کیا آزادوں کی بولی لگے گی؟

ہزار اندیشوں‘ افواہوں اور بے یقینیوں کے باوجود بالآخر الیکشن کا میدان سج ہی گیا ہے۔ اگرچہ مختلف سیاسی پارٹیوں اور ''آزادوں‘‘ کی انتخابی مہم میں وہ سج دھج نہیں جو ماضی میں ہماری الیکشن مہم کی امتیازی شان رہی ہے۔ان دنوں انتخابی نتائج کے حوالے سے اندازوں‘ تخمینوں اور منظر ناموں کی گرم بازاری اپنے عروج پر ہے۔ بعض سینئر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ انتخابات کے نتیجے میں آزادوں کا میلہ لگے گا۔ اُن کے خیال میں پارٹیاں پیچھے رہ گئی ہیں اور آزاد امیدوار آگے نکلتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں۔
پی ٹی آئی سے اپنے راستے جدا کرنے والے بعض سینئر سیاستدان یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ یا نامزد امیدوار سب بکیں گے۔ ان کی منڈی لگے گی۔ یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ ہم ایک بار پھر 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کی صورتحال کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں جیسے بہتی ہوئی ندی کا رواں دواں پانی کبھی لوٹ کر نہیں آتا اسی طرح ماضی کا حصہ بن جانے والی سیاسی صورتحال کا لوٹ آنا بھی ممکن نہیں ۔ یا یوں سمجھئے کہ 2024ء کا منظر نامہ 1985ء جیسا نہیں ہو سکتا۔اتنے عرصے میں پلوں کے نیچے سے پانی کے بہت سے ریلے گزر چکے ہیں۔
1985ء میں پیپلز پارٹی نے غیر جماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ بعد میں یہ عوامی پارٹی اس بائیکاٹ کے فیصلے پر ہمیشہ پچھتاتی رہی۔ اب 2024ء میں اس لحاظ سے صورتحال بالکل مختلف ہے کہ پی ٹی آئی نے تمام تر نامساعد حالات کے باوجود انتخاب سے لاتعلقی کا اعلان نہیں کیا ۔ پی ٹی آئی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ہر حال میں الیکشن میں حصّہ لے گی۔ اسے تحریک انصاف کی خوش قسمتی ہی کہنا چاہئے کہ اسے بانی تحریک کی عدم دستیابی کی صورت میں بیرسٹر گوہر علی کی قیادت حاصل ہو چکی ہے۔
بیرسٹر گوہر علی مختلف سیاسی و عدالتی محاذوں پر دانش مندی‘ اعتدال پسندی اور معاملہ فہمی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ وہ بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ اُن کا نعرہ مزاحمت نہیں مفاہمت ہے۔ وہ یہ بھی باور کرا رہے ہیں کہ اُن کی کسی ادارے کے ساتھ کوئی کشمکش نہیں۔ اپنے ہر انتخابی جلسے میں اور میڈیا پروگراموں میں چیئرمین پی ٹی آئی سیز فائرکا مطالبہ کر رہے ہیں اگر عمران خان 2021ء میں چومکھی لڑنے کی بجائے یہی حکمت عملی اس وقت اختیار کر لیتے اور سیاستدانوں کو حوالۂ زنداں کرنے کی بجائے اُن کے وجود کو تسلیم کر لیتے۔
تحریک انصاف اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی بجائے کہیں حزب اختلاف اور کہیں حزب اقتدار کا پارلیمانی کردار حکمت و تدبر کے ساتھ ادا کرتی تو آج حالات بالکل مختلف ہوتے۔ اگرچہ ماضی کو کریدنے سے کیا حاصل۔مگر اس کا تذکرہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ مزاحمتی پالیسی کو سیاسی حکمت عملی سے تبدیل کر کے اب بھی بہت کچھ بدلا جا سکتا ہے۔ سیاست تو نام ہی پیچھے مڑ کر دیکھنے‘ اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کی بیلنس شیٹ تیار کرنے اور ذاتی و جماعتی محاسبے کی روشنی میں نئی حکمت عملی وضع کرنے کا ہے۔جن ''آزادوں‘‘ کا بہت چرچا کیا جا رہا ہے وہ اتنے آزاد بھی نہیں۔ اُن کی آزادی اتنی ہی ہے جتنی مرشد اقبال نے بیان کی ہے ؎
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گِل بھی ہے
''آزادوں‘‘ کی اکثریت کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔ گو اُن کے پاس بلّے کا نشان نہیں اُن کا نشان کچھ بھی ہو مگر انہوں نے اپنی پہچان کا کوئی نہ کوئی انتظام کر رکھا ہے۔ اگرچہ یہ آزاد انتخابی کامیابی کے بعد کسی بھی پارٹی کو جائن کر سکتے ہیں مگر وہ قانونی نہ سہی ایک اخلاقی ڈسپلن میں بندھے ہوئے ہیں۔
میرے خیال میں ا گرچہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو بڑی انتخابی کامیابی حاصل ہوگی‘ تاہم پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ کامیاب امیدواروں کو تحریک انصاف جائن کرنے میں اگر کوئی قانونی رکاوٹ نہ ہوئی تو وہ اسی پارٹی کو جائن کریں گے جس کے 'ٹکٹ‘ پر وہ کامیاب ہوئے ہوں گے۔ جہاں تک سینکڑوں شوقیہ آزادوں کا تعلق ہے ان کے بظاہر کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں ۔کامیاب ہونے والے اکثر ممبران کا تعلق کسی نہ کسی چھوٹی بڑی سیاسی جماعت سے ہوگا۔
جماعت اسلامی بھی 2024ء میں بڑا سرپرائز دینے کا دعویٰ کر رہی ہے۔ دیگر دینی سیاسی جماعتوں میں جمعیت علمائے اسلام روایتی طور پر کے پی کے اور بلوچستان سے قابلِ ذکر کامیابی حاصل کرتی چلی آ رہی ہے۔ اے این پی بھی کے پی کے سے زیادہ نہ سہی اکا دُکا سیٹیں تو حاصل کر لیتی ہے۔ جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے وہاں کی 16قومی اسمبلیوں کی سیٹوں کیلئے مسلم لیگ (ن) کے علاوہ کئی دیگر پارٹیاں انتخاب میں حصہ لے رہی ہیں۔ ان پارٹیوں میں بلوچستان عوامی پارٹی‘ پاکستان پیپلز پارٹی‘ نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی وغیرہ شامل ہیں۔ وہاں سے بھی کچھ آزاد امیدوار بھی انتخابی اکھاڑے میں اُتر رہے ہیں۔
اسی طرح سندھ بالخصوص کراچی سے جماعت اسلامی‘ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اپنی اپنی کامیابی کے دعوے کر رہی ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے علاوہ استحکام پاکستان پارٹی بھی چند سیٹیں حاصل کرے گی۔پارٹیوں کی کامیابی کے اجمالی تذکرے سے یہ عیاں ہے کہ 2024 ء میں کسی ایک جماعت کی واضح اکثریت نہیں ہو گی‘ لہٰذا حکومت بھی کولیشن بنائے گی اور اپوزیشن بھی متحدہ ہوگی۔ تاہم ایوان کے اندر جتنے بھی ارکان کامیاب ہو کر آئیں گے اُن کی اکثریت پہلے ہی سے کسی نہ کسی پارٹی سے وابستہ ہو گی۔ چند آزاد ارکان ضرور ہوں گے جن کے جہاں سینگ سمائیں گے وہاں بسیرا کر لیں گے۔
گزشتہ 75برس کے دوران ہم بہت کچھ نقصان اٹھا چکے ہیں۔ ملا جلا کر چار مارشل لاء لگوا چکے ہیں۔ سیاستدان بہت کچھ برباد کرنے کے بعد جب کچھ سنبھلتے ہیں تو پھر 1973ء کا متفقہ دستور بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ہماری جمہوری حکومتوں کی بڑی بڑی بیماریوں میں سب سے نمایاں یہ ہے کہ وہ جمہوریت کے نام پر اقتدار حاصل کرتیں اور پھر آمریت کے راستے پرچل پڑتی ہیں۔ 1970ء سے 1977ء تک کا زمانہ ہو یا 1990ء کی دہائی کی سیاسی حکومتیں ہوں‘ وہ آپس میں سر پھٹول شروع کردیتی ہیں۔ نتیجہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ غیر جمہوری قوتوں کو مداخلت کا موقع مل جاتا ہے۔ پھر جب یہ سیاسی پارٹیاں عقل کے ناخن لیتی ہیں تو آپس میں میثاقِ جمہوریت کرلیتی ہیں۔ مگر کچھ ہی مدت کے بعد عہد و پیمان کو بھول جاتی ہیں۔
سامنے ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے
اس اکھاڑ پچھاڑ کا سب سے بڑا نقصان عوام کو پہنچتا ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ گزشتہ پانچ چھ دہائیوں سے ہم اپنی سیاست ٹھیک کر سکے ہیں نہ معیشت۔ ہمارے علاوہ شاید ہی دنیا کا کوئی ملک ہو جہاں مہنگائی 40فیصد سے اوپر جا رہی ہو۔ ایک بات ہمارے سیاستدانوں کو پلے باندھ لینی چاہئے کہ وہ جب بھی برسراقتدار آئیں گے اپنی کارکردگی کے بل بوتے پر آئیں گے۔حصولِ اقتدار کیلئے مقتدرہ کے کاندھوں کو استعمال نہیں کریں گے۔ ہمارے سیاستدان ہر حال میں آئین و قانون کے پابند رہیں گے تو جمہوریت بھی پروان چڑھے گی اور معیشت بھی پھلے پھولے گی۔
مستقبل کے منظر نامے کو دیکھتے ہوئے ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ''آزادوں‘‘ کی کوئی منڈی ہوگی اور نہ ہی اُن کی بولی لگے گی۔البتہ وسیع تر ملکی و سیاسی مفاد میں پی ٹی آئی سے وابستہ کامیاب امیدواروں کو اپنی پارٹی میں Re assemble ہونے کا چانس ملنا چاہئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں