''پیکا ایکٹ‘‘ اب بل سے باقاعدہ قانون بن چکا ہے۔ اس کے بارے میں قارئین پوچھتے ہیں کہ یہ کیا ہے؟ طویل انگریزی نام کو عام فہم زبان میں الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کا قانون کہہ سکتے ہیں۔ اگرچہ اس طرح کے درجنوں قوانین پہلے سے موجود ہیں مگر اب اس ترمیمی ایکٹ کے ذریعے حکومت نے نہ صرف سوشل میڈیا پر اپنی گرفت اور مضبوط کی ہے بلکہ روایتی میڈیا کو بھی اس لپیٹ میں لے لیا گیا ہے۔ یہی فکر مندی کی بات ہے۔
اس بارے میں تو دو رائے نہیں کہ سوشل میڈیا پر فیک نیوز‘ تہذیب و شائستگی سے گری ہوئی ''تنقید‘‘ بلکہ تذلیل پر ضرور کڑی گرفت ہونی چاہیے‘ یقینا اس کلچر کا بھی خاتمہ ہونا چاہیے کہ آپ کے منہ میں جو آئے آپ کہہ دیں اور یہ سمجھیں کہ آپ کسی کو جوابدہ نہیں۔ جس کی چاہیں پگڑی اچھال دیں اور یہ چاہیں کہ کوئی آپ کو پوچھنے والا نہ ہو۔ یہاں تک تو بات بالکل ٹھیک ہے مگر مین سٹریم الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے سروں پر تلوار کیوں لٹکا دی گئی ہے؟
جو شخص بھی میڈیا کی ورکنگ کو جانتا ہے اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ الیکٹرانک میڈیا میں کوئی خبر رپورٹر سے لے کر نیوز کاسٹر تک پہنچتے پہنچتے تصدیق کے کئی مراحل سے گزرتی ہے تب جا کر سکرین پر نمودار ہوتی ہے۔ اسی طرح پرنٹ میڈیا میں کوئی بھی خبر‘ کالم یا فیچر رپورٹر‘ سب ایڈیٹر سے لے کر ایڈیٹر تک ایک نہیں کئی چھاننیوں سے گزرنے کے بعد کہیں جا کر اخبارات کے صفحات کی زینت بنتا ہے۔ ریگولر میڈیا کے احتساب کے لیے پہلے سے کئی قوانین اور ادارے موجود ہیں۔ ایسی صورتحال میں جادۂ حق پر گامزن اور جوابدہی کا مکمل شعور و ادراک رکھنے والے ذمہ دار صحافیوں کو ایسے قوانین سے ڈرانے اور دھمکانے کی کیا ضرورت ہے۔
ہر اچھے جمہوری ملک میں آزادیٔ تحریر و تقریر اور اجتماع کو بنیادی انسانی حقوق کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ قانونی حدود کے اندر رہتے ہوئے یہ حق استعمال کرنے والوں کو کسی احتساب کا ڈر ہوتا ہے نہ ہی کسی حکومتی گرفت کا خدشہ۔ حکومت سے پوچھنے والا سوال یہ ہے کہ وہ چاہتی کیا ہے؟ کیا حکومت سو فیصد سچی خبر کی نشر و اشاعت بھی ناپسند کرتی ہے؟ کیا حکومت جائز اور تعمیری تنقید سننا بھی گوارا نہیں کرتی۔ اگر حکومت سچی خبر اور تنقید کا خیر مقدم کرتی ہے تو پھر حکومت پیکا ایکٹ میں مین سٹریم میڈیا سے وابستہ صحافیوں کی گردنوں پر لٹکائی گئی تلوار کو فی الفور میان میں ڈالے اور آگے بڑھ کر صحافی تنظیموں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھے۔
مرحوم الطاف گوہر 1950ء اور 60ء کی دہائی کے معروف بیورو کریٹ‘ صحافی و ادیب تھے۔ 1970ء کی دہائی میں وہ ممتاز انگریزی جریدے ڈان کے ایڈیٹر تھے۔ اپنی مدتِ ملازمت کے دوران تو وہ کلمۂ حق اگر کہتے بھی ہوں گے تو احتیاط سے ہی کہتے ہوں گے تاکہ حکمرانوں کی پیشانی پر بَل نہ آئے۔ البتہ انہوں نے ایک اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کے عوام کی دل و جان سے خدمت کی تھی۔ بنگالی بھی اُن کے بہت قدر دان تھے۔ ڈان کے ایڈیٹر اور ایک صحافی کی حیثیت سے وہ آزادیٔ تحریر و تقریر کے علمبردار تھے۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو برسراقتدار آ کر ان سے بہت نالاں رہے حتیٰ کہ انہوں نے الطاف گوہر کو پسِ دیوارِ زنداں بھیج دیا۔ اُن دنوں الطاف گوہر کہا کرتے تھے کہ آج حکمران محض اخباری خبروں اور تنقیدی تجزیوں کی تاب نہیں لاتے اور بھڑک اٹھتے ہیں کل جب ملکی اور غیر ملکی خبریں‘ تبصرے اور تجزیے بُوہے باریاں اور دیواریں پھلانگ کر ان کے آنگنوں میں ہوا بن کر اتریں گے تو پھر وہ کیا کریں گے۔ اُس زمانے میں میڈیا بس اخبارات تک ہی محدود تھا۔ کچھ سرکاری اور چند آزاد اخبارات تھے جن کا لوگوں کو شدت سے انتظار ہوتا تھا۔ ریڈیو تو تھا‘ ٹیلی ویژن بھی نیا نیا آیا تھا جو سرکاری کنٹرول میں تھا‘ اس سرکاری چینل کی نشریات بھی محض چند گھنٹوں تک محدود تھیں۔ اُس وقت جناب الطاف گوہر کی باتیں ناقابلِ فہم لگتی تھیں کہ یہ سب کچھ کیسے ہو گا۔ اس دور میں دور دور تک کہیں انٹرنیٹ وغیرہ کا کوئی تصور موجود نہیں تھا اور نہ ہی موبائل فون۔ آج ماشاء اللہ ٹی وی چینلوں کی بہار ہے۔
اس سے آگے مصنوعی ذہانت کے ناقابلِ یقین کرشمے سامنے آ رہے ہیں۔ مثلاً چیٹ جی پی ٹی کی سات پردوں میں چھپی ہوئی ہر خبر پر نظر ہوتی ہے۔ دیکھیے خبر کی سرشت ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ ہر زمانے میں تیزی سے پھیلتی ہے۔ جب ریڈیو تھا نہ اخبارات‘ اس دور میں بھی وہ اسی تیزی کے ساتھ دور دور تک پہنچ جاتی تھی جیسے آج انٹرنیٹ کے دور میں خبر پلک جھپکتے ہی کئی براعظم عبور کر جاتی ہے۔ ممتاز امریکی مصنف جان سٹین بک کا ایک مختصر سا ناول The Pearl ساری دنیا میں کئی دہائیوں سے بہت مشہور ہے۔ یہ اُس زمانے کے پس منظر میں لکھا گیا ہے جب اخبار اور ایڈیٹر شاید تھے ہی نہیں۔ ناول کے ہیرو ایک مچھیرے Kino کو دنیا کا سب سے بڑا موتی سمندر سے ملتا ہے۔ وہ اس خبر کو بہت چھپا کر رکھتا ہے مگر ایک دو روز میں یہ خبر عام ہو جاتی ہے اس لمحے کینو نے کہا تھا:Nobody Knows how it travels but it travels very fast
انجینئروں اور ادیبوں کو تو پریشر ککر کے ڈھکن پر لگے سیفٹی والو کی بنیادی ضرورت کا پوری طرح ادراک ہے مگر شاید ہمارے حکمرانوں کو اس کی اہمیت کا اندازہ نہیں۔ بریگیڈیئر صدیق سالک نے پریشر ککر کے عنوان سے ایک ناول لکھا ۔ انہوں نے ناول میں ایسے معاشرے کی تصویر کشی کی ہے جو مسلسل سیاسی‘ سماجی اور اقتصادی دباؤ کے پریشر ککر میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ عوامی پریشر ککر پر سیفٹی والو ہونا چاہیے تاکہ ککر کی بھاپ کی طرح انسانوں کے جذبات کی لہریں بھی مہذب میڈیا کے ذریعے نکلتی رہیں وگرنہ اچانک کچن کے ککر کی طرح یہ سماجی ککر بھی پھٹ سکتا ہے۔ پیکا ایکٹ کی مختصر کہانی یہ ہے کہ فروری 2022ء میں وفاقی کابینہ سے الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کے قانون 2016ء میں آرڈیننس کے ذریعے ترمیم لانے کی منظوری لی گئی۔ اس ترمیم کے مطابق فوج‘ عدلیہ اور دیگر سرکاری اداروں پر تنقید کرنے والوں کے لیے پانچ سال تک کی قید کی سزا تجویز کی گئی۔ 8اپریل 2022ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیکا آرڈیننس کو کالعدم قرار دے دیا۔ اب پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025ء الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کے لیے لایا گیا ہے۔اس تازہ ترین ترمیمی بل میں سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ مین سٹریم میڈیا کو بھی پابندِ سلاسل کرنے کی کوشش نظر آتی ہے۔ ہمارے برادرِ محترم عرفان صدیقی سنجیدہ اور بامعنی مذاکرات پر بہت زور دیتے ہیں۔ وہ مذاکرات کو مسائل کے حل کا بہترین فورم سمجھتے ہیں۔ اگر حکومت اس قانون کے مین سٹیک ہولڈرز جرنلسٹس اور ایڈیٹرز کی تنظیموں سے مشورہ کر لیتی تو آج یہ تنظیمیں آزادیٔ صحافت کے لیے جگہ جگہ احتجاج نہ کر رہی ہوتیں۔
فوج تو سر آنکھوں پر‘ ان کا اپنا داخلی احتسابی نظام ہے اور وہ ہمارا دفاعی ادارہ ہے۔ باقی اداروں پر تعمیری تنقید کو حکومت کیوں روکنا چاہتی ہے؟ حکومت بلاتاخیر الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھے اور ایک ہی لاٹھی سے سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا کو ہانکنے والی شقیں ختم کرے اور میڈیا کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلے۔ اسی میں ملک و قوم کا بھلاہے۔