درِ زنداں پر گرفتاری کا افسوسناک منظر

ہمارے ہاں تخت سے تختہ تک اور ایوانوں سے زندانوں تک پہنچنے میں کچھ زیادہ دیر نہیں لگتی‘ ایک روحانی خانوادے کے چشم و چراغ اور ملک کے ممتاز سیاستدان شاہ محمود قریشی کو بدھ کے روز پولیس نے دھکے دے کر انتہائی غیر مہذب طریقے سے جیل کی دہلیز سے کسی نئے مقدمے میں گرفتار کر لیا۔پولیس کا رویہ نہایت نامناسب تھا۔
جمعرات کی شب ٹیلی وژن پر میں نے اُن کی گرفتاری اور پھر عدالت میں شاہ صاحب کی دہائی سنی کہ ایک پولیس آفیسر نے انہیں دھکا مارا اور لات رسید کی۔ ٹی وی سکرین پر سارا المناک منظر دیکھا تو میں تادیر سکتے اور صدمے کی حالت میں رہا۔ اسی کیفیت میں مصطفی زیدی کا ایک شعر نوکِ زباں پر آ گیا ؎
مری جھکی ہوئی آنکھیں تلاش کرتی رہیں
کوئی ضمیر کا لہجہ کوئی اصول کی بات
میں اکثر سوچا کرتا ہوں کہ وہ کام جو بآسانی مہذب اور شائستہ طریقے سے کیا جا سکتا ہو اسے بھی ہماری پولیس غیر مہذب انداز میں کیوں انجام دیتی ہے ؟ 2004ء سے 2010ء تک شہرِ اقتدار میں ہمارے چھ سالہ قیام کی بعض یادیں بڑی قابلِ قدر ہیں ۔ اسی زمانے میں شاہ محمود قریشی صاحب کے ساتھ پارلیمنٹ لاجز میں چند ملاقاتیں بھی یادگار ہیں۔ میرا سیاسی نقطۂ نظر شاہ صاحب کے مکتبۂ فکر سے مختلف تھا مگر وہ نہایت شائستگی اور ملائمت سے زیر بحث موضوع پر بات کرتے تھے ۔ ایک بار میں نے شاہ صاحب سے پوچھا کہ آپ ملتانی ہونے کے باوجود اتنے شستہ و شائستہ لب و لہجے میں اردو کیسے بولتے ہیں؟ اس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ اردو اُن کی مادری زبان ہے اور گھر میں یہی زبان بولی جاتی ہے۔البتہ وہ حسبِ موقع سرائیکی بھی خوب روانی سے بولتے ہیں۔
سیاسی وابستگیاں اور پالیسیاں اپنی جگہ مگر ایک مہذب اور شائستہ انسان جو دو بار وزیر خارجہ کی حیثیت سے ملک کی نمائندگی کر چکا ہو اس کے ساتھ ایسی بدسلوکی ملک کیلئے کسی نیک نامی کا باعث نہیں ہو سکتی۔کئیر ٹیکر حکومت کیلئے فقیرانہ مشورہ یہ ہے کہHandle With Care۔ایسا تاثر ہرگز پیدا نہیں ہونا چاہئے کہ جس سے یہ محسوس ہو کہ ملک کی عدالتِ عظمیٰ اور ریاست آمنے سامنے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ 1964ء میں صدر ایوب خان کا اقتدار نصف النہار پر تھا۔ صدر صاحب 1956ء کا متفقہ دستور مسترد کر کے قوم کو 1962ء کا صدارتی دستور عطا کر چکے تھے۔ اس آئینے نوع کے مطابق صدر کی ذات ہی تمام تر اختیارات کا مرکز و محور تھی ۔اُس زمانے میں ایوب خان نے جماعت اسلامی جیسی قانون پسند جماعت کو خلافِ قانون قرار دے کر اُس کے امیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور جماعت کی مجلس شوریٰ کے تقریباً پچاس کے قریب ارکان کوپسِ دیوارِ زنداں بھیج دیا۔ میرے والدِ گرامی مولانا گلزار احمد مظاہری بھی اُن میں بحیثیت رکنِ شوریٰ شامل تھے۔ والد صاحب جیل میں باقاعدگی کے ساتھ ڈائری تحریر فرماتے تھے۔ انہوں نے 26ستمبر 1964ء کو اپنی ڈائری میں لکھا تھا کہ الحمد للہ جماعت کو سپریم کورٹ میں فتح مبین حاصل ہوئی ہے۔ متفقہ فیصلے کے مطابق جماعت کو بحال کر دیاگیا ہے۔ 178 صفحات کا یہ فیصلہ دینے والوں میں چیف جسٹس اے آر کارنیلیس اور جسٹس حمود الرحمن کے علاوہ تین سینئر ججز بھی شامل تھے۔ اس فیصلے کے آتے ہی جماعت اسلامی کے مشرقی و مغربی پاکستان میں دفاتر کھل گئے اور اُن کی دینی و سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہو گیا۔ جماعت کے تمام ارکانِ شوریٰ کی رہائی 9اکتوبر 1964ء کو عمل میں آ گئی۔ صدر ایوب خان نے اپنے تمام تر کرّوفر کے باوجود جماعت کے خلاف کوئی اور مقدمہ قائم نہ کیا اور عدالتی حکم کے سامنے سرِتسلیم خم کر کے جماعت کے تمام زعماء کو رہا کر دیا۔ اب ایک بار پھر موجودہ عدالت کے تیور بتا رہے ہیں کہ وہ جسٹس اے آر کارنیلیس‘ جسٹس ایم آر کیانی اور جسٹس حمود الرحمن والی عدالتوں کی پیروی کرے گی۔
27دسمبر کو ورلڈ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا موجودہ معاشی ماڈل مطلوبہ نتائج دینے سے قاصر ہے۔ اس ماڈل میں غریب غریب تر ہو رہا ہے جبکہ ایک محدود اشرافیہ بہت بڑے فائدے اٹھا رہی ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں وسیع تر اتحاد کے ذریعے ایک روشن خوش حال اور دیر پا ترقیاتی مستقبل کو یقینی بنایا جا سکتا ہے ۔
یہ حقیقت اب کوئی راز ہے اور نہ ہی کوئی نیا انکشاف کہ معاشی خوش حالی اور استحکام کیلئے سیاسی استحکام اولین شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمیں من حیث القوم ماضی کے آئینے میں اپنے حال اور مستقبل سنوارنے کی فکر کرنی چاہئے۔ دنیا عمودی ترقی کر رہی ہیں جبکہ ہم ہم ایک ہی دائرے میں سفر کرتے چلے جا رہے ہیں جب تک پاکستان کے تمام سٹیک ہولڈرز اس دائرے کے سفر سے نجات حاصل نہیں کرتے اس وقت تک ہماری حالت نہیں بدل سکتی۔ہم کب تک قرض پر گزرا کریں گے۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہم دستور پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی باہمی معاہدے کے تقدس کا پاس لحاظ کرتے ہیں۔
چند سال قبل پاکستام کے سینئر سیاستدانوں نے مل جل کر بڑے پرُجوش طریقے سے میثاق جموریت پر دستخط کئے تھے اور فیصلہ کیا تھا کہ ہر کوئی طے شدہ سیاسی ٹریک پر چلتا جائے گا۔ خود دستوری ٹریک چھوڑے گا اور نہ ہی کسی مخالف جماعت کو ڈی ٹریک کرنے کی کوشش کرے گا مگر افسوس ایسا نہ ہو سکا۔ سیاستدانوں نے اپنے بل بوتے پر سیاسی فتوحات حاصل کرنے کی بجائے دائیں بائیں دیکھنا شروع کر دیا۔
آج ہمارے سمیت اور بہت سے کالم نگار اور تجزیہ کار تحریک انصاف کے پسِ زنداں قائدین کیلئے ہمدردی محسوس کرتے ہیں مگر جب اسی تحریک انصاف کے چیئرمین ایوان اقتدار میں جاہ و جلال کے ساتھ جلوہ افروز ہوئے تھے تو ان کے ناوک نے صید نہ چھوڑا زمانے میں۔تحریک انصاف کے قائد یہ چاہتے تھے کہ کوئی سیاسی مخالف آزاد فضا میں سانس لیتا نظر نہ آئے۔ اُس دور میں بندہ گرفتار پہلے کیا جاتا تھا اور اس پر لگائے جانے والے الزام کی تلاش بعد میں شروع کی جاتی تھی۔
اُن دنوں سیاسی سوچ اپروچ رکھنے والے خان صاحب کی پارٹی کے کئی قائدین ڈرتے ڈرتے انہیں سمجھاتے تھے کہ آپ ایوانوں کے اندر رہ کر سیاست کریں۔ اگر آپ آف دی ٹریک ہو گئے تو پھر آپ کو طرح طرح کے نشیب و فراز سے گزرنا پڑے گا اور اس راہ میں کئی خطرناک موڑ بھی آ سکتے ہیں۔ اوّل تو خلافِ مزاج خان صاحب ایسی آراء سنتے ہی نہ تھے اور اگر سن لیتے تو سنی ان سنی کر دیا کرتے تھے۔ اسی طرح خان صاحب کو اپنے علاوہ اپوزیشن کے دوسرے سیاستدانوں کے وجود کو تسلیم کرنا چاہئے تھا اور قومی موضوعات و معاملات پر اُن کے ساتھ صلاح مشورہ کرنا چاہئے تھا۔ مگر خان صاحب ایسے کسی تکلف کے ہرگز قائل نہ تھے وہ اقتدار اور حکومت کی تبدیلی کے بعد بھی کسی مرحلے پر اپوزیشن کے ساتھ بات چیت یا مذاکرات پر آمادہ نہ ہوئے۔
ہماری گزارشات کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ادلے کا بدلہ اور انتقام کا کلچر جاری رہے۔ ایسا بالکل نہیں ہونا چاہئے۔ ہماری دعا ہے کہ ایک بار پھر ہم سب شارع ٔدستور پر آ جائیں اور اس کے ضابطوں کی دل و جان سے پابندی کریں۔ سیاستدانوں سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو آف دی ٹریک ہونے سے مکمل اجتناب کرنا چاہئے۔ جیلوں میں سیاستدانوں کے ساتھ قانون کے مطابق باوقار و مہذب رویہ اختیار کیا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں