حیران کن ایرانی حملہ

زندگی میں بعض حملے متوقع اور بعض بالکل غیر متوقع ہوتے ہیں۔ کوئی تیر کھا کے جب دوستوں سے ملاقات ہوتی ہے تو دکھ میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ تین چار روز قبل جس سرزمین سے ارض ِوطن پر حملہ ہوا اُن کے ساتھ صدیوں کے رشتے ہیں تبھی تو درد کی شدت بھی بہت زیادہ ہے۔
دیکھئے شیخ سعدی شیرازی نے ہمارے جذبات کی مدتوں پہلے کیسے ترجمانی کی تھی:
من از بیگانگان دیگز ننالم
کہ بامن ہرچہ کرد آن آشنا کرد
میں غیروں سے ہرگز شکایت نہیں رکھتا کہ میرے ساتھ جو کچھ کیا اس آشنا نے کیا۔
برادر اسلامی ممالک کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ تو آتا رہتا ہے مگر بات یہاں تک بڑھنی نہیں چاہئے تھی۔ ایران نے منگل کے روز پاکستان کے صوبے بلوچستان کے اندر پنجگور کے علاقے میں ڈرون حملہ کر دیا۔ اس حملے میں دو بچے اللہ کو پیارے ہو گئے اور تین لڑکیاں زخمی ہو گئیں۔ یہ حملہ پنجگور پر نہیں پاکستان کی سالمیت و خود مختاری پر حملہ تھا۔ یہ بین الاقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزی تھی۔ سب سے بڑھ کر حملہ دو برادر اسلامی ہمسایہ ممالک کے دوطرفہ تعلقات کی روح کے منافی تھا۔پاکستان نے اس حملے کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا‘ بعض ملکی و عالمی تجزیہ کاروں نے پاکستانی ردعمل پر قدرے تعجب کا اظہار بھی کیا۔ اس شدتِ اظہار کی کئی وجوہات تھیں۔ پہلی وجہ تو یہ تھی کہ یہ حملہ بالکل بلاجواز تھا۔ دوستانہ بلکہ برادرانہ سفارتی تعلقات کا مقصد ہی تو یہ ہوتا ہے کہ ایسے ردعمل کی نوبت ہی نہ آئے اور معاملات کو آپس میں مل بیٹھ کر افہام و تفہیم سے سلجھایا جائے اور اس کا کوئی مناسب حل نکالا جائے۔
اس ردعمل کی دوسری ٹھوس وجہ یہ تھی کہ عین منگل کے ہی روز ڈیووس میں پاکستانی وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے ساتھ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کے ساتھ باہمی گرم جوشی کی فضا میں ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں ایرانی وزیرخارجہ نے پاکستان کے بارے میں کسی طرح کے تحفظات کا اظہار کیا اور نہ ہی تھوڑی دیر بعد پاکستان پر گرائے جانے والے میزائلوں کے بارے میں کسی طرح کی معلومات کا کوئی ذکر کیا۔ ایران نے نہ صرف کسی اشتعال انگیزی کے بغیر حملہ کیا بلکہ پاسدارانِ انقلاب سے منسلک ایرانی میڈیا نے خود ہی اعلان کر کے ساری دنیا کو خبر دی۔
حملے سے بھی بڑھ کر وہ جواز حیران کن ہے جو ایران نے اپنے جارحانہ اقدام کیلئے پیش کیا ہے۔ ہمسایہ ملک کا کہنا ہے کہ یہ حملہ پاکستان پر نہیں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر تھا۔ ایرانی بیان کے مطابق پنجگور میں دہشت گرد تنظیم جیش العدل کا مرکز تھا جس کو نشانہ بنایا گیا۔ ایران نے پیر کے روز اسی طرح کے حملے عراق اور شام میں بھی کئے تھے۔ حملے کے بعد ایرانی وزیر خارجہ نے پاکستان کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی سے کہا کہ ہم پاکستان کی سالمیت کو عزیز رکھتے ہیں اور حملے میں صرف اُن ایرانی دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا جن کا تعلق اسرائیل سے تھا۔حیرت ہے کہ ایرانی وزیرخارجہ کو علم نہیں کہ کسی ملک کے اندر جب بین الاقوامی حدود عبور کر کے حملہ کیا جاتا ہے تو یہ اس ملک کی سالمیت و خود مختاری پر حملہ ہوتا ہے۔ پاکستان کے ایک سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ایران کی سرزمین سے بھی پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیاں ہوتی رہی ہیں۔ ہم ایسی ہر کارروائی کو ایرانی حکام کے نوٹس میں لاتے رہے ہیں۔ پاکستانی سرزمین سے خدانخواستہ ایسی کوئی کارروائی ہوئی تو اسے پاکستان کے نوٹس میں لایا جانا چاہئے تھا نہ کہ 'دہشت گردوں کے ٹھکانوں‘ پر براہ راست حملہ کر دیا جاتا۔
راقم 1980ء کی دہائی سے اکیسویں صدی کے اوائل تک سعودی عرب میں مقیم رہا۔ اس دوران جنرل محمد ضیا الحق‘ بے نظیر بھٹو‘ میاں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کی حکومتیں رہیں۔ اس عرصے میں دونوں برادر ملکوں کے تعلقات میں گرم جوشی بھی اپنے عروج پر تھی اور بعض ایسے بھی مختصر ادوار آئے جن میں سرد مہری بھی اپنی انتہا کو چھو رہی تھی۔ اس دوران پاکستان کے ایک وزیراعظم‘ ایک وزیر خارجہ اور بعض دیگر اہم ذمہ داروں سے بھی میری ملاقاتیں رہیں۔ سرد مہری کے ادوار میں بھی بات کبھی دوطرفہ تلخی یا اعتماد باہمی کے بحران تک نہ پہنچی تھی۔
ایرانی دعوے کے مطابق گزشتہ برس دسمبر میں بلوچستان سے ملحقہ ایرانی علاقے کے پولیس ہیڈ کوارٹر پر دہشت گردوں نے حملہ کیا جس میں گیارہ سکیورٹی اہل کار جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ایرانی شکایت کے مطابق یہ دہشت گرد پاکستانی سرزمین سے ایران میں داخل ہوئے تھے۔ اسی طرح پچھلے سال ایرانی زمین سے پاکستان پر دو حملے ہوئے تھے جن میں کئی پاکستانی فوجی شہید ہو گئے تھے۔منگل کے روز پاکستانی علاقے پنجگور پر ایرانی ڈرون حملے کے جواب میں جمعرات کے روز پاکستان نے ایران کے صوبے سیتان میں کالعدم بلوچ تنظیموں کی پناہ گاہوں پر میزائل حملہ کیا جس میں 9 افراد ہلاک ہوئے۔ چین کے پاکستان اور ایران دونوں کے ساتھ گہرے دوستانہ مراسم نہیں۔ اس مخلص ہمسائے نے دونوں ممالک کو صبر و تحمل اور دانش مندی سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے۔ شرق ِا وسط کی موجودہ صورتحال میں ذرا سی بے احتیاطی کی بنا پر جنگ کے شعلے بھڑک کر سارے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔
بعض ایسی بھی خبریں ہیں کہ ایران نے ماضی میں بھی پنجگور کے علاقے میں اس طرح کی اکّا دُکا کارروائیاں کی تھیں مگر یہ 'حملے‘ لو پروفائل تھے اور نہ ہی اُن کی میڈیا کو کوئی زیادہ خبر دی گئی تھی۔پاکستان کے ایک دانشور سیاستدان سینیٹر مشاہد حسین سید کا کہنا یہ ہے کہ لگتا ہے کہ اس علی الاعلان حملے میں ایرانی حکومت سے زیادہ 'ڈیپ سٹیٹ‘کا دخل ہے تبھی تو حملے کے بعد اس کی خبر بھی پاسدارانِ انقلاب سے منسلک میڈیا کے ذریعے بریک کی گئی۔پاکستانی حکومت کا ردعمل بجا تھا کیونکہ خود مختاری پر حملہ یقینا قابلِ افسوس اور قابلِ مذمت ہے۔ پاکستان نے ایران سے اپنے سفیر مدثر ٹیپو کو واپس بلا لیا ہے جبکہ پاکستان میں ایرانی سفیر کہ جو اِن دنوں ایران گئے ہوئے ہیں مطلع کیا گیا ہے کہ وہ سردست پاکستان آنے کی زحمت نہ کریں۔ اسی طرح تجارتی و خود کو بھی ایران سے واپس وطن بلا لیا گیا ہے۔ یقینا عالم اسلام کے دو اہم ترین ممالک کو پوری طرح احساس ہوگا کہ اس وقت غزہ میں تقریباً سوا تین ماہ سے اسرائیلی حملے جاری ہیں جن میں دس ہزار بچوں سمیت 25ہزار سے اوپر فلسطینی مرد اور عورتیں شہید ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں اگر پاکستان اور عراق میں تلخی بڑھتی ہے تو اس پر سب سے زیادہ اسرائیل خوش ہوگا اور عالم اسلام کی جگ ہنسائی ہوگی۔
پاکستان اور ایران کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہئے اور مزید کسی طرح کی تیزی اور تلخی سے اجتناب کرنا چاہئے۔ دونوں ہمسائے سرحدی علاقوں کا جائزہ لے کر وہاں کیلئے مشترکہ کمیشن بنائیں‘ جہاں جہاں دہشت گرد چھپے ہوں اُن کا صفایا کیا جائے۔ امید کی جاتی ہے کہ ایران کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہوگا۔ دونوں برادر ممالک کو احتیاط کا دامن تھامنا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں