کل اپنی تقدیر کاسوچ کر فیصلہ کیجئے‘پھر گلہ نہ کیجئے

ایاز قدر خود بشناس۔ یہ کیا کہ کبھی تم اہلِ سیاست اور کبھی اہلِ ریاست کو جہانبانی کے اصول سمجھانے لگتے ہو۔ کبھی تم حکمرانوں کو ہوسِ اقتدار کا طعنہ دینے لگتے ہو۔ کبھی تم غیبی طاقتوں کا تذکرہ لے بیٹھتے ہو۔ کبھی تم عدالتوں کے فیصلوں پر اپنی آراء کا اظہار کرنے لگتے ہو۔ کبھی تم نوجوانوں کو بالغ نظری سے کام لینے کی نصیحت کرنے لگتے ہو۔ کبھی اس ملک کے تاجروں‘ صنعت کاروں اور وڈیروں کو اس ملک کے محروم طبقات کا حق ادا کرنے کا درس دینے لگتے ہو اور کبھی تم اس ملک کے عام آدمی کو سمجھانے لگتے ہو کہ اپنا ہی نہیں اپنے وطن کے مقدر کا بھی ستارا ہے۔ یہاں کون تمہاری بات سنتا ہے اور کون تمہاری بات پر کان دھرتا ہے؟ مگر تم ہو کہ بولے چلے جا رہے ہو۔
پھر سوچتا ہوں کہ خالقِ کائنات نے اپنے برگزیدہ بندوں کو بھی بات پہچانے کا مکلّف ٹھہرایا ہے‘ تبدیلی کا نہیں۔ یہ سوچ کر کچھ ڈھارس بندھتی ہے کہ کسی سطح پر سہی‘ کسی چھوٹے سے دائرے میں ہی سہی‘ میرا کام تو ابلاغ ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے یہ سننے والے کی مرضی۔ کل 8فروری‘ ملک میں ایک بار پھر عام انتخابات ہو رہے ہیں۔ اس موقع پر میرا فرض ہے کہ ووٹر کو یاد دلاؤں کہ اس کے ہاتھ میں کتنی بڑی قوت ہے۔
کبھی حصولِ اقتدار کا فیصلہ تلوار کیا کرتی تھی۔ کسی صاحبِ اقتدار سے یہ منصب واپس لینے کا اس کے علاوہ کوئی اور راستہ تھا نہ طریقہ۔ پھر انسانی تاریخ میں وہ موڑ آ گیا کہ جب تلوار کی بجائے حصولِ اقتدار کا فیصلہ ووٹ سے ہونے لگا۔ جن یارانِ تیزگام نے ووٹ کا راستہ اپنایا تو انہی نے حقیقی جمہوریت کی منزل کو جا لیا۔
ہم بھی جمہوری راستے کے مسافر ہیں مگر ابھی تک رہگزر میں ہیں۔ نوجوان پوچھتے ہیں کہ گزشتہ 75برس سے ابھی تک رہگزر میں کیوں ہیں اور منزل پر کیوں نہیں پہنچے؟ اصل میں ہمارے ساتھ حادثہ یہ ہوا کہ جب شاہراہِ دستور پر جمہوریت کی گاڑی فراٹے بھرنے لگتی تھی تو کوئی زور آور آگے بڑھ کر بزورِ شمشیر گاڑی کا راستہ روک لیتا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہو جاتا تھا۔ یہ کہانی ملک کے ہر پیرو جواں کو کچھ نہ کچھ معلوم ہے‘ لہٰذا اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ اس کہانی کا خلاصہ منیر نیازی کے الفاظ میں آپ کو سنا دیتے ہیں ؎
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
کل ہونے والے انتخابات میں 12کروڑ 85لاکھ ووٹرز اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ آپ کس کو ووٹ دیں مگر میں یہ ضرور کہوں گا کہ آپ اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دیں۔ آپ اسے ووٹ دیں جس کے بارے میں آپ کا دل گواہی دے کہ اس کے دل میں بھی آپ کا درد ہے۔ خوب غور سے دیکھیں کہ کس نے عوام کو محرومیاں اور تاریکیاں دیں اور کون اس ملک کے عوام کی ہر حال میں خدمت کرتا رہا۔ اسے ووٹ دیں جو اس ملک کے خزانے کو اپنا یا اپنے خاندان کا اثاثہ نہیں بلکہ عوام کی امانت سمجھتا ہے۔
ہمارے ملک کے سیاستدانوں اور فیصلہ سازوں کو اس ملک کے مسائل کا بخوبی اندازہ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ہم ایٹمی قوت ہوتے ہوئے بھی کشکولِ گدائی ہاتھ میں لے کر گلی گلی اور نگر نگر دریوزہ گری کرتے پھرتے ہیں۔یقینا ہمارا سب سے بڑا مسئلہ معیشت کی بربادی ہے۔مگر یہ بربادی خوش حالی میں صرف اسی وقت بدل سکتی ہے جب ہمارے سارے سٹیک ہولڈرز صدقِ دل سے سیاسی کھیل کے اصول و ضوابط کی پابندی کا فیصلہ کرلیں ۔
یاد رکھئے سیاسی استحکام کے بغیر معاشی ترقی کا خواب‘ خوابِ پریشاں کے علاوہ کچھ نہیں۔ جب تک اس ملک کی سیاسی و غیر سیاسی مقتدر قوتیں ماضی کی غلطیوں کا ادراک کر کے آئندہ انہیں نہ دہرانے کا فیصلہ نہیں کر لیتیں اس وقت تک ہم اسی طرح گرداب اور بھنور میں گھرے رہیں گے اور آگے بڑھنے کے بجائے اسی دائرے میں چکر کاٹتے رہیں گے۔
ہماری معیشت کا سب سے بڑا روگ قرضوں کا پہاڑ ہے۔ ہمارے مجموعی قرضے تقریباً 63کھرب روپے یا 223.86 ارب ڈالر ہیں۔ اس میں 122ارب ڈالر ہمارا بیرونی قرضہ ہے۔ نومبر2024ء میں ہمیں قرضوں اور سود کی مد میں تقریباً ساڑھے27ارب ڈالر ادا کرنے ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرتے کرتے عام آدمی کیا سفید پوش کیلئے بھی جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا ناممکن ہو گیا ہے۔ بجلی کے ہوشربا بلوں کے بعد اب گیس کے بل نہ صرف ناقابلِ برداشت بلکہ ناقابلِ بیان ہیں۔
دس کروڑ پاکستانی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ تعلیم ایک تجارت بن چکی ہے۔ ایک ایک سمسٹر کی فیس لاکھوں میں ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ دو دہائیوں سے حکومتوں کا عوام الناس کیلئے واضح میسج یہ ہے کہ تعلیم غریبوں کیلئے نہیں امیروں کیلئے ہے۔ ملک کے کم از کم پونے تین کروڑ بچے سکول سے باہر ہیں۔یہ بچے گھروں‘ ورکشاپوں اور دکانوں میں کام کرنے پر مجبور ہیں یا سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔
دم توڑتی دہشت گردی نے ایک بار پھر سر اٹھا لیا ہے۔ کبھی سٹریٹ کرائم کراچی تک محدود تھے۔ اب لاہور اور دوسرے بڑے شہروں میں بھی عام ہیں۔ کرپشن زوروں پر ہے۔ عام قاصد سے لے کر افسروں تک‘ سرکاری دفاتر میں رشوت کے بغیر کام نہیں ہوتا۔ پولیس کی وردی تو بدلی ہے مگر ان کا رویہ نہیں بدلا بلکہ پہلے سے بدتر ہو گیا ہے ۔ اسی طرح سرکاری ہسپتالوں میں علاج نہیں۔ عدالتوں میں غریبوں کیلئے فری اور فوری انصاف نہیں۔ مجموعی طور پر گورننس کا برا حال ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ یہ ملک غریبوں کا نہیں اشرافیہ کا ہے۔ اب یہ ووٹر کا کام ہے کہ وہ سوچے کہ اس کی ساری مشکلات کا سبب ماضی کی کون کون سی حکومتیں ہیں۔
پانچ سال کسی ایک یا ایک سے زیادہ حکومتوں کے ہوتے ہیں۔ اس عرصے میں وہ جو چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں۔ عوام بلبلاتے ہیں‘ فریاد کرتے ہیں‘ چیخ پکار کرتے ہیں مگر کوئی اُن کی نہیں سنتا۔ اب کل 8فروری آپ ووٹروں کا دن ہے۔ کراچی کی حالیہ ایک ہی بارش نے جہاں 'عروس البلاد‘ کی بربادی کا فسانہ سنا ڈالا وہیں دس برس سے شہر اور صوبے کی حکمران جماعت کی کارکردگی کا پول بھی کھول کر رکھ دیا ہے۔
اپنے مقدر کا فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔ دیکھ لیجئے کہ کئی دہائیوں سے حکمران امیر سے امیر تر ہوتے چلے گئے اور عوام غریب سے غریب تر ہو چکے ہیں۔ کل کا دن مفلوک الحال لوگوں کا دن ہے‘ کل کا دن بندئہ مزدور و مجبور کا دن ہے‘ کل کا دن بندئہ ہاری و کسان کا دن ہے اور کل کا دن نوجوانوں کا دن ہے۔ خوب سوچ سمجھ کر اپنی تقدیر اس امیدوار اور پارٹی کو سونپ دیجئے جو قول کی سچی اور وعدے کی پکی ہو اور جو آپ کا حق آپ کے گھر کی دہلیز پر پہنچائے۔
ووٹروں سے ہماری درخواست ہے کہ جوق در جوق نکلیں اور اپنا حق رائے دہی ضرور استعمال کریں۔ یاد رکھئے کل 8فروری کا ایک لمحہ آپ کی تقدیر سنوار بھی سکتا ہے اور بگاڑ بھی سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں