عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا

اس وقت جمعۃ المبارک کے روز سہ پہر کے تین بجے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی کمٹمنٹ کے مطابق انتخابات کے مکمل نتائج جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب دو بجے تک آ جانے چاہئیں تھے‘ مگر ابھی تک قومی اسمبلی کی 266سیٹوں میں سے 156کارزلٹ ہی آسکا ہے۔ ان نتائج کے مطابق 70آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر علی کا دعویٰ ہے کہ جیتنے والے زیادہ تر آزاد امیدواروں کا تعلق تحریک انصاف سے ہے‘ جبکہ مسلم لیگ (ن) کے 47اور پیپلز پارٹی کے 34امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ ہفتے کے روز جب آپ یہ کالم ملاحظہ فرمائیں گے اُس وقت تک تقریباً مکمل نتائج آپ کے سامنے ہوں گے۔
الیکشن ڈے کے حوالے سے جگ بیتی سے پہلے آپ بیتی کی ایک جھلک آپ کو دکھا دوں۔ ہم لاہور کی جس بستی کے باسی ہیں وہاں 2018ء کے انتخابات کے موقع پر اس رہائشی ٹاؤن کے تقریباً اندر ہی مردوں اور عورتیں کے پولنگ سٹیشنز بنائے گئے تھے۔ اس بار ہماری بستی سے کم از کم آٹھ کلومیٹر دور بھاری ٹریفک والی ملتان روڈ کی بغلی سڑک سے بل کھاتی ہوئی گلیوں میں کہیں اندر جا کر ایک سکول میں ہمارے ٹاؤن کا خواتین پولنگ سٹیشن بنایا گیا تھا۔ وہاں سے مردوں کا پولنگ سٹیشن بلامبالغہ 16‘ 17 کلومیٹر دور جاتی امرا کے قریب کسی دیہی سکول میں بنایا گیا ۔ میری بیگم صاحبہ صبح سویرے وہاں ووٹ دینے پہنچیں تو وہاں لمبی قطار موجود تھی۔ ملتان روڈ پر دور دور تک گاڑیاں پارک کی گئی تھیں۔ غالباً دانستہ یا نادانستہ یہ اندازہ لگایا گیا ہو گا کہ اس ٹاؤن کے آسائش پسند رہائشی اتنی دور کہاں ووٹ دینے جائیں گے‘ مگر وہاں ووٹر خواتین اپنی پسند کے امیدواروں کے حق میں ووٹ دینے کے لیے بہت پُرجوش تھیں۔
ڈرائیور اور ایک گاڑی کو وہاں چھوڑا اور دوسری گاڑی میں ہم باپ بیٹا اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔ اپنے ٹاؤن کے لیڈیز پولنگ سٹیشن سے 17کلو میٹر دور ووٹنگ کا فریضہ انجام دینے میں کتنا وقت لگا اور ہم پر کیا گزری یہ پُر پیچ طویل کہانی پھر کبھی سہی۔ اس دوران موبائل فون سروس مکمل طور پر بند ہو چکی تھی۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی‘ نگران وزیراعلیٰ پنجاب اور چیف الیکشن کمشنر کے بیانات میں کہا گیا تھا کہ موبائل سروس بند نہیں ہو گی مگر یہ بیانات دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ہمارے ایک کزن فیصل آباد کے انتخابی اکھاڑے کے ایک بڑے کھلاڑی تھے۔ ہمیں وہاں ان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے جانا تھا۔ اب ہم میاں بیوی سڑکوں پر ایک دوسرے کو تادیر تلاش کرتے رہے۔ موبائل کا رابطہ تو تھا نہیں۔ بہرحال بعد از دشواری ٔبسیار ہمارا آپس میں رابطہ ہو گیا اور ہم فیصل آبادکے لیے روانہ ہو گئے۔ وہاں پہنچ کر اپنے کزن امیدوار کو تین بجے تک مختلف پولنگ سٹیشنوں پر ڈھونڈتے رہے۔ تقریباً یہی سارے ملک کی جگ بیتی تھی۔ شہریوں کو آپس کے رابطے‘ پولنگ سٹیشنز ڈھونڈنے اور 8300پر اپنا سلسلہ نمبر اور پولنگ سٹیشن معلوم کرنے میں ناقابلِ برداشت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح پریزائیڈنگ افسران کو نتائج بھیجنے میں بھی سخت دشواری پیش آئی۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایسا کیوں کیا گیا اور اس میں کیا حکمت پنہاں تھی‘ اسی غیرمعمولی تاخیر کی بنا پر طرح طرح کے شبہات جنم لے رہے ہیں۔
یوں تو ہر انتخاب چاہے پاکستان میں ہو یا کہیں اور اپنے ساتھ سرپرائزیز لے کر آتا ہے۔ مگر یہاں الیکشن سے پہلے جو فضا قائم ہوئی تھی‘ نتائج اس سے بہت مختلف آئے ہیں۔ خاص طور پر پنجاب میں مسلم لیگ (ن)کی کامیابی ان کے دعووں کے برعکس بہت کم ہے۔ ایک بار پھر اس بات کو دہرا دوں کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہے۔ اس تباہ حال معیشت کا سب سے بڑا روگ قرضوں کا پہاڑ ہے‘ ہمارے مجموعی قرضے 223.86ارب ڈالر ہیں اور ماہِ نومبر میں ہم نے قرضوں اور سود کی مد میں 27ارب ڈالر ادا کرنے ہیں مگر سیاسی استحکام کے بغیر معاشی خوش حالی کا حصول ممکن نہیں۔ اس لیے ہماری قومی ترجیح نمبر وَن ''سیاسی استحکام‘‘ ہے۔ سیاسی جماعتوں اور مقتدر حلقوں کو خوش دلی سے عوام کا فیصلہ قبول کرلینا چاہیے۔
اسے ہماری قومی سیاست کی خوش بختی ہی کہنا چاہیے کہ تحریک انصاف کو خان صاحب کی عدم دستیابی میں بیرسٹر گوہر علی خان کی قیادت میسر ہے۔ گوہر علی خان سیاست اور ریاست دونوں کے تقاضوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ وہ دھیمے مزاج کے اعتدال پسند قانون دان ہیں۔ وسیع تر ملکی مفاد میں الیکشن کمیشن بیرسٹر گوہر علی خان کو پی ٹی آئی کی چھتری تلے اپنے ''آزادوں‘‘ کو اکٹھا کرنے کا موقع دے۔ جہاں تک وزارتِ عظمیٰ کا تعلق ہے تو اس کے تین امکانات ہے۔ پہلا امکان تو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت ہو سکتی ہے۔ اگرچہ بیرسٹر گوہر علی خان نے کسی مخلوط حکومت کا حصہ بننے سے اجتناب کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔ دوسرا امکان وہی پرانا زرداری و شہباز شریف ماڈل ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت تشکیل پا جائے۔ تیسرا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بیوپاری اسلام آباد پہنچ کر آزاد امیدواروں کی آزادی خریدنے کے لیے بولی بھی لگا سکتے ہیں‘ اس حوالے پیپلز پارٹی کی قیادت وسیع تر تجربہ رکھتی ہے؛ تاہم ہمارے اندازے کے مطابق بیوپاریوں کو اس طرح کا بکاؤ مال شاید بڑی تعداد میں میسر نہیں آ سکے گا۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کامیابی سے ہمکنار ہو چکی ہے۔
کراچی سے جماعت اسلامی کے مقبول عوامی رہنما حافظ نعیم الرحمن اور اسلام آباد سے ایک ہر دلعزیز امیدوار میاں محمد اسلم نے انتخابی نتائج میں انجینئرنگ کے الزامات لگائے ہیں۔ حافظ صاحب نے ایک بار پھر ایم کیو ایم کو ''فری ہینڈ‘‘ دینے اور کراچی کو بدامنی کے حوالے کرنے کے بارے میں بھی متعین نوعیت کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کو ان شکایات کا فوری جائزہ لے کر اُن کا ازالہ کرنا چاہیے اور جہاں جہاں سے ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہوں وہاں وہاں ویسے ہی فوری نوعیت کے فیصلے کرنے چاہئیں جیسے انہوں نے پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران ضمنی الیکشن کے موقع پر کیے تھے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ چیف الیکشن کمشنر نے ڈسکہ‘ سیالکوٹ کے ضمنی انتخاب کے موقع پر دھاندلیوں کا نوٹس لیتے ہوئے وہاں ری الیکشن کروایا تھا جس میں مسلم لیگ (ن) کی نوشین افتخار کامیاب ہوئی تھیں۔
اگرچہ تادمِ تحریر قومی اسمبلی کی 156نشستوں کے نتائج سامنے آئے ہیں‘ تاہم یہ واضح ہے کہ مسلم لیگ (ن) حسبِ توقع کامیابی حاصل نہیں کر سکی‘ جبکہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزادامیدواروں کی کامیابی توقع سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ہر جماعت کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔ مثلاً تحریک انصاف کو اپنے زمانۂ اقتدار کی غلطیوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کو اپنی انتخابی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ پارٹی نے ٹکٹوں کی تقسیم کے موقع پر اپنے انتہائی وفا شعار اور جرأت مند کئی ساتھیوں کو نظر انداز کیا تھا۔ جیسے نارووال سے دانیال عزیز‘ فیصل آباد سے طلال چودھری اور مری سے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی۔ الیکشن ڈے سے دو روز پہلے مسلم لیگ (ن) نے تمام قومی اخبارات کے صفحہ اوّل پر فل سائز اشتہار شائع کروایا۔ اشتہار کی 8کالمی سرخی یوں تھی:''نواز شریف وزیراعظم‘‘... عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا‘‘ ۔اب الیکشن میں عوام نے اپنا حقیقی فیصلہ سنا یا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں عوام کے فیصلے پر سر تسلیمِ خم کر دیں گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں