جماعت اسلامی کی انتخابی ناکامی

حالیہ عام انتخابات کے نتائج کے بارے میں تو بہت سے مقامات پر شدید نوعیت کے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے مگر سب سے زیادہ کراچی کے نتائج متنازع ہیں۔ جماعت اسلامی کے دعوے کے مطابق وہاں اس کی کامیابی پر شب خون مارا گیا اور اس کی جیتی ہوئی سیٹیں ایم کیو ایم کی جھولی میں ڈال دی گئیں۔اس کے علاوہ کئی اور جگہوں پر بھی جماعت اسلامی کی چند جیتی ہوئی سیٹوں پر دھاندلی کی گئی۔تاہم جماعت اسلامی کو سارے ملک میں برپا انتخابی معرکے میں کوئی پذیرائی نہیں ملی۔ نہ سیٹوں میں نہ ووٹوں میں۔ جماعت نے جتنی پُرجوش الیکشن مہم مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر چلائی اس سے جماعت کے زعماکو یہ یقین ہو چلا تھا کہ اُن کے دیے گئے انتخابی نعرے ''حل صرف جماعت اسلامی‘‘ پر پاکستانی ووٹرز آمنا و صدقنا کہیں گے۔ مگر ہوا اس کے برعکس‘ جماعت اسلامی کو نمایاں کیا‘ غیر نمایاں کامیابی بھی نہیں ملی۔
اس ناکامی پر جماعت کے کارکنوں اور حامیوں کو ہی نہیں دوسرے مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگوں کو بھی دلی صدمہ ہوا ہے۔ جناب سراج الحق اور حافظ نعیم الرحمن جیسی شخصیات کسی بھی پارلیمان کی جان اور شان ہوتی ہیں۔ جناب سراج الحق نے جماعت کی حالیہ عمومی انتخابی ناکامی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے جماعت کی امارت سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔ اُن کے اس فیصلے پر مجھ سمیت جہاں بہت سے افراد کی جانب سے دکھ کا اظہار کیا جا رہا ہے وہاں اس فیصلے کو بہت سراہا بھی جا رہا ہے کیونکہ پاکستان میں ذمہ داری قبول کرنے والی ایسی روایت کم کم ہی دیکھنے میں آتی تھی۔
سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی اس ملک کی سب سے نیک نام‘ دیانت دار اور خدمت گار جماعت ہے مگر یہ مرجعٔ خلائق کیوں نہ بن سکی؟ کچھ لوگ ایسے نتائج کیلئے قوم کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں کہ اُس کی کم فہمی‘ دنیا پسندی‘ برادری‘ عصبیت اور مسلکی گروہ بندی کی بنا پر نتائج جماعت کے حسبِ توقع نہیں نکلتے۔ تاہم جماعت اسلامی کے ایک سابق مفکر و مدبر‘ نائب امیر خرم جاہ مراد مرحوم ایسے طرزِ فکر کو بالکل غیر مناسب اور ناروا سمجھتے تھے۔ پھر جماعت اسلامی کی پے بہ پے ناکامی کے اسباب کیا ہیں۔ دراصل جماعت اسلامی کچھ مغالطوں میں گرفتار ہے اور وہ اپنے تئیں خود کو کسی مغالطے کا اسیر نہیں سمجھتی اوراپنی ہی پالیسی کو حرفِ آخر گردانتی ہے۔ 1970ء سے لے کر ا ب تک ہر انتخاب میں بڑی کامیابی کی توقع کے بعد جب جماعت ناکامی سے دوچار ہوتی ہے تو یہ کہتی ہے کہ ہمیں سیٹیں نہیں ملیں تو کیا ہوا‘ ہمیں توسیعِ دعوت کے وافر مواقع توملے یا ہمارے ووٹوں کی تعداد میں اضافہ تو ہواہے۔جماعت اسلامی جتنی جلدی یہ مغالطہ دور کر لے گی اس کیلئے اتنا ہی اچھا ہوگا۔ انتخاب سیٹیں جیتنے کیلئے لڑا جاتا ہے نہ کہ توسیعِ دعوت یا ووٹوں کی تعداد بڑھانے کیلئے۔ اگر جماعت کے ووٹوں کی تعداد میں ملکی سطح پر دو چار لاکھ کا اضافہ ہو بھی جائے تو کوئی اس کا نوٹس نہیں لیتا۔ آپ کی انتخابی کامیابی اسمبلیوں کی سیٹوں سے ناپی جاتی ہے نہ کہ ووٹوں کی گنتی سے۔
جماعت اسلامی کا ایک اور مغالطہ یہ ہے کہ ہر سیٹ پر اپنا امیدوار کھڑا کیا جائے ا ور اپنے بل بوتے پر کھڑا کیا جائے۔ 2024ء کے انتخابات میں جماعت نے قومی اسمبلی کی 266سیٹوں میں سے 231 سیٹوں پر اور ملک کے چاروں صوبوں کی کل 593سیٹوں میں سے 524 پر اپنے امیدوار کھڑے کیے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ قومی اسمبلی کی231 میں سے ایک نشست پر بھی جماعت کو کامیابی نہیں ملی جبکہ 524 صوبائی سیٹوں میں سے جماعت کو صرف تین سیٹیں ملی ہیں۔
جماعت اسلامی کا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ وہ داخلیت پسند ہے۔ جماعت کے اکثر لوگوں کا تعلق مڈل کلاس سے ہے۔ وہ قوم کے سرداروں اور الیکٹ ایبلز کو کم کم ہی اپروچ کرتے ہیں۔ خدا کے آخری نبیؐ نے ربِّ ذوالجلال سے گڑ گڑا کر دعا کی تھی کہ وہ انہیں عمر بن ہشام یا عمر بن خطاب میں سے کوئی ایک عطا کر دے۔ آج کی اصطلاح میں وہ اس دور کے الیکٹ ایبلز تھے ۔عوام اور جماعت میں ایک بہت بڑا کمیونیکیشن گیپ ہے۔ سول سوسائٹی اور ا یلیٹ کلاس جماعت کی سیاست سے ڈرتی اور عوام اور غریب کلاس اُن کی بات کونہیں سمجھتی ۔ غالباً جماعت میں اپنے سابقہ فیصلوں کے آڈٹ کا کوئی طریقِ کار رائج نہیں۔مثلاً 2002ء میں جماعت اسلامی کو ایم ایم کے پلیٹ فارم سے شاندار کامیابی ملی اور قومی اسمبلی میں اسے ملکی تاریخ میں پہلی بار 28سیٹیں ملی تھیں۔
اس اسمبلی میں جماعت کے خواتین و حضرات نے اپنی قابلِ رشک پرفارمنس سے ایوان اور میڈیا میں شاندار ریکارڈ قائم کیا۔2008 ء میں جب اگلے انتخابات کا موقع آیا تو یہ سمجھا جا رہا تھا کہ اس بار جماعت اسلامی کو انتخابات میں 2002ء والی اسمبلی سے کہیں بڑھ کر سیٹیں ملیں گی اور جماعت منتخب ایوانوں میں بھرپور کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔ مگر نہ جانے کیوں جماعت اسلامی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا جبکہ ساری قوم 'نو بائیکاٹ‘نو بائیکاٹ ‘کہہ رہی تھی۔
جماعت اسلامی کو اپنی تاریخ میں جب کبھی قابلِ ذکر کامیابی ملی وہ اتحادیوں کے ذریعے ملی۔ مگر نجانے کیوں جماعت کے ہاں یہ تاثر موجود ہے کہ ہمیں اتحادوں سے کیا ملا؟ جماعت کو اپنی نگاہ اپنے اہداف پر رکھنی چاہئے اور اتحادوں کو کامیابی کے زینے کے طور پر استعمال کرنا چاہئے حتیٰ کہ وہ منزل آ جائے جب واقعی جماعت اپنے بل بوتے پر شاندار کامیابی حاصل کر سکے۔کیا یہ ایک قومی المیہ نہیں کہ دیانت و امانت کی شہرت‘ بہترین تنظیم اور مخلص کارکنوں کے باوجود جماعت ہر انتخاب میں ناکامی سے دوچار ہوتی ہے۔ جماعت کے ایک دانشور خیر خواہ نے بڑی دل لگتی بات کہی ہے کہ جماعت کو دعا تو دی جا سکتی ہے‘ مشورہ نہیں۔ جماعت کیلئے ہماری خیر خواہی اور اخلاص کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق الیکشن میں کامیابی کیلئے کچھ تجاویز زعمائے جماعت کی خدمت میں پیش کر دیں۔
جماعت اسلامی کو اپنی انتخابی حکمت عملی ری وزٹ کرنی چاہئے۔ سب سے پہلے یہ مغالطہ دور کر لینا چاہئے کہ الیکشن سیٹیں حاصل کرنے کیلئے لڑا جاتا ہے نہ کہ ووٹوں کی تعداد بڑھانے کیلئے۔ دوسری گزارش یہ ہے کہ جماعت اپنے محدود بشری و مالی وسائل کو اکثر سیٹوں پر پھیلا کر ہر سیٹ سے چار‘ چھ ہزار ووٹ لے کر اپنا امیج کیوں خراب کرتی ہے۔ جماعت کو چاہئے کہ وہ اگلے انتخاب کیلئے ابھی سے صرف تیس‘ چالیس سیٹوں کا تعین کرے اور وہاں اپنے امیدواروں کے ناموں کو فائنل کر کے انہیں رابطہ عوام‘ تھانہ کچہری اور دیگر سماجی امور میں لوگوں کی بھرپور مدد کا ٹاسک دے۔ جہاں جہاں جماعت کے امیدواروں نے اپنے آپ کو عوامی مسائل کے ساتھ جوڑا وہاں وہاں اُن کے سامنے کامیابی کے بہت اچھے امکانات آئے ہیں۔ اس کی حالیہ مثال کراچی‘ گوادر اور دیگر چند مقامات ہیں۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ وہ جماعت جو تین بار کراچی کی میئر شپ اور دو بار خیبر پختونخوا کی حکومت میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر چکی ہو‘ اسے ملکی سطح پر کیوں کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ایک تجویز یہ بھی ہے کہ جماعت اسلامی دعوت‘ خدمت اور سیاست کو الگ الگ کر دے۔ شعبۂ خدمت تو پہلے ہی الگ ہو چکا ہے۔ جماعت کا الگ سیاسی ونگ قائم کر کے اسے دستورِ جماعت کی روشنی میں فری ہینڈ دیا جائے تو اس کے بہت اچھے نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ہم حالیہ ناکامی کو تحریک کی نہیں‘ جماعت اسلامی کی انتخابی پالیسی کی ناکامی سمجھتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں