ڈاکٹر غازی کے بعد غزالی صاحب بھی رخصت ہو گئے

سعودی عرب میں طائف ایک ایسا خوبصورت ہل سٹیشن ہے کہ جہاں کی آب و ہوا خوشگوار اور جہاں کا موسم نہایت معتدل ہوتا ہے ۔ گرمیوں میں وہاں گرمی نہیں ہوتی اور سردیوں میں ہڈیوں کو منجمد کر دینے والی سردی نہیں ہوتی ۔ طویل عرصے تک سعودی وزارتِ تعلیم طائف میں تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد جب میں پاکستان لوٹنے لگا تو میری خواہش تھی کہ اب میں اسلام آباد جا کر وطن کی کچھ خدمت کروں۔ طائف کے بعد اسلام آباد کی تمنا کا سبب یہ تھا کہ بقول شاعر:
اس میں بھی کچھ تو ہے تری بو باس کی طرح
دعا منظور ہوئی اوربس یوں سمجھئے کہ میں نے طائف سے واپس آکر سیدھا انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں لینڈ کیا۔ اُس زمانے میں یونیورسٹی کے ریکٹر جسٹس خلیل الرحمن اور رئیس جامعہ ڈاکٹر محمود احمد غازی تھے ۔ دونوں حضرات کے اخلاص و محبت سے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر فقیر کی آمد ممکن ہوئی۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی فی الواقع ایک نابغۂ روزگار تھے ۔ کسی نے محدود زندگی میں لامحدود نوع بہ نوع کامیابیوں کا سفر دیکھنا ہو تو ڈاکٹر غازی کی زندگی کا مطالعہ کرے۔ڈاکٹرصاحب نے مدرسہ بنوری ٹاؤن کراچی سے حفظِ قرآن کیا‘ بعد ازاں1972ء میں پنجاب یونیورسٹی سے عربی زبان میں ایم اے کیا۔ انہوں نے اسی مادرِ علمی سے ہی اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی ۔
اگر چہ ڈاکٹر محمود احمد غازی کی شہرت روایتی علمائے کرام سے مختلف تھی۔ وہ جدید اسلامی سکالر و مفکر سمجھے جاتے تھے مگر ان کے لیکچرز اور اُن کی کتا بیں بتاتی ہیں کہ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان اور علوم دینیہ کا بحرِ بیکراں تھے ۔ قرآن ‘ فقہ‘ سیرت‘ شریعت اور معیشت و سیاست کے متعدد موضوعات پر انہوں نے تیس سے زائد کتب اور ایک سو سے زائد تحقیقی مقالات و مضامین تحریر کئے ہیں۔ اُن کے محاضرات اس کے علاوہ ہیں۔ اگر چہ ڈاکٹر غازی صاحب نے جاہ و منصب کیلئے کبھی دریوزہ گری نہ کی تھی مگر مناصب خود چل کر ان کی دہلیز تک آئے ۔ وہ مذہبی امور کے وفاقی وزیر ‘ سپریم کورٹ آف پاکستان کی شریعہ اپیلٹ بینچ کے جج اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں مختلف مناصب پر فائز رہے ۔ 2004ء سے 2010ء میں اُن کی وفات تک میں اُن سے رابطے میں رہا اور اُن سے کسبِ فیض کرتا رہا۔ وہ بالعموم مختصر گفتگو کرتے مگر جب کسی موضوع پر بولتے تو دریا ہی بہا دیتے ۔ اُن کی باتوں میں علمیت کے ساتھ ساتھ مزاح کی چاشنی بھی شامل ہوتی ۔ ایک بار خود ہی بتانے لگے کہ انہیں عربی اور اُردو پر تو دسترس تھی مگر انگریزی سے زیادہ شناسائی نہ تھی ‘ایک روز انہوں نے شدت سے محسوس کیا کہ انگریزی بھی سیکھ لینی چاہئے ۔ اگلے روز غازی صاحب فٹ پاتھ پر پڑی پرانی کتابوں کے ڈھیر میں سے انگلش سیکھنے کی ایک کتاب خرید لائے اور پھر چل سو چل وہ انگلش میں بھی زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرتے چلے گئے اور روانی سے حسبِ موقع بولنے اور لکھنے بھی لگے ۔
غازی صاحب کو مطالعے کی دھُن تھی۔ وہ شوق و ذوق کے ساتھ مطالعہ کرتے تھے ۔ ایک بار سنانے لگے کہ زندگی میں دو دن ایسے آئے کہ وہ ایک ایسے سنہری زنداں میں تھے کہ جہاں انواع و اقسام کے کھانے اور تفریح کی سہولیات تو تھیں مگر وہاں کتاب ایک بھی نہ تھی۔ وہ منگلا اپنے کسی عزیز کے ہاں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ بطور مہمان گئے تھے مگر یہ دو دن انہوں نے ماہیٔ بے آب یعنی بے کتاب ہونے کی اذیت کے ساتھ گزارے ۔
ڈاکٹر غازی صاحب ایک لحاظ سے بین الاقوامی یونیورسٹی کے معماروں میں تھے ۔ وہ قدیم وجدید علوم کا حسین امتزاج تھے اور اسی ماڈل پر انہوں نے اسلامک یونیورسٹی کی بنیاد یں استوار کی تھیں۔ غازی صاحب کی یہ خوبی بھی بہت نمایاں تھی کہ جب انہیں کسی نئے پروگرام کا مشورہ دیا جاتا تو اس پر بالعموم اُن کا مثبت رد عمل ہوتا اور وہ اس پر عمل درآمد کی فوری اجازت بھی دے دیا کرتے تھے ۔ میں نے انہیں تجویز پیش کی کہ ہم شعبۂ سیاسیات و بین الاقوامی امور کے طلبہ کیلئے لیکچرز کا ایک سلسلہ شروع کرنا چاہتے ہیں ‘جس کیلئے اپنے اپنے شعبے کے سرکردہ افراد کو مدعو کیا جائے گا‘ وہ عمر بھر کا حاصل طلبہ کے ساتھ شیئر کریں گے اور پھر ان کے سوالوں کے جواب بھی دیں گے ۔ انہوں نے میری تجویز کو بہت سراہا اور فوری طور پر اجازت مرحمت فرمائی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مثالی استاد کے طور پر غازی صاحب ہمارے پہلے مہمان تھے ۔ امورِ خارجہ کے حوالے سے سابق وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان‘ روزنامہ ڈان کے سینئر جر نلسٹ محمد ضیاء الدین بطور صحافی ‘سید فاروق حسن گیلانی بحیثیت بیورو کریٹ ۔ اسی طرح چند اور لیکچرز بھی تھے۔ طویل عرصہ ان لیکچرز کی یاد سے یونیورسٹی کے در و بام گونجتے رہے ۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی 26 دسمبر 2010ء کو اچانک اس دارِ فانی سے دارِ ابدی کی طرف کوچ کر گئے ۔ اب اُن کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر محمد الغزالی 18دسمبر 2023ء کو اس جہانِ فانی سے غیر متوقع طور پر رخصت ہو گئے ۔ دونوں بھائی چندے آفتاب چندے ماہتاب تھے ۔پروفیسر غزالی صاحب نے بھی اپنی تدریسی خدمات انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی میں انجام دیں۔ وہ شعبۂ اصولِ الدین کے پروفیسر اور صدر شعبہ رہے ۔ اسلامک یونیورسٹی کے ادارۂ تحقیقات ِاسلامی سے بھی طویل عرصے تک بحیثیتِ محقق و مصنف وابستہ رہے ۔وہ کئی بار سپریم کورٹ کے شریعت بینچ میں بحیثیت جج بھی شامل ہوئے۔ غازی صاحب سراپأ جمال و احتیاط تھے جبکہ غزالی صاحب مجموعۂ جلال و جمال تھے ۔ غزالی صاحب حسبِ موقع جرأتِ رندانہ سے کام لے لیا کرتے تھے۔ اُن کے جلال کا یہ واقعہ کسی نے مجھ سے روایت کیا ہے ۔ میں براہ راست اس کا عینی شاہد نہیں ۔ غالباً 2019ء میں جب فیصل مسجد اسلام آباد میں اُس وقت کے سعودی صدر جامعہ نے خطبہ جمعہ ارشاد کرتے ہوئے ملوک کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے شروع کئے تو دورانِ خطبہ غزالی صاحب کھڑے ہوئے اور انہوں نے خطیب کوٹو کا کہ خطبہ جمعہ بادشاہوں کی مدح سرائی کیلئے نہیں فہم ِدین کیلئے دیا جاتا ہے۔ اس موقع پر خاصا ہنگامہ ہوا۔ غرالی صاحب نے اس جرأتِ رندانہ سے اُس وقت کام لیا جب یونیورسٹی میں اُن کے پروفیسر ایمریٹس مقرر ہونے کا کیس اپنے آخری مراحل میں تھا۔
ڈاکٹر غزالی صاحب سے میرا گہرا تعلقِ خاطر تھا۔ غزالی صاحب کا جلال کج منصب داروں کیلئے تھا مگر غریبوں کے ساتھ وہ بڑی شفقت اور اپنائیت سے پیش آتے تھے ۔ اس معاملے میں نہایت متواضع تھے ۔ وہ ڈرائیوروں‘ گارڈوں اور قاصدوں کے ساتھ چٹائی پر بیٹھ کر کھانا کھانے میں خوشی محسوس کرتے تھے ۔ میں اسلامک یونیورسٹی میں اُن کے دفتر جاتا تو دفتر کے مدخل کے ایک کونے میں اُن کے نائب قاصد شیر محمد کو ایک میز پر ٹائم پیسوں‘ ملک شیک مشینوں اور پرانے ٹیلی فونوں وغیرہ کی مرمت کرتے ہوئے دیکھتا۔ محمد غزالی صاحب نے فراخ دلی سے اُسے فارغ وقت میں اپنی محدود آمدنی میں تھوڑے بہت اضافے کی اجازت دے رکھی تھی۔ غزالی صاحب کی میرے ساتھ قدرے بے تکلف تھی ۔ فرمایا کرتے تھے: ارے میاں یہ حسین احمد پراچہ کیا ہوتا ہے ۔ آپ کا نام تو اپنے والد مولانا گلزار احمد مظاہری کے اتباع میں حسین احمد مظاہری ہونا چاہئے ۔ دونوں برادران آفتابِ علم و ادب کے درخشاں ستارے تھے ۔ ان شاء اللہ علمِ نافع کی صورت میں تا قیامت اُن کا صدقہ جاریہ اُن کے اجر میں اضافے کا باعث بنتا رہے گا۔ اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ درجات عطا فرمائے‘ آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں