجئے:
غزہ کی رات نہایت تاریک ہے سوائے برستے راکٹوں کی روشنی کے
ہر طرف مکمل خامشی ہے سوائے چنگھاڑتے بموں کے شور کے
چاروں اور دہشت و وحشت ہے سوائے دعا کی راحت کے
میرے اردگرد سیاہی ہی سیاہی ہے سوائے شہدا کے چہروں سے پھوٹتے نور کے
شب بخیر غزہ
ایوارڈ یافتہ ناول ''الاآکسیجن لیس للموتی‘‘ یعنی ''آکسیجن متوفی کیلئے نہیں‘‘ کی مصنفہ ھبہ نے لکھا تھا: اگرچہ عدو نے ہماری بستی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے مگر ہم اس کھنڈر کی صفائی کر کے یہاں ایک جنت نظیرشہر بسائیں گے۔ دائمی امن اور محبت کے نغمے گنگنانے والوں کو یہاں وہ سب کچھ ملے گا جس کی انہیں تمنا ہے۔ یہ ایک ایسا غزہ ہوگا جو دکھوں اور غموں سے پاک ہوگا۔ اپنی پوسٹ کی آخری سطر میں شاعرہ نے لکھا تھا کہ اگر میں رتبۂ شہادت پر فائز ہو جاؤں تو سمجھ لینا کہ میں دوسرے شہدا کے ساتھ کامیاب ہو گئی ہوں۔
حیرت ہوتی ہے کہ آتش و آہن کی برسات اور زمیں بوس ہوتی ہوئی عمارتوں اور شہیدوں کی بہتات دیکھ کر بھی اہلِ غزہ کے جوانوں کے ہی نہیں بچوں اور عورتوں کے بھی آزادی اور دفاع کے لیے جذبے سلامت ہیں۔ جونہی بمباری چند لمحوں کیلئے تھمتی ہے پھول سے بچے بستی کے کھنڈرات کنارے نہایت سکون سے حسنِ قرأت کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کرتے سنائی دیتے ہیں۔
اہلِ غزہ کی ہمت و حوصلہ اپنی جگہ مگر عالمی امن کے ٹھیکیداروں کی سنگ دلی اپنی جگہ۔ اسی طرح عالم اسلام کے حکمرانوں کی عمومی بے حسی بھی اپنی مثال آپ ہے۔ کسی مسلمان حکمران نے مغرب کی طرف سے اسرائیل کی بلامشروط حمایت پر دو ٹوک بیان نہیں دیا ۔ تاہم بدھ کے روز عالمِ عرب سے ایک پُرزور آواز بلند ہوئی ہے۔ اردن کی فلسطینی نژاد ملکہ رانیہ نے جرأت مندانہ انداز میں مغرب پر تنقید کی ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ غزہ کے خلاف اسرائیلی جنگ پر مغربی دنیا کا دہرا معیار ہے۔ وہ اسرائیل کے حق ِدفاع کی بات کرتے ہیں‘ یہ کیسا حقِ دفاع ہے جس میں ہسپتالوں‘ سکولوں‘ گرجا گھروں‘ مسجدوں‘ صحافیوں اور امدادی کارکنوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اردنی ملکہ نے مزید وضاحت سے کہا کہ مغربی میڈیا کے بیانیے کے برعکس غزہ جنگ 7اکتوبر کو شروع نہیں ہوئی یہ 75سال سے جاری فلسطینی عوام کی اَن گنت اموات اور بے دخلی کی جنگ ہے۔ ملکہ رانیہ نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینی مائیں بھی اپنے بچوں سے اتنا ہی پیار کرتی ہیں جتنا دنیا کی دیگر مائیں۔ ملکہ نے مغرب کو یاد دلایا کہ ہم بڑے پیمانے پر شہری آبادی کو قتل ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ غزہ پر بلاتفریق بمباری دیکھ رہے ہیں جس میں کئی خاندان مٹ گئے‘ رہائشی علاقے ملیا میٹ ہو گئے ہیں۔ ملکہ رانیہ نے کہا کہ ہمارے خطے میں عام تاثر یہی ہے کہ مغربی دنیا اسرائیل کو تعاون اور تحفظ فراہم کر کے اس جنگ میں شراکت دار بن چکی ہے۔
دہائیوں سے اردن کے بارے میں یہ تاثر عرب دنیا میں عام ہے کہ وہ مغرب کے بہت قریب ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بڑی مغربی طاقتیں اردن کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ مگر جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے‘ جب مظلوم کی دستگیری تو رہی ایک طرف خود عدل و انصاف اور امن و سلامتی کے ادارے مظلوم اور سوالی بن جاتے ہیں تو پھر مصلحت آمیز خاموشی بھی دم توڑ دیتی ہے۔
اسرائیل کی غزہ پر فضائی اور زمینی حملوں کے نتیجے میں اس وقت تک فلسطینیوں کی سات ہزار سے زائد شہادتیں ہو چکی ہیں۔20ہزار سے زیادہ زخمی ہسپتالوں میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔الجزیرہ کے ایک سینئر رپورٹر وائل اداہدو کی فیملی بھی اسرائیلی حملوں میں شہید ہو چکی ہیں۔ایک خاتون صحافی دا اشرف نے بھی جام شہادت نوش کیا ہے۔ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے غزہ کے دس لاکھ شہری بے گھر ہو چکے ہیں۔
عالم عرب میں نہایت محدود پیمانے پر یہ سوال سوشل میڈیا پر زیر بحث آ رہا ہے کہ دشمن کے شدید ردعمل سے واقفیت کے باوجود حماس نے دشمن پر حملے کا فیصلہ کیوں کیا؟ پاکستان میں بھی چند دانشور حضرات اور کچھ علمائے کرام ایسی ہی سوچ رکھتے ہیں۔ تاہم ایک فلسطینی عالم دین علامہ محمد بن محمدالاسطل نے اس سوال کا کافی و شافی جواب دیا ہے۔اُن کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ فلسطین اور اہلِ فلسطین کے موجودہ حالات اور وہاں کے زمینی حقائق سے آگاہ نہیں وہ بالعموم ایسے سوالات پیش کرتے ہیں۔ علامہ صاحب نے کہا کہ فلسطینی کوئی حملہ کریں یا نہ کریں مگرروزمرہ کی بنیاد پر اسرائیل جارحیت سے کام لیتے ہوئے راکٹ داغتا اور بمباری کرتا ہے۔ اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کی توہین اور وہاں نمازوں کی ادائیگی سے فلسطینی مسلمانوں کو بزور روکتا ہے۔ اسرائیل فلسطینی نوجوانوں کو گرفتار کرتا اور پندرہ پندرہ سال تک بلا کسی جرم اور ثبوت کے انہیں غلاظت سے بھری تنگ کوٹھڑیوں میں اذیتناک اور ذلت آمیز قیدو بند کی صعوبتوں سے دوچار کرتا ہے۔
گزشتہ پندرہ برس کے دوران اسرائیل جب چاہتا تھا غزہ پر چڑھ دوڑتا تھا۔ اب بھی مجاہدین کو یہ اطلاعات ملی تھیں کہ اسرائیل غزہ پر ایک بار پھر چڑھائی کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ فلسطینی عالم دین کا کہنا یہ ہے کہ جو لوگ ایسے توہین آمیز سلوک سے گزر رہے ہوں انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کب کیسا ردعمل دینا ہے۔
غزہ میں تو اسرائیلی جارحیت کے جواب میں کچھ نہ کچھ مزاحمت ہوتی ہے مگر مغربی کنارے پر تو الفتح کے ''صلح جُو‘‘ محمود عباس کی حکومت ہے۔ اس کے باوجود وہاں یہودیوں نے غاصبانہ قبضہ کر کے اپنی بستیاں بنا لی ہیں اور بات بے بات یہ اسرائیلی گھس بیٹھیے فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارتے رہتے ہیں جنگ کے ان 20دنوں میں یہودیوں نے مغربی کنارے میں بھی ایک سو فلسطینیوں کو بلااشتعال شہید کر دیا ہے۔جو دانشور حضرات اہلِ فلسطین کو ذلت آمیز اسرائیلی سلوک کے باوجود ہاتھ باندھنے اور لب سی رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ وہ یہ بھی فرمائیں کہ جب کمٹمنٹ کر کے اسرائیل دو ریاستی حل کی طرف نہ آئے‘ فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ کر کے رات دن انہیں ڈرائے‘ دھمکائے اور اُن پر راکٹ برسائے‘ اُن کے نوجوانوں کیلئے روزگار کے تمام دروازے بند کر دے‘ ایسی صورت میں فلسطینی کیا کریں؟
ذرا اندازہ کیجئے کہ اگر اڑھائی ہزار نہیں دس بیس بچوں کو اس بے دردی سے دنیا کے کسی اور کونے میں چڑیوں کی طرح پھڑکایا جاتا اور کسی عالمی شہرت یافتہ شاعرہ و مصنفہ کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا تو اس پر مغربی میڈیا نے آہ و بکا اور واویلا کر کے آسمان سر پر اٹھا لینا تھا‘ مگر اسرائیل کی محبت میں مغربی حکمرانوں نے ہی نہیں مغربی میڈیا نے بھی دہرا معیار اختیار کر رکھا ہے۔ اور نہیں تو مغربی میڈیا غزہ میں شہید ہونے والے اڑھائی ہزار بچوں اور ممتاز فلسطینی ناول نگار اور شاعرہ ھبہ ابوندیٰ کی وحشیانہ اموات پر دو آنسو ہی بہا دے چاہے وہ آنسو مگرمچھ کے ہی کیوں نہ ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں