سینیٹ کی پُراسرار’’واردات‘‘

آزاد سینیٹر دلاور خان کی جمعۃ المبارک کے روز سینیٹ میں دلیری بلکہ دیدہ دلیری قابلِ دید تھی۔ انہوں نے جب دیکھا کہ سینیٹ میں نمازِ جمعہ کے بعد اراکین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں تو انہوں نے چند ہم خیال سینیٹروں کے ساتھ مل کر ایوان میں انتخابات کے التوا کی قرارداد پیش کر دی۔ سینیٹر دلاور خان کی قرارداد میں درج شدہ الفاظ سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی ڈرامے کے ڈائیلاگ ہوں۔ قرارداد کے متن میں لکھا گیا ہے کہ امن و امان کی صورتحال خراب ہے‘ شدید سردی ہے اور کورونا وائرس کے سر اٹھاتے خطرات درپیش ہیں۔ قرارداد کے مطابق بعض سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو دھمکیاں بھی مل رہی ہیں۔ متن کا سب سے دلچسپ حصّہ وہ ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن انتخابات کا موجودہ شیڈول معطل کرے۔ یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابات کے انعقاد کے لیے سازگار ماحول فراہم کرے۔ جب تک ماحول سازگار نہیں ہوتا‘ اس وقت تک انتخابات معرضِ التوا میں رہیں۔ گویا نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔
یہ قرارداد جس وقت ایوان میں پیش کی گئی اس وقت سینیٹ میں 14اراکین موجود تھے۔ ان میں سے صرف گیارہ ممبران نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیے جبکہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے ایوان میں موجود ایک ایک رکن نے قرارداد کے بارے میں ہونے والی رائے شماری میں حصّہ نہیں لیا۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر افنان اللہ نے قرارداد کی پُر زور مخالفت کی۔ 104اراکینِ سینیٹ کے کسی بھی اجلاس کے لیے کورم کم از کم 25اراکین پر مشتمل ہوتا ہے۔ اگر چیئرمین سینیٹ یا سپیکر قومی اسمبلی ایسے کسی مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کوئی قرارداد بغیر کورم کے منظور کروانے کی کوشش کرے تو اس کا مناسب ترین حل یہ ہوتا ہے کہ کورم کے نامکمل ہونے کی نشان دہی کر دی جائے تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔
پیپلز پارٹی نے اپنے سینیٹر بہرا مند تنگی اور پی ٹی آئی نے گردیپ سنگھ سے وضاحت طلب کی ہے کہ وہ ایوان کی ''رونق‘‘ بڑھانے کے لیے وہاں کیوں موجود رہے؟ حیران کن بات یہ ہے کہ رائے شماری میں حصہ نہ لینے والے تینوں سینیٹروں میں سے کسی نے بھی کورم کی نشاندہی نہ کی۔ ہم نے ایک باذوق سینیٹر صاحب کو یاد دلایا کہ اسداللہ غالب نے کہا تھا کہ ''آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں‘‘۔ہم نے موصوف سے پوچھا کہ کیا اس قرارداد کا مضمون بھی کہیں غیب سے آیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ نہیں‘ ایسا نہیں لگتا۔ ایک دن بعد‘ ہفتے کے روز سینیٹ کی اس نام نہاد قرارداد کے بارے میں دو شدید ردِعمل سامنے آئے۔ ایک تو ایڈووکیٹ اشتیاق احمد راجہ نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ سینیٹ کی قرار داد آئین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ بروقت انتخابات کا انعقاد دستوری تقاضا ہے۔ اس تقاضے کے خلاف کسی قسم کی قرارداد آئین شکنی کے مترادف ہے۔ درخواست گزار نے آئین شکنی کرنے والوں کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کرنے کی استدعا کی ہے۔ سینیٹ کے اندر سے بھی شدید ردِعمل سامنے آیا ہے۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ انتخابات کا انعقاد وقت پر کرایا جائے۔ سینیٹر مشتاق احمد نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جو قرارداد پاس ہوئی‘ وہ جمہوریت اور الیکشن پر حملہ ہے‘ یہ قرارداد ایوان کی بے توقیری ہے۔
اتوار کے روز سینیٹر مشتاق احمد خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقوں میں کچھ انتخابی جلسوں سے خطاب کرنے کے لیے گئے ہوئے تھے۔ اُن سے موبائل فون پر رابطہ ہوا تو انہوں نے بتایا کہ سینیٹ کی یہ روایت ہے کہ جمعۃ المبارک کے روز منعقد ہونے والا اجلاس نمازِ جمعہ سے پہلے ختم ہو جاتا ہے‘ اسی لیے اس کا ایجنڈا بھی مختصر ہوتا ہے۔ اس جمعۃ المبارک کو بھی ایسا ہی ہوا اور چیئرمین سینیٹ نے نمازِ جمعہ سے پہلے اجلاس کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ سینیٹر موصوف نمازِ جمعہ کے بعد ایک انتخابی جلسے میں شرکت کے لیے مردان روانہ ہو گئے۔ اُن کا کہنا ہے کہ بعد ازاں انہیں گاڑی میں خبر ملی کہ صادق سنجرانی صاحب نے نمازِ جمعہ کے بعد اچانک اجلاس کی کارروائی کا دوبارہ آغاز کردیا۔ سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ ایسا کرنا سینیٹ قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ نیز اجلاس میں کسی قرارداد کو پیش کرنے سے پہلے تمام اراکین کو اطلاع دی جاتی ہے۔ مشتاق صاحب کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے بھی چیئرمین سینیٹ مخصوص اہداف کے لیے چند گنے چنے افراد کے غیر اعلانیہ اجلاس منعقد کر چکے ہیں۔ مشتاق صاحب کے بقول ایسی قراردادوں کی دستوری معاملات میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
ہماری برسوں سے مولانا فضل الرحمن صاحب سے یاد اللہ ہے۔ اتوار کے روز ٹی وی خبر نامے سے معلوم ہوا کہ مولانا نے الیکشن کے التوا کے سلسلے میں سینیٹ کی اس بے برگ و بار قرارداد سے امیدیں وابستہ کر لی ہیں۔ اس سے مولانا کی ناامیدی جھلکتی ہے۔ ان کے ارشادات میرے لیے انتہائی حیران کن ہیں۔ وہ پارلیمانی جمہوریت کے چیمپئن اور دلیل و منطق کے ساتھ بات کرنے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں مگر سچی بات یہ ہے کہ 8فروری کے انتخابات کے التوا کے بارے میں مولانا کے دلائل میں کوئی خاص وزن نہیں۔
کسی بچے کے جوان ہونے میں زیادہ سے زیادہ اٹھارہ بیس سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ جہاں تک خوش قسمت قوموں کا تعلق ہے تو ان کا جادۂ صد سالہ بعض اوقات ایک آہ یا خود آگہی کے ایک لمحے میں طے ہو جاتا ہے‘ مگر یہ کیا کہ ہم گزشتہ 75برسوں سے ابھی تک بالغ نظر نہیں ہو سکے۔ جمہوریت پسند قومیں اپنے دستور کو ایک مقدس دستاویز سمجھتی ہیں۔ برسوں نہیں‘ وہ صدیوں سے اس پر پورے خشوع و خضوع سے عمل پیرا رہتی ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ جنہوں نے دستور اور اس کے تقاضوں کو بازیچۂ اطفال بنا رکھا ہے۔ ہم کب تاریخ سے سبق سیکھیں گے؟ ہم کب اپنے قدموں پر کھڑے ہوں گے؟ کبھی ہم انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں اور ملک دولخت کر دیتے ہیں۔ کبھی ہم انتخابات کی راہ میں سدِّ سکندری بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کبھی ہم اپنی مرضی کے نتائج کے لیے مناسب بندوبست کر لیتے ہیں۔ عوام سمیت ہمارے سارے سٹیک ہولڈرز کب یہ فیصلہ کریں گے کہ وہ اپنی پسند و ناپسند اور اپنی مرضی کو آئین کے تابع کریں گے۔
الیکشن کروانا قومی اسمبلی کی ذمہ داری ہے نہ ہی سینیٹ کی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن کمیشن کے مشورے سے 8فروری 2024ء کا روزِ سعید عام انتخابات کے لیے حتمی طور پر مختص کر دیا ہے۔ اسی تاریخ کے مطابق شیڈول کا اعلان کر کے اس پر پورے زور و شور سے عمل درآمد شروع کر دیا گیا ہے۔ سبک رفتاری سے انتخابات کی گاڑی اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔اس مرحلے پر کسی ایوان یا ادارے کی طرف کسی قسم کا کنفیوژن پیدا کرنا دستوری تقاضوں اور قومی اُمنگوں کے خلاف ہے۔ سینیٹ کی قرارداد ماورائے دستور ہے۔ الیکشن دستوری تقاضا ہے۔ دستوری ترمیم کے لیے دوتہائی ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر سینیٹ الیکشن کا راستہ روکنا چاہتی ہے تو اس دستوری ترمیم کے لیے ایوانِ بالا کو گیارہ نہیں‘ 66ووٹ درکار ہوں گے۔ 8فروری کو انتخابات کا انعقاد یقینی ہے‘ اس طرح کی پُراسرار قراردادوں سے الیکشن کا راستہ روکا نہیں جا سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں